غصہ اور اس کے مضراثرات
غصہ ایک جذبے کا نام ہے اور جذبہ خواہ کوئی بھی ہو جب حد سے نکل جائے تو تباہی و نقصان کا باعث ہوا کرتا ہے۔ جذبہ غصہ کی شکل میں ہو یا عشق اورنفرت کی شکل میں، جب یہ اپنی حدود کو توڑ کرباہر نکل جاتے ہیں توتباہی وبربادی انسان کا مقدر بن جایا کرتی ہے۔ زندگی اک روگ بن جاتی ہے جس سے چھٹکارا پھرممکن نہیں ہوتا۔
غصے کا بدمست گھوڑا انسان کو جو اس پر سوار ہو ایسی پر خار وادیوں میں جا دھکیلتا ہے جہاں قبائے عظمت انسانی تار تار ہو جایا کرتی ہے۔ جسم لہولہاں اور روح زخمی ہو جایا کرتی ہے۔ جس کا مداوا کسی مرہم یا پٹی سے نہیں ہوسکتا۔ شہ سواران غصہ بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ میں غصے کا بڑا سخت ہوں۔ کیا یہ ایسی کوالٹی ہے جسے فخریہ انداز میں بیان کیاجائے۔
غصہ ایک طرح کی بزدلی ہے
غصہ دراصل خوبی نہیں بلکہ بزدلی ہے کہ جب آپ سامنے والے کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تو جھٹ سے غصے کے بد مست گھوڑے پر سوار ہو جاتے ہیں، جسکی لگا میں آپکے اپنے ہاتھ میں بھی نہیں ہوتیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ گھوڑا خودآپ پر سوار ہو جاتا ہے۔ اور آپ کی لگا م اس گھوڑے کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔ اب وہ جہاں چاہے آپ کو با آسانی لے جاسکتا ہے۔ جس میں سراسر نقصان آپ کا اپنا ہوا کرتا ہے۔
غصے سے وہ نقصان جو ہو چکا ہے کیاپورا ہو سکتا ہے ؟ یقینا ایسا نہیں ۔ کیا اس شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے جو اس نقصان اور پھر اس کے نتیجے میں آنے والے غصے کا سبب بنا ؟ یہ بھی ممکن نہیں۔ تو سوچئے کہ پہلا نقصان تو اس شخص نے آپ کا کیا کہ جس سے کوئی غلطی ہوئی اور دوسرا نقصاں اب آپ خود اپنا کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غصے کے محرکات ، غصہ کنٹرول کرنے کے نفسیاتی اور روحانی طریقے
غصہ عقلمندی نہیں ہے۔
غصے کی صورت میں سامنے والے شخص نے تو ہمیں دانستہ یا نادانستہ جو بھی نقصان پہنچایا وہ اپنی جگہ، لیکن یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ کہ ہم اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا ماریں ۔جس ڈالی پر بیٹھے ہیں اسے ہی کاٹ ڈالیں۔ پہاڑ پر چڑھنے میں کئی کئی دن اور بعض اوقات ہفتوں لگ جایا کرتے ہیں۔ لیکن ایک ذرا سی غلطی پہاڑ سے گر جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اور چند ہی لمحوں میں انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
لہذا غصے والی غلطی کو اپنی زندگی سے نکال دیں۔ آپ کی زندگی خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی۔ جا بہ جا غصہ ہر وقت تیوری چڑھائے رکھنا اپنے بھی خفا اور اغیار بھی ناخوش والی بات۔ یہ ایک نقصان نہیں بلکہ کئی نقصانات کا باعث ہوتا ہے۔ انسان پر آنیوالی مصیبتوں میں زیادہ تر حصہ اسکی زبان اور ہاتھوں کا ہوا کرتا ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا :
وما اصابكم من مصيبة فبما كسبت اید کم ( الشوری: 30)
ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ۔
اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسروں محفوظ رکھیں۔
حدیث مبارکہ ہے وہ مومن نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ تم مجھے زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دےدو میں محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
اور یہی وہ دو اعضاء ہیں جو غصے کے وقت انسان کے کنٹرول میں نہیں رہتے۔ ایک آدمی غصے کا بڑا تیز تھا، گھر میں ریوالور موجود تھا کسی سے گالم گلوچ ہوئی اس نے گولی ماردی۔ اب مارنے والا جیل میں دوسرا قبر یا ہسپتال میں پڑا ہوا ہے۔ فقط دو ہی چیزوں نے کام دکھایا گالم گلوچ زبان سے شروع ہوئی اور گولی ہاتھ سے چلائی گئی۔ اب دونوں کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ساری کا روائی زبان اور ہاتھ کے سبب وجود میں آئی۔ جسمیں غصے کا عنصر شامل ہوا ۔اور اب ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اگر غصہ پر کنٹرول ہوتا تو یہ نا خوشگوار واقعہ نہ رونما ہوتا۔
کیا غصہ انسان کے اختیار میں ہے ؟
سوال یہ ہے کہ غصہ انسان کے اختیار میں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سو فیصد انسان کے اختیار میں ہے۔ آپ اپنی گاڑی میں جارہے ہیں ٹریفک سارجنٹ آپ کو روکتا ہے جرم کوئی نہیں۔ نہ اوور اسپیڈ، نہ سگنل توڑا ،نہ زیبرا کراسنگ پر گاڑی کھڑی کی، اور نہ ہی اوور ٹیک کیا۔
ٹریفک سارجنٹ بضد ہو جاتا ہے کہ چالان ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اختیار رکھتا ہے اور چالان کر بھی سکتا ہے۔ لیکن آپ غصے سے کام نہیں لیتے، بلکہ تحمل سے اس سے بات کرتے ہیں ۔کیونکہ اس کی پوزیشن با اختیار اور آپ کی پوزیشن بے اختیار کی ہے۔ آگے چلئے اگلے سگنل پر کوئی ٹھیلے والا آپ کی گاڑی سے ٹکرا جاتا ہے۔ آپ گاڑی سے اترتے ہیں لاتوں مکوں اور گھونسوں سے اس کی درگت بنا ڈالتے ہیں۔ کیونکہ یہاں آپ با اختیار اور ٹھیلے والا بے اختیار ہے۔
وہاں غلطی آپکی نہیں تھی پھر بھی آپ نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ۔ یہاں ہو سکتا ہے کہ غلطی بھی آپکی ہو لیکن بدلہ آپ نے بے چارے ٹھیلے والے سے لیا۔ تو بات یہ ثابت ہوئی کہ غصہ انسان کے اختیار میں ہے۔ وہ اس کا اظہار اس وقت کرتا ہے کہ جب مد مقابل کمزور ہو بصورت دیگر وہ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
غصہ کھولتے ہوئے پانی کی طرح ہے۔
غصہ کھولتے ہوئے پانی کی مانند ہے جو برتن کے اندر کھول کھول کر بھاپ بن کر اڑ جایا کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس برتن میں پڑے پانی سے جو کھول رہا ہے کھیلنے کی کوشش کرے تو یقینا یہ پانی اسے جلا کر رکھ دے گا۔ یہی حال غصے کا ہے جب اس کو اپنے اوپر انڈیل لیا جائے تو یہ نقصان کا باعث ہوا کرتا ہے۔ اگر اس موقعے پر صرف دس سے پندرہ منٹ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تو غصہ بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر فرماتے ہیں:
ظفر آدمی اسے نہ جائے گا ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم و ذکاء جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
تو غصے کے وقت یہ بھی ضرور سوچا کریں ،کہ میں بھی تو بارگاہ ربی کا مجرم ہوں۔ اگر رب نے مجھ سے بھی ایسا ہی معاملہ کیا جو میں دوسروں کے ساتھ کر رہا ہوں تو میرا کیا بنے گا اور مجھے کہاں پناہ ملے گی:
نہ کہیں جہاں میں پناہ ملی جو ملی بھی تو پھر کہاں ملی میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں
غصہ اورہمارا طرز زندگی
آج من حیث القوم ہم سب غصے کے سبب ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ کوئی کسی کی سیدھی بات بھی سننے کو تیار نہیں ہے جس میں فائدہ بھی اس کا اپنا ہو۔ ماں باپ بچوں سے نالاں، بچے ماں باپ سے، اساتذہ طالبعلموں سے اور طالبعلم اساتذہ سے، تو ایسے میں کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارے یہ ہو نہار بچے اور طالبعلم ،مستقبل کے معمار بنیں۔انہیں خود اپنے مستقبل کا پتہ نہیں۔ یہ مستقبل کے معمار نہیں بلکہ مستقبل کے بیمار ہیں۔ ان مستقبل کے بیماروں سے بھلا کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
اسمیں سراسر قصور ہمارا اور ہمارے طرز زندگی کا ہے، جسے ہم نے خود اپنا رکھا ہے۔ جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے بچے کیسے بدلیں گے؟ بچہ جو کچھ سیکھتا ہے اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اور اس ماحول کو فراہم کرنے میں والدین اور اساتذہ کا کردار بنیاد ی اور اہم ہوتا ہے۔ کیا کبھی سوچا ہے اس ننھے معصوم بچے کے بارے میں؟ جو صبح والدین سے ڈانٹ کھا کر اسکول جاتا ہے،اور دن بھر ٹیچر کے غصے اور غضب ناک نگاہوں سے ڈرا سہما رہتا ہے۔
پھروہی بچہ جب تھوڑا بڑا ہو جاتا ہے تو نہ والدین کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی ٹیچر کی سنتا ہے۔ یہ وہی غصہ اور ڈانٹ ڈپٹ کا ریکشن ہوتا ہے جو والدین اور اساتذہ کی جانب سے بچے کو ملا تھا ۔ جناب ساغرصدیقی کہتے ہیں کہ :
دنیا نے حادثات اور غموں کی شکل میں جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
والدین اور اساتذہ درست ہوں تو بچے بھی درست ہونگے۔
یاد رکھیں گے کہ پہلے ہم والدین اور اساتذہ نے تبدیل ہونا ہے، پھر بچے ضرور تبدیل ہو جائینگے۔ صرف بیج بو کے پھل کی تمنا کرنے والے احمق ہوتے ہیں۔ بیچ سے پودے، پودے سے درخت اور درخت سے پھل تک کا سفر جہد مسلسل کا متقاضی ہے۔ ہم محنت کئے بنا پھل کھانا چاہ رہے ہیں۔ اور یہ قانون قدرت کے خلاف ہے۔
قدرت نے اجناس مہیا کر دیں، روٹی پکا کر نہیں دی۔ قوانیں قدرت کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتے کیونکہ وہ حقائق ہیں۔ تبدیل انسان کو ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے آج کے اس طرز زندگی کو دیکھئے جہاں بچہ رات کو دیر سے سونے کا عادی ہے ۔کیونکہ یہ ایک لائف اسٹائل ہے جسے اس نے والدین سے سیکھا ہے۔ پھر صبح سویرے نہ اٹھنے کے چکر میں ڈانٹ ڈپٹ اور مار کھا کر بغیر ناشتے کے اسکول چلا جاتا ہے۔ جہاں اسے ہر مزاج کے ٹیچر کے غصے اور ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہتی ہے۔
یوں اساتذہ اور والد ین مل کر ایک بیمار ذہنیت کا حامل فرد معاشرے کے حوالے کر کے اپنے فرائض سے خود کو سبکدوش سمجھتے ہیں۔ یہ بچہ بڑ ہوکر کچھ اور بیمار ذھنیت کے لوگوں کو اولاد کی صورت میں پیدا کرے گا۔ پھر اسی روایتی گھسے پٹے طریقے سے ان کی بھی تربیت ہوگی۔ اور دوبارہ اسی طریقے سے چند بیمار ذہنیت والے افراد معاشرے کے سپرد کر دیئے جائینگے۔