ہوم اسکولنگ کیا ہے؟
ہوم اسکولنگ کا تصور کوئی نئی شے نہیں ، ہم ماضی میں جھانکنے کی جب کوشش کرتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانوں کے ہزاروں کامیاب لوگ وہ تھے، جو ہوم اسکولنگ سے مستفید ہوئے۔ اور آگے چل کر انہوں نے اپنے وقتوں میں بڑا نا م پیدا کیا ۔
ہوم اسکولنگ اپنے وقتوں میں بڑی کامیاب رہی ۔چونکہ پرانے ادوار میں نہ تو اتنے مکاتب وغیرہ ہوا کرتے تھے۔ اور نہ ہی وہ آسانیاں تھیں جو آج کے دور میں میسر ہیں۔ ایسے لوگ خال خال ہوا کرتے تھے، جو علم کو پھیلانے کا ذریعہ ہوتے تھے۔ ایسے لوگ عموما اپنے گھر میں ہی ایک مخصوص وقت میں تعلیم و تربیت کا بندو بست کرتے تھے۔ اور وہ بھی صرف اپنے بچوں کے لئے۔ جس میں آس پڑوس اور خاندان کے دوسرے بچے بھی شامل ہوجایا کرتے تھے ۔یہی ہوتی تھی ہوم اسکولنگ۔
نہ گھنٹہ اور پیریڈ کا باقاعدہ نظام ، نہ باقاعدہ کمرہ جماعت، کوئی دری بچھی ہوتی تھی۔ استاد اس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے اور طلباء بھی وہیں بیٹھ کر اپنی علمی پیاس بجھاتے۔
استاد طلبہ سے نسبتا تھوڑی اونچی جگہ پر سامنے گدی پر براجماں ہوتا، نہ جدید کتاب نہ کاغذ و قلم۔ لکڑی کی تختی اور روشنائی سامنے دھری ہوتی، سرکنڈے کو کاٹ کر بنایا ہوا قلم ہاتھ میں ہوتا، استاد لکھواتے تھے اور طلبہ لکھا کرتے تھے ۔
ہوم اسکولنگ کی باقاعدہ ابتداء
جدید ہوم اسکولنگ کا باقاعدہ آغاز ایک امریکی ماہر تعلیم اور مصنف جون ہالٹ کی کوششوں سے ممکن ہوا ۔جس کا سن پیدائش 14 اپریل 1930 بتایا جاتا ہے۔ تقریبا 70 کی دہائی میں جون نے جب محسوس کیا، کہ موجودہ طریقہ تدریس جو کہ امریکا میں رائج ہے، کوئ خاص مؤثر نہیں۔ تو اس نے ایک نئی راہ کھوج نکالی جو کہ ہوم اسکولنگ تھی۔ شروع میں جون کو اس سلسلے میں بڑی مخالفتوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ اس نے ان مسائل کی نشاندہی کی جو کہ امریکی نظام تعلیم کو درپیش تھے ۔
اس کے علاوہ اس نے تعلیم کے موضوع پر کئی کتابیں لکھیں۔ جن کو پڑھے لکھے طبقے میں بڑی پذیرائی ملی۔ اس نے بتایا کہ بچے کس طرح سیکھتے ہیں؟ اور کیوں سیکھتے ہیں؟بچے فیل کیوں ہوتے ہیں؟ اس نے اسی طرح کے کئی دلچسپ عنوانات پر کتابیں لکھیں؟ 1970 میں جون ہالٹ نے (جی ۔ ڈبلیو ۔ ایس) گروینگ ویتھ آؤٹ اسکولنگ کا تصور دیا ۔
تعلیم کی اقسام
کرونا کی وبا اور ہوم اسکولنگ
جدید دنیا نے ہوم اسکولنگ سے آگہی اس وقت حاصل کی، جب 2019 میں کرونا کی وبا عام ہوئی۔ گو کہ اس سے قبل بھی لوگ ہوم اسکولنگ کو جانتے تھے، لیکن اتنا نہیں جتنا کہ کورونا کی وبا کے دوران اس سے روشناس ہوئے۔ وبا کی وجہ سے جب تمام ادارے بند کردیے گئے تو لوگوں کو اس متبادل طریقے کے بارے میں پتہ چلا ۔ان پر یہ عقدہ کھلا کہ گھر پر رہ کر بھی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے ۔
کرونا وبا کے دنوں میں جدید دنیا کے باسی پرانے دور کے ہوم اسکولنگ کے آئیڈیا سے استفادہ کرنے لگے ۔ دیگر چیزوں کی طرح ہوم اسکولنگ بھی اپنے ساتھ کئی خوبیوں اور خامیوں کو لیے ہوئے ہے ۔ہمارے قدیم و جدید دانشوروں کا ایک طبقہ اسکولنگ کے خلاف تھا اور آج بھی ہے ۔ شاعر مشرق بھی دور جدید کے طرزِ تعلیم جسے آپ اسکولنگ کہتے ہیں ،کے حوالے سے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
آج ہمارے بہت سے دانش ور قوم کو اس چیز کی ترغیب دے رہے ہیں ۔کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکلوائیں۔ اور گھروں میں رکھ کر ان کو ہوم اسکولنگ فراہم کریں ۔گویا وہ چاہتے ہیں کہ
ہاں دکھادے اے تصور پھر وہی صبح و شام تو
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
سوال یہ ہےکہ کیا آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، ایسے معاشرے میں کیا ہوم اسکولنگ ممکن ہے ؟ جہاں والدین کو خود ہی تعلیم کی اہمیت اور بچوں کی تربیت کا نا تو احساس ہو۔ اور نا ہی ان لوگوں کو اس کی آگاہی ہو ۔ایسے لوگ کس طریقے سے اس فریضے کو سر انجام دے سکیں گے ۔
ہوم اسکولنگ کو کون سے والدین اپنا سکتے ہیں؟
جو والدین ہوم اسکولنگ کو اپنانے کی غرض سے آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ انہیں اس حوالے سے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ یہ کوئی آسان کام نہیں، بڑا ہی محنت طلب اور جان ماری کا کام ہے ۔اور ہمارے اس معاشرے میں جہاں والدین نے پرانے وقتوں میں تعلیم حاصل کی تھی ( آج ہمارے 75 فیصد والدین پرانے وقتوں کے تعلیم یافتہ ہیں ) کیا ان میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں جو آج کے جدید نصاب کو پڑھانے کے لیے ایک ٹیچر میں موجود ہونی چاہییں ؟ ظاہر ہے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ایسے میں ہمارے معاشرے کے اکثر والدین کس طرح سے ہوم اسکولنگ کو مینج کر پائیں گے۔
ہوم اسکولنگ کے حوالے سے چند اہم سوالات
ہوم اسکولنگ کے حوالے سے والدین کا چند باتوں سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے ۔
*) کیا آج کے والدین اپنے بچوں کو تمام سبجیکٹس کی تیاری گھر پر کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
*) کیا سب والدین اپنے بچے کو روزانہ کی بنیاد پر 5 سے 6 گھنٹے اس کی پڑھائی کے لیے فراہم کر سکتے ہیں؟
*) کیا سب والدین موجودہ دور کے تعلیمی چیلنجز سے آگاہ ہیں ؟
*) کیا سب کے گھروں میں کوئی ایسی جگہ موجود ہے جہاں آپ اس عمل کو با آسانی سر انجام دیں سکتے ہو؟ یعنی جہاں یک سوئی کا ماحول میسر ہو اور وہاں کسی کی آمد و رفت بھی نہ ہو؟
*) کیا آپ کی شخصیت میں مستقل مزاجی موجود ہے؟
*) کیا آپ بچے کی تعلیم و تر بیت کے مختلف مراحل سے آگاہ ہیں ؟
*) کیا آپ بچوں کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہیں؟
منددجہ بالا باتیں اور اسی طرح کے کئی اہم سوالات ہیں جن کا آپ کے پاس واضح ، حتمی اور مکمل جواب ہونا چاہیے ۔تب جا کر آپ گھر میں ہوم اسکولنگ شروع کر سکتے ہیں ۔ جس ماحول میں ہم جی رہے ہیں، اس میں اگر آپ کے پاس یہ تمام مہارتیں اور متعلقہ چیزیں موجود ہیں۔ تو بسم اللہ آپ کو ہوم اسکولنگ ضرور شروع کردینی چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو بچوں کو اسکول سے مت نکالیں اور انہیں وہیں پر رہ کر تعلیم حاصل کرنے دیں ۔
یاد رکھیں! تعلیم کا عمل مکمل توجہ ، جہد مسلسل اور انتھک محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ بچے کے لئے والدین سے بہتر کوئی مربی یا استاد نہیں ہو سکتا، بشرطیکہ ان کے پاس فرصت اور صلاحیت موجود ہو۔ اگر کسی بچے کے والدین میں یہ صلاحیتیں موجود ہوں اور ان کے پاس فرصت بھی ہو تو انہیں اپنی اولاد کے حوالے سے ہوم اسکولنگ کی پلاننگ لازمی کرنی چاہیے۔