دماغ کی تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟
سید عرفان احمد
(مضمون “مائنڈ سائنس ،کتنی حقیقت ،کتنا جادو”نامی کتاب سے ماخوذ ہے)
دماغ کی لچک برتاؤ اور عادات کو بدلنے میں مدد دیتی ہے
معروف کوانٹم فزیسسٹ ڈاکٹر جوڈسپیںزا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ہمیں بتایا اور سکھایا جاتا ہے کہ ہماری تربیت جس انداز سے ہوئی اسی کے مطابق ہم اپنی زندگی گزاریں گے گویا اب ہمارے والدین ، اساتذہ ، کلچر اور ماحول نے جو ظلم روا رکھے اسی کے مطابق زندگی گزارنا ہماری مجبوری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دماغ میں انتہا کی لچک پائی جاتی ہے یہ لچک اور قبولیت کی صلاحیتیں ہمیں اس قابل کرتی ہیں کہ ہم جو نیا برتاؤ او اور عادات اختیار کرنا چاہتے ہیں اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ پرانی عادات اور برتاؤ جن عصبی رابطوں (نیورل کنکشنز)کے باعث تشکیل پایا ہے ان عصبی رابطوں کو تبدیل کر کے اپنے پرانے برتاؤ یا عادت کو بھی بدل ڈالا جائے۔
کیا آپ اپنے خیالات کے موجودہ ڈھپ سے پریشان ہیں ؟
اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ اپنے خیالات کے موجودہ ڈھپ(Thought Pattern ) سے پریشان ہیں اور اس ڈھپ کو بدلنا چاہتے ہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ ہمارے اندر اپنے دماغ ، برتاؤ ، شخصیت اور اپنی پوری زندگی کو بدلنے کی بہت زیادہ قوت موجود ہے۔ کیا آپ نے ایسے بے شمار افراد کی کہانیاں نہیں پڑھیں جو شدید حالات سے گزرے مگر انہوں نے اپنے کرخت ماضی کا سایہ اپنے مستقبل پر پر پڑنے نہیں دیا ۔انہوں نے اپنی اسی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حالات کو کو بدل کر رکھ دیا۔
سوچ اور دماغ بدلنے کے لئے مینٹل ریہرسل
نیورو سائنس پر ہونے والی جدید ترین تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم محض اپنی سوچ کو بدل کر اپنے دماغ کو بدل سکتے ہیں ۔اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں اسی کام کا تصور کرتے ہوئے اسے ذہن میں میں دہرایا جائے(مینٹل ریہرسل) ۔ ایک مطالعے میں شریک لوگوں نے اپنے ہاتھ کی انگلی کو حرکت دینے کا تصور پانچ دن تک روزانہ دو گھنٹے کیا دماغ میں تو ان کے دماغ میں وہی تبدیلی ہوئی جو باقاعدہ حقیقتاً انگلی کو حرکت دینے والوں کے دماغ میں ہوئی تھی۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب ہم واقعتا کسی کام پر فوکس ہوتے اور انتہائی ذہنی یک سوئی رکھتے ہیں تو ہمارا دماغ ذہن کی اندرونی دنیا اور بیرونی ماحول کے درمیان فرق نہیں کر پاتا۔
جسم دماغ میں موجود تصورات کے مطابق رد عمل دیتا ہے
اس قسم کی شدید کیفیت ہمارے ساتھ خواب کے دوران ہوتی ہے کہ جب ہم سوتے ہیں جو کچھ دیکھتے ہیں اسی کے مطابق ہمارے جسم میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارا جسم دماغ میں موجود تصورات کو سچ سمجھ کر اسی کے مطابق رد عمل کرتا ہے۔ اگر ہم بیرونی ماحول سے متاثر ہوئے بغیر کچھ سوچیں گے تو ہمارا دماغ بیرونی ماحول کے مطابق عمل کرنے کی بجائے اندرونی سوچ کے مطابق عمل کرے گا۔ اگر آپ اگلے ایک گھنٹے میں ہونے والے کسی کام کے بارے میں سوچیں گے تو دماغ کا ردعمل ایسا ہوگا کہ گویا یہ کام پہلے ہی ہوچکا ہے۔
چنانچہ ہم اپنی خواہش یا ہدف کے مطابق اپنے ذہن کو کو پہلے سے تیار کرنے کے قابل ہیں ۔یوں ہم پہلے سے ذہن کو چیلنج کرتے اور اسے آنے والے حالات یا تجربات کے لیے تیار کر سکتے ہیں ۔سادہ طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ دماغ کی صورت میں ہارڈ ویئر تو موجود یے بس اس میں سافٹ ویئر ڈالنے کی دیر ہے ۔چنانچہ جب ہم اپنا ذہن بدلتے ہیں تو ہمارا دماغ بھی بدل جاتا ہے اور جب ہمارا دماغ بدلتا ہے تو ذہن میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔
جسم ذہنی خواہشات کے مطابق تبدیل ہو سکتا ہے ؟
اب اسی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے بات کرتے ہیں کہ جب ہم اپنے ذہن کو مطلوبہ ہدف پر فوکس کرتے ہیں اور اپنے جسم کو مسلسل اس سے ہم آہنگ کرتے ہوئے عمل پر لگاتے ہیں تو ہم وہی ہدف حاصل کر لیتے ہیں یعنی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
کہنے دیجئے کہ ہم مستقبل میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمارا جسم نئے تجربات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کے لئے تیار کرتا رہتا ہے۔ ایک مطالعے کے دوران چند مردوں نے روزانہ کچھ عرصہ کے لیے ذہنی طور پر ڈمب بیل سے ورزش کا تصور کیا تو ان کے عضلات میں 13فیصد اضافہ ہو گیا حالانکہ انہوں نے ایک مرتبہ بھی حقیقتا ڈمب بیل کا استعمال نہیں کیا تھا ۔ان کے جسم ان کی ذہنی خواہشات کے مطابق تبدیل ہو گئے ۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم پہلے سے کسی ماحول یا تجربے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائیں تو ہم نئے ماحول یا تجربے سے مانوس ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں