Altaf

چترال کے قابل فخر فرزند ڈاکٹر الطاف الرحمن اخون

تحریر: محمد الیاس جیلانی

الطاف الرحمان حافظ۔ قاری۔ فاضل درس نظامی  اور تخصص کے علمی مراحل طے کرنے کے بعد ڈاکٹر کے معزز علمی لقب سے بھی سرفراز ہوچکے ہین۔

مذکورہ القابات ڈاکٹر صاحب کیلیے نئے ہرگز نہیی کیونکہ  وہ موری لشٹ کے ایک ایسے اخونزادہ خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں علم چراغ سے چراغ جلنے کے مصداق منتقل ہوتا ارہاہے۔

اپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا وکیل عبد الکریم مرحوم کا بھتیجا اور چترال کے معروف علمی اور سیاسی شخصیت قاضی محمد قاسم مرحوم کا نواسہ ہیں۔

نجیب الطرفین ہونے کی وجہ سے کتاب و قلم کے ساتھ ان کا حسبی تعلق ہے۔ ایسے علمی خاندان میں أنکھ کھولنے کیوجہ سے مدرسہ تعلیم القرأن موری لشٹ سے نو مہینے سے بھی کم مدت میں حفظ قران کی دولت سے  اپنے سینے کو معطر۔معنبر و منور کردیا۔

والدین نے الطاف الرحمان کو تعلیم و تعلم کے بندھن میں کچھ اسطرح سے باندھ دیا کہ حد بلوغت کو پانے سے پہلے مراھقت ہی کے مرحلے میں معھد الرازی لاھور کے علمی ماحول میں خوشہ چینی کیلئے داخل کردئے۔

یوں درس نظامی کے ابتدائ تین سال علم کے موتی معھد الرازی سے چنتے رہے اور پھر اپنی پھڑکتی رگوں میں علم و عمل اور روحانیت کی روشنی رواں دواں رکھنے کیلئے دارالعلوم کے علمی سمندر میں غوطہ زن رہے اور علم وعمل کے موتیوں سے دامن علم  بھرتے ہوۓ درس نظامی  مکمل کرکے علمی کاروان کے مسافر بن گئے۔ یوں معھد الرازی سے علم کی بنیاد رکھنے والے اس شمع علم کو دارالعلوم کراچی نے فروزان تر کردیا۔

الطاف الرحمان کو علمی القابات سے دلچسپی ہر گز نہ تھی لیکن۔۔۔ حریصان لا یشبعان  حریص فی العلم و حریص فی الدنیا۔۔۔  کے پہلے حصے پر عمل کرتے ہوۓ اپنی اندرونی علمی پیاس بجھانے کی خاطر حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلھم کے زیر سایہ درجہ تخصص میں داخلہ لیتے ہوۓ شعبہ دعوت و ارشاد کا انتخاب کیا اور تین سالہ مشکل ترین کورس مکمل کرنے کے بعد  متخصص بن کر نکلا۔

واضح رہے کہ افتا میں تخصص کو فقہ اسلامی میں پی ایچ ڈی کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔

دارالعلوم کراچی سے درس نظامی اور تخصص کرنے کے بعد رجبی کمپنی یونٹ ون کے امام و خطیب کے منصب پر فائز کردئے گئے اور تا حال اس مقدس مذھبی فریضے کو خوش اسلوبی کیساتھ نبھاتے ارہے ہیں۔

أپ ایک اعلی پائے کا مقرر اور خوش الحان قاری بھی ہیں۔ جلالی طبع اور سیمابی طبیعت رکھتے ہیں ۔اس وجہ سے ایک ہی جگہ اپنے افادات اور ارشادات کو محدود نہیں رکھتے بلکہ کورنکی کے مختلف مساجد اور مقامات پر درس قرأن کے ذریعے لوگوں کے قلوب و اذھان کو ھدایت کے نور سے منور کررہے ہیں اور بلغوا عنی ولو ایہ کے عملی مصداق و پیکر ہیں۔اور اخونزادہ خاندان جسے ذھد و تقوی اور علم کی خوشبو صدیوں سے پھوٹتی أئی ہے اسے مزید پھیلانے اور چار سو مہکانے کی ذمہ داری بطریق احسن ادا کررہے ہیں ۔

الطاف الرحمان مذکورہ بھاری ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ تحقیق و تدقیق کے میدان میں جب قدم رکھا تو اس میدان مین بھی کامیاب اور ماھر شہسوار کے طور پر اپنے اپ کو منوالیا اور میدان تحقیق کا مرد میدان ٹہرا۔

الطاف الرحمان جامعہ کراچی سے ایم فل کی اعلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کیلئے داخلہ لیا اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ڈگری کیلئے لازمی شرط  انتخاب موضوع کا وقت أں پہنچا تو اپ نے انتہائی مشکل پیچیدہ اور نازک موضوع کا  انتخاب کیا جس کا عنوان تھا ۔۔۔ اسلام کا نظام عقوبات اور عصر حاضر میں اسکی تطبیق و تنفیذ میں حائل رکاوٹیں اور حل کا ایک تحقیقی جائزہ۔۔۔

مقالے کے عنوان ہی سے اپکی ٹھوس علمی قابلیت.  اجتہادی بصیرت اور گہری تحقیقی ذہنیت کا.  بخوبی انداذہ ہوتاہے ۔

یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے بعض اہل علم بھی دامن احتیاط تھام لیتے ہیں۔

الطاف الرحمان نے ایسے نازک اور فکر انگیز مقالے کا کامیابی سے دفاع کرکے ایک قدیم علمی سلسلے کے چشم و چراغ ہونے کا ثبوت دیا اور اس اہم موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرکے نہ صرف علم و اجتہاد کی روایت کو ذندہ کیا بلکہ أیندہ نسلوں کیلئے رہنمائی کا مینار بھی نصب کردیا۔

ڈاکٹر صاحب پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ مختلف اہم اور علمی موضوعات پر بھی قلم اٹھا چکے ہیں ۔انکی دو درجن سے زائد تحقیقی مقالات ملکی اور بین الاقوامی جرائد میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔۔

ان موضوعات میں سے ایک اہم اور وقیع مضمون مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی علمی خدمات کا ایک طائرانہ جائزہ کے عنوان سے یونیورسٹی أف ملاکنڈ نے بھی شائع کیا ہے اور اسپر مزید علمی کام جاری ہے۔

ڈاکٹر الطاف تحقیق و تدقیق کے کام میں ہی مگن نہیں رہتے  بلکہ نو عمری ہی میں نفس امارہ کو کچلنے کیلئے  حضرت شاہ  حکیم اختر رحمہ اللہ کے دست حق پرست پر بیعت کرچکے تھے۔ انکے بعد اصلاح  نفس کا سلسلہ شاہ حکیم مظہر کیساتھ اب بھی قایم ہے ۔

ڈاکٹر الطاف کو رب کاینات نے مختلف النوع صفات سے نواز رکھاہے اپ ایک طرف منبر و مصلی   کے ذریعے عبادت و خلافت کی انجام دھی میں مصروف ہیں تو دوسری طرف درس و تدریس اور تحقیق تدقیق کو ذندگی کا جزؤ لازم بنا رکھا ہے۔

اسی پر بس نہیں عوام الناس کی دینی رہنمائی کیلئے أن لائن دارالافتا چترال کے نائب مفتی اور عالمی دارالافتاء کے مجیب و ناظم کی ذمہ داریاں  اور ساتھ ہی دو پرائیویٹ اداروں میں شرعی ایڈوائزری اس پر مستزاد ہیں۔

مذکورہ بے پناہ  خوبیوں اور مختلف النوع صفات سے متصف ڈاکٹر الطاف مستقبل کے پی ایچ ڈی اسکالر  کے مقالے کا نظر انتخاب ہوسکتے ہیں۔

رب کائنات مزید علمی ترقیاں عطا فرمائے۔

Check Also

مفتی  محمد رفیع عثمانی

مفتی  محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کی علمی خدمات کا ایک طائرانہ جائزہ،کابرین کی آراء کی روشنی میں

مفتی  محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ ہندوستان کے صوبہ یوبی کے ضلع سہارنپور سے بیس …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے