غلاف کعبہ کی تبدیلی کی تاریخ تبدیل
تحریر؛ لطیف الرحمن لطف
رواں سال غلاف کعبہ کی تبدیلی ذوالحجہ کے بجائے محرم میں میں ہوگی۔اس حوالے سے سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز کی طرف سے باقاعدہ فرمان جاری کر دیا گیا ہے۔ زمانہ قدیم سے غلاف کعبہ کی تبدیلی کی رسم حج کے دنوں کے ساتھ مخصوص چلی آرہی ہے۔موجودہ سعودی حکومت بھی کئی دہائیوں تک اسی پرانی روایت پر عمل پیرا تھی۔
گزشتہ کئی عشروں سے 9 ذوالحجہ کو فجر کی نماز کے بعد غلاف کعبہ تبدیل کرنے کی رسم رائج تھی۔9 ذوالحجہ کو چونکہ حجاج عرفات میں ہوتے ہیں اور بیت اللہ میں زائرین کا رش چھٹ جاتا ہے۔ اس لئے سعودی حکومت اس دن غلاف کی تبدیلی کی تاریخی رسم ادا کرتی ہے۔ تاہم اس سال اس کے لئے یکم محرم کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
غلاف کعبہ کی قدیم تاریخی حیثیت
غلاف کعبہ کی تاریخی حیثیت بہت قدیم ہے۔ خانہ خدا سے تعلق کی وجہ سے اسے ہر دور میں تقدس حاصل رہا ہے۔ قبل از اسلام بھی خلاف کعبہ اہتمام کے ساتھ تیار کیا جاتا اور ایک عرصہ بعد تبدیل کیا جاتاتھا۔ جس کپڑے سے بیت اللہ کی چار دیواروں اور دروازے کو ڈھانپا جاتا ہے اسے اردو میں غلاف کہا جاتا ہے۔ کعبے کی طرف نسبت کرتے ہوئے اسے”خلاف کعبہ” کہتے ہیں۔ جبکہ عربوں کے ہاں اسے”کسوہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے غلاف کعبہ تیار کرنے والا
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کعبے کا غلاف یمن کے ایک بادشاہ “تبع الحمیری” نے تیار کیا تھا۔تبع الحمیری نے ایک موٹے کپڑے کی مدد سے غلاف کعبہ تیار کیا تھا ۔ایک قول کے مطابق اس کا نام اسعد ابو کرب تھا۔ جو یمن کے علاقے “حمیر” کا بادشاہ تھا۔ اس نے یہ غلاف یمن میں تیار کروایا اور مکہ لاکر کعبہ پر چڑھایا۔
اسی بادشاہ نے بعد میں “المعافیریہ” کپڑے سے غلاف تیار کیا۔ جو یمن کے ایک گاؤں کا نام ہے اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہاں کا بنا ہوا سوتی کپڑا “معافیریہ” کہلاتا تھا۔
دور جاہلیت میں غلاف کعبہ کی تیاری ہمیشہ ہی بادشاہوں اور حکام کی توجہ کا مرکز رہی، ہر بادشاہ دوسرے کے مقابلے میں اچھے اور خوب صورت غلافِ بنوانے کی کوشش کرتا۔ اس حوالے سے ان کے درمیان مقابلے کی سی کیفیت ہوتی۔
قریش اجتماعی چندہ سے غلافِ بناتے تھے
قریش جب بیت اللہ کے متولی بنے تو انہوں نے بھی کعبے پر غلاف چڑھانے کی روایت برقرار رکھی۔وہ اجتماعی چندہ کی رقم سے کعبے کے لئے غلاف تیار کرتے تھے۔ جب ابو ربیعہ بن مغیرہ مخزومی کا دور آیا جو بڑے دولت مند اور سخی آدمی تھے، انہوں نے یہ روایت ڈالی کہ ایک سال مجموعی فنڈ سے غلاف تیار کرواتے اور اگلے سال اپنے ذاتی مال سے غلاف بنواتے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ نبیلہ بنت حرام کے بارے میں اتا ہے کہ ان کا ایک بیٹا (حضرت عباس کا بھائی) گم ہوگیا انہوں نے منت مانی کہ اگر ان کا گم شدہ بیٹا مل گیا تو کعبے پر غلاف چڑھائے گی، بعد میں بچہ مل گیا تو انہوں نے حسب منت کعبے پر غلاف چڑھایا۔
ظہور اسلام کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ نے غلاف تیار کروایا
اسلام کے ظہور کے بعد بھی غلاف کعبہ کی تیاری اور تبدیلی کی روایت جاری رہی۔ سب سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلافِ کعبہ تیار کروایا۔ 8 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کپڑے سے غلاف تیار کروایا تھا اس کا ذکر “القباطی”کے نام سے ملتا ہے جو یمن کا بنا ہوا تھا۔ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ نے جس یمنی کپڑے سے غلاف تیار کروایا تھا وہ سفید اور سیاہ دھاریوں والا تھا۔
ایک تاریخی روایت یہ بھی بتاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس وقت غلاف کعبہ کو تبدیل کیا جب ایک خاتون کے ہاتھوں اس کا کا کچھ حصہ جل گیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمانی کپڑے سے نیا غلاف تیار کروایا اور مشرکین کے دور کا غلاف تبدیل کیا۔
حضرت عمر نے مصر سے خصوصی غلافِ منگوایا
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی غلاف کعبہ تبدیل ہوا۔ ان دونوں خلفاء کے عہد میں القباطی اور یمانی کپڑوں کے غلاف تیار کیے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مصر فتح ہوا تو وہاں کا ایک قیمتی کپڑا “قباطی” غلاف کعبہ کے لئے منگوایا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر سال کعبے کو نیا غلاف پہناتے اور پرانا غلافِ حاجیوں میں تقسیم کرتے۔
حضرتِ عثمان کے دور میں پرانے غلافِ کو دفنانے کا رواج ہوا
عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور میں اپنے پیش رو خلفاء کی طرح ہر سال غلاف کعبہ تبدیل کرنے کی روایت جاری رکھی۔ انہوں نے ایک مرتبہ ایک حیض والی عورت کو پرانے غلاف کعبہ کا ٹکڑا پہنتے دیکھا تو غلاف کو بہ طور تبرک تقسیم کرنے کی روایت ختم کر دی ۔ان کے دور میں پرانے غلافِ کو دفن کرنے کا رواج پڑا۔
بعد میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ پرانے غلاف کو دفن کرنا مال کا ضیاع ہے انہوں نے مشورہ دیا کہ اسے فروخت کرکے حاصل شدہ مال غریبوں میں تقسیم کی جائے،چنانچہ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایسا ہی کیا جانے لگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت چونکہ نہایت پر فتن رہا ، انہیں جنگوں ہی سے فرصت نہ ملی اس لئے ان کو غلاف کعبہ کی تیاری اور تبدیلی کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ تاہم بعد میں آنے والے امراء اور سلاطین نے غلاف کعبہ کی تیاری اور تبدیلی کی روایت جاری وساری رکھی۔
ہے درپے کئی غلاف چڑھانے کی روایت اور اس کا خاتمہ
بعد کے ادوار میں سال میں ایک غلاف کے بجائے اوپر نیچے کئی غلاف چڑھانے کی ریت چل نکلی، امراء کے علاوہ عام صاحب ثروت لوگ بھی کعبے پر غلاف چڑھانے کو اپنے لئے فخر اور سعادت کا باعث سمجھتے،اس لئے بیت اللہ پر غلافوں کی بارش ہونے لگی۔ 160 ہجری میں سلطان مہدی عباسی جب مکہ آئے تو انہیں بتایا گیا کہ کعبے پر غلاف اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کے بوجھ کی وجہ سے اس کی بنیاد ڈھے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، چنانچہ انہوں نے سال میں ایک ہی غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
آل سعود نے غلاف کی تبدیلی کو اسلامی کلچر میں ڈھالا
حجاز مقدس کے موجوہ حکم رانوں نے غلاف کعبہ کی تبدیلی کی روایت کو ایک باقاعدہ اسلامی کلچر کے طور پر متعارف کرایا۔ آل سعود خاندان جب سے اقتدار میں آیا ہے حرمین شریفین کے دیگر انتظامی معاملات کی طرح غلاف کی تبدیلی کے عمل کو بھی احسن انداز میں انجام دیا ہے۔موجودہ سعودی حکم رانوں نے اس مقصد کے لئے سالانہ بنیادوں پر ایک خطیر بجٹ مختص کر رکھا ہے۔
جس کا سالانہ تخمینہ 20 ملین ریال ہے۔اس سے بھی آگے بڑھ کر انہوں نے صرف اس کام کے لئے ایک مستقل محکمہ قائم کیا ہے جو ہر سال اپنی نگرانی میں عمدہ سے عمدہ غلاف تیار کرتا ہے۔ جس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہرسال غلاف کو نئے اور منفرد انداز میں بنایاجائے۔
غلاف کی تیاری کے کارخانے کا قیام
سعودی حکمراں خاندان نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے محض مستقل محکمے کے قیام پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لئے ایک خصوصی کارخانہ بھی قائم کیا ہے جہاں جدت طرازی کے ساتھ غلاف کعبہ تیار کرنے کی تمام سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔دھاگوں کی تیاری پھر دھاگوں سے کپڑےکی تیاری سمیت تمام متعلقہ کام اسی کارخانے میں انجام پاتے ہیں۔
غلاف کعبہ کی تیاری کے مختلف مراحل
غلاف کعبہ کی تیاری کا کام پورا سال چلتا رہتا ہے۔ تیاری کے مختلف مراحل ہیں ،سب سے پہلے مرحلے میں غلاف میں استعمال ہونے والے ریشمی دھاگوں کو گرم پانی میں دھویا جاتا ہے تاکہ دھاگے ان تمام کیمیائی اثرات سے پاک ہو جائیں جو تیاری کے مرحلے میں استعمال ہوچکے ہیں۔
غلاف کے دھاگوں کی تیاری میں 670 گرام خالص ریشم استعمال ہوتا ہے۔دوسرے مرحلے میں کارخانے میں قائم لیبارٹری میں غلاف کعبہ میں استعمال ہونے والے دھاگوں کی کوالٹی کو جانچا جاتا ہے اور تجرباتی طور پر کپڑے بنا کر معیار کو چیک کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد کے بعد غلاف کی سلائی،طباعت اور کڑھائی کے مراحل آتے ہیں۔ظاہر ہے قدیم زمانے میں غلاف کی سلائی کا کام ہاتھوں سے کیاجاتا تھا۔آل سعود کے ابتدائی دور میں بھی یہی ہوتا تھا۔ سلائی کی جدید مشینوں کی آمد نے غلاف کعبہ کی سلائی کا کام بھی آسان کردیا ہے۔اسی طرح غلاف پر مختلف آیات کی طباعت کا کام بھی اب مشینوں ہی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
یکم ذوالحجہ کو غلاف بیت اللہ کے متولی کے سپرد ہوتا ہے
کعبۃ اللہ کو غلاف پہنانے کی تقریب بڑے اہتمام سے منعقد کی جاتی ہے۔ جس میں اعلی سعودی حکام شریک ہوتے ہیں۔کئی دہائیوں تک یہ روح پرور تقریب ایام حج کے دوران ادا کی جاتی تھی۔ یکم ذوالحجہ کو نیا غلاف کعبہ بیت اللہ کے موجودہ متولی کے سپرد کیا جاتا ہے،بیت اللہ کی تولیت کے اس منصب کو عربی میں “سدانہ” کہا جاتا ہے۔ جو اس وقت “الشیبی” خاندان کے پاس ہے۔
یہ وہی خاندان ہے جس کے سربراہ حضرت عثمان بن طلحہ کو فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر بیت اللہ کی چابیاں عطا فرمائی تھیں اور خوش خبری دی تھی کہ یہ سعادت قیامت تک ان کے خاندان کو حاصل رہے گی۔ چنانچہ آج تک یہ خاندان بیت اللہ کا کلید بردار ہے،اس وقت الشیخ ڈاکٹر صالح زین العابدین الشیبی بیت اللہ کے کلید بردار ہیں یہ اپنے خاندان کے 109 ویں کلید بردار ہیں۔
غلاف کی تبدیلی کی تاریخ بدلنے کی وجہ سامنے نہیں آئی
ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو نماز فجر کے بعد غلافِ کی تبدیلی کی رسم ادا کی جاتی ہے،سال 2020 کو یہ تقریب عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوئی تھی۔ جو صبح تک جاری رہی۔غلاف کی تبدیلی کا عمل تقریباً 6 گھنٹے میں انجام پاتا ہے۔ کعبے کو نیا غلاف پہنانے کے بعد پرانا غلاف مختلف اسلامی ممالک کے حکم رانوں اور اہم شخصیات میں بہ طور تبرک تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس سال غلاف کعبہ کی تبدیلی کی تقریب نو ذوالحجہ کے بجائے یکم محرم کو منعقد ہوگی جس کی کوئی واضح وجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔