دنیا کے خطرناک ترین سمندر اور بحری قزاقی
رب کا جہاں
نوید نقوی
یہ رب کا جہاں وسیع وعریض ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا ، ہر قدم پر قدرت کے شاہکار نظر آتے ہیں اور انسان بس حیرت زدہ رہ جاتا ہے، جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا وجود بکھرا پڑا ہے۔
سمندر بھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ایک ہے، جو اپنی اتھاہ گہرائیوں میں خزانوں کا انبوہ سموئے ہوئے ہیں۔ بے شمار نباتات، معدنیات، تیل، گیس اور قیمتی پتھروں کے علاوہ 75فی صد آکسیجن بھی یہی سمندر مہیّا کرتے ہیں۔ پھر ان میں آبی حیات کی بھی اس قدر اقسام ہیں کہ جن کا صحیح شمار بھی ممکن نہیں۔ ساتھ ساتھ پینے کا 40 فی صد صاف پانی بھی ان ہی سمندروں کا مرہونِ منّت ہے۔
ایک طرف یہ معاشی طور پر انسان کے مدد گار ہیں، تو دوسری جانب دُور دراز علاقوں سے بھاری بھر کم سامان کی ترسیل کا موثر ذریعہ بھی ہیں۔بہت بڑے سمندر کو’بحر‘ جب کہ نسبتاً چھوٹے سمندر کو ’بحیرہ‘ کہا جاتا ہے۔
دنیا کے پانچ بڑے اور پچاس کے قریب چھوٹے سمندر
کچھ عرصہ قبل تک دنیا میں چار بڑے سمندر، بحرالکاہل، بحرِاوقیانوس، بحرِہند اور بحرِ منجمد جنوبی تھے۔ پھر 2000ء میں بحرِ منجمد شمالی کو باضابطہ طور پر پانچویں سمندرکا درجہ دیا گیا، جس میں انٹارکٹیکا کےاردگرد کا پانی بھی شامل ہے۔یہ پانچوں سمندر ایک دوسرےسے جُڑے ہوئے ہیں، جب کہ اس کے برعکس دنیا کے پچاس کے لگ بھگ چھوٹے سمندر ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں۔
زمین کے 75 فیصد حصے پر محیط سمندر کے بارے میں محض 5 فیصد معلومات
سمندر زمین کے کُل رقبے کے تقریباً 70 سے 75فی صد حصّے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ انسان نے بلند ترین پہاڑوں سے لے کر سیّاروں تک تو رسائی حاصل کرلی، لیکن اس کرہ ارض کے 75 فی صد حصّے کے بارے میں اب تک صرف 5 فی صد معلومات تک رسائی حاصل کرسکا ہے.
پانچ بڑے سمندر
آج جبکہ دنیا بھر میں تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے ساتھ بحری قزاقی میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔آئیے آگے بڑھنے سے قبل دنیا کے بڑے بحروں کے بارے میں جان لیں۔
بحرالکاہل
بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا سمندر ہے، جس کا رقبہ 15 کروڑ 55لاکھ 57 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کے 28فی صد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور امریکا کے کُل رقبے سے 15 گُنا طویل ہے۔ اس کی اوسط گہرائی 13215 فٹ، جب کہ گہرا ترین مقام ماریانا ٹرنچ ہے۔ بحرالکاہل میں لگ بھگ 25 ہزار جزائر ہیں، جو دنیا بھر کے کُل سمندری جزائر سے بھی زیادہ ہیں۔دنیا کی 60 فی صد مچھلیاں بھی یہی سمندر مہیّا کرتا ہے۔ بحرالکاہل کے ساحل کی لمبائی ایک لاکھ 35 ہزار 156 کلومیٹر ہے۔ جب کہ اس وسیع و عریض سمندر میں 75فی صد آتش فشاں پہاڑ بھی واقع ہیں۔
بحرِاوقیانوس
دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سمندر بحراوقیانوس ہے، جس کا کُل رقبہ 7کروڑ67لاکھ62ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس سمندر کی اوسط گہرائی 12880فٹ اور گہرا ترین مقام پورٹوریکو ٹرنچ ہے، جس کی گہرائی 28231 فٹ ہے۔
بحرِ ہند
یہ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا سمندر ہے، جس کا رقبہ 6کروڑ 85 لاکھ 66ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ بحرِہند کی اوسط گہرائی13002 فٹ، جب کہ گہرا ترین مقام جاواٹرنچ ہے۔ دنیا کا تقریباً 20فی صد پانی کا ذخیرہ رکھنے والے اس سمندر کی گہرائی 23 ہزار 812 فٹ ہے۔
بحرِ منجمد جنوبی
2 کروڑ 3لاکھ 27 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ دنیا کا چوتھا بڑا سمندر ہے، اسے چاروں طرف سے براعظم انٹارکٹیکا نے گھیرا ہوا ہے۔ بحرِمنجمد جنوبی کو باقاعدہ طور پر 2000ء میں بین الاقوامی تنظیم برائے آبی جغرافیہ (آئی ایچ او) نے بحر کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کی اوسط گہرائی 13100فٹ، جب کہ گہرا ترین مقام ساؤتھ سینڈوچ ٹرنچ اور کُل گہرائی 23737 فٹ ہے۔ اس سمندر کے اکثر حصّوں پر برف جمی رہتی ہے۔ اس کا قدیم نام انٹارکٹیکا (Antarctic Ocean)تھا۔ تاہم، 2000ء کے بعد اس کانام بحرِمنجمد جنوبی(Southern Ocean)رکھ دیا گیا۔
بحرِ منجمد شمالی
یہ دنیا کا پانچواں بڑا بحر ہے۔جو ایک کروڑ 40لاکھ 56ہزارمربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔اس کی اوسط گہرائی 3953 فٹ جب کہ گہرا ترین مقام فرام بیسن ہے، جو تقریباً 15305فٹ گہرا ہے۔ بحرمنجمد شمالی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ یورپ، ایشیا، شمالی امریکا، گرین لینڈ اور دیگر جزائر سمیت چاروں طرف سے زمین میں گِھرا ہونے کے ساتھ آبنائے بیرنگ کے ذریعے بحرالکاہل جب کہ بحیرئہ گرین لینڈ کے ذریعے بحرِ اوقیانوس سے بھی ملا ہوا ہے۔ اس کا بھی بیش ترحصّہ برف سے ڈھکا ہوا ہے، جس کے سبب یہاں آبی حیات انتہائی کم تعداد میں ہیں۔
سمندر قدرت کا ایسا شاہکار ہے جس کی دنیا اس قدر گہری ، پر اسرار اور پوشیدہ ہے کہ زمین کے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا کر بھی اس کی تہہ تک مکمل رسائی ممکن نظر نہیں آتی۔ دنیا کی تجارت کا بڑا حصہ صدیوں سے ان سمندروں کا محتاج ہے اور ان سمندروں میں لوٹ مار یعنی بحری قزاقی بھی صدیوں سے کی جاتی ہے اور حضرت انسان یہاں بھی اپنے گل کھلا رہا ہے۔
دنیا کے سب سے خطرناک ساحل
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق مغربی افریقہ کے تیل سے مالا مال ساحل جہاز رانی کی دنیا میں انتہائی خطرناک مانے جاتے ہیں۔
بحری قزاقی پر سالانہ رپورٹ مرتب کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’ون ارتھ فیوچر‘ کے مطابق دنیا کے باقی تمام سمندری خطوں میں قزاقی کے واقعات میں کمی ہو رہی ہے لیکن مغربی افریقہ میں یہ واقعات بڑھ رہے ہیں اور باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں ایسے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں اور کس قسم کے جہازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
قزاقی ہے کیا؟
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ آخر بحری قزاقی ہے کیا اور اس کی تعریف کیا ہے؟گہرے سمندروں میں سفر کرنے والے جہازوں کو لوٹنے کی وارداتوں کو جو کہ عموماً کسی ملک کے ساحلوں سے بارہ ناٹیکل میل کی دوری اور کسی بھی ریاست کی عملداری سے باہر کی گئی ہوں انھیں تشریح کے لحاظ سے بحری قزاقی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اگرکسی بھی ملک کی سمندری حدود اور کسی بندرگاہ کے قریب اگر کوئی ایسی واردات ہو تو وہ سمندر میں ڈاکے یا چوری کے زمرے میں آتا ہے۔
نائجیریا اور گھانا کے ساحلوں پر قزاقی کی وارداتیں
گہرے سمندر میں ہونے والی سمندری قزاقی کی وارداتوں اور مختلف ملکوں کی سمندر حدود کے اندر سمندری جہازوں پر ہونے والی چوریوں، دونوں قسم کے واقعات کے اعداد و شمار کو ون ارتھ کی رپورٹ میں یکجا کیا گیا ہے۔
سنہ 2018 میں مغربی افریقہ کے سمندروں میں 112 وارداتیں ہوئیں۔
یہ صرف نائجیریا اور گھانا سے تیل برآمد کرنے والے جہاز ہی نہیں تھے جنہیں بحری قزاقی کا نشانہ بنایا گیا ہو چھوٹے ملکوں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے تجارتی جہاز بھی بحری قزاقوں کی دسترس میں آئے زیادہ تر حملے گیس اور تیل لے جانے والے جہازوں، ٹینکروں اور ٹگز پر ہو رہے ہیں۔ ماہی گیروں کی کشتیاں بھی ایسی وارداتوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔
نائجیریا کے ساحلوں پر سنہ 2018 میں سب سے زیادہ حملے ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ پیٹرو پائریسی ہے جو نائجیریا سے تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں پر ہوئیں۔نائجیریا، گھانا، بنین، کانگو برازاویل اور کیمرون میں تاوان حاصل کرنے کے لیے اغوا اور ہائی جینکنگ کی وارداتیں بھی کثرت سے پیش آتی ہیں۔سمندر پر تگڑے اور آسان شکار، سیاسی عدم استحکام، قانون کا سختی سے نفاذ نہ ہونا اور غربت جیسے عناصر بحری قزاقی کی وارداتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
فلپائن ،انڈیا،یوکرین اور نائجیریا کے جہاز سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں
ان وارداتوں کا شکار بننے والی زیادہ تر جہازراں کمپنیوں کا تعلق اس خطے سے تعلق نہیں ہے۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ یا تو فلپائین کی ہیں یا پھر ان کا تعلق انڈیا، یوکرین اور نائجیریا سے ہوتا ہے۔مغربی افریقہ میں بحری قزاقی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باقی تمام دنیا میں ایسی وارداتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جبکہ ایشیا میں سنہ 2015 میں سب سے زیادہ وارداتوں کا نشانہ بننے والا خطہ انڈونیشیا اور ملائشیا کے درمیان آبنائے ملاکہ کا علاقہ ہے۔سمندری قزاقی کی واداتیں جزائر غرب الہند اور لاطینی امریکہ میں بھی بڑھی ہیں۔خاص طور پر ویزویلا میں بحری قزاقی زیادہ ہونے لگی ہے۔ ان قذاقوں کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ نے بھی فورس بنائی ہوئی ہے لیکن اس کے لیے سب سے اہم امریکہ اور چین جیسے ممالک کو بھی اپنی قوت اور وسائل خرچ کرنے ہوں گے تاکہ سستی تجارت اور نقل و حمل میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور قذاقوں کا بھی خاتمہ کیا جاسکے۔۔ یہ سمندر ہمارے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہیں ان کی حفاظت کرنا بھی ہم سب کا فرض ہے۔