- ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط گیارہ ملین افراد کو کلمہ پڑھانے والے عظیم داعی
ضیاء چترالی
کویت کے نامور داعی ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط عالم اسلام کے وہ عظیم داعی ہیں۔ جن کے ہاتھوں 11 ملین (ایک کروڑ 10 لاکھ) سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا۔ شاید پوری اسلامی تاریخ میں یہ اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ امریکہ میں قائم عیسائی مشنری کیلئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں اور این جی اوز کے تحت 51 ملین سے زائد مبلغین دنیا بھر میں گھوم گھوم کر عیسائیت کو فروغ دینے اور مسلمانوں کو عیسائی بنانے کیلئے سرگرم ہیں۔ 3 لاکھ 65 ہزار کارکن ان مبلغین کا جائزہ لینے کیلئے ہمہ وقت آن لائن رہتے ہیں۔ کتابیں اور دیگر لٹریچر وسامان ان تک پہنچانے کیلئے ہر گھنٹہ میں 4 منٹ کے حساب سے 360 سے زائد طیارے پرواز بھرتے ہیں۔ 4050 کلیسا اور ریڈیو چینلز ہیں، جو دن رات عیسائیت کے پرچار میں سرگرم ہیں۔ سالانہ 300 ارب ڈالر عیسائی چرچ اور کلیسا جمع کرکے عیسائی مشنریز کو دیتے ہیں۔ان کی محنت کا زیادہ تر ہدف افریقہ کے غریب قبائل ہیں۔ اس کے برعکس ہم مسلمان اس میدان میں انتہائی سستی اور غفلت کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط نے 29 سال تک افریقی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کی
شیخ نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی حسین واقعہ ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ ”افریقہ میں ایک قبیلہ آباد ہے، ویسے تو کئی قبائل ہیں، لیکن (نام لئے بغیر انہوں نے کہا) کہ ایک قبیلہ ہے، جس میں انتہائی درجہ کی غربت اور فقر وفاقہ ہے، اس قبیلہ پر عیسائی مشنریز نے 40 برسوں تک کام کیا، اس کی خدمت کی اور 4 ملین ڈالر سے زائد خطیر رقم خرچ کی۔ لیکن جب ہم وہاں گئے اور ہم نے انہیں دعوت دی اور اپنی استطاعت کے مطابق رفاہی کام کیا تو اس قبیلہ کے 98 فیصد لوگوں نے حق کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا۔
اتنے بڑے مبلغ ہونے کے باوجود گوشہ گمنامی میں زندگی گزاری
ڈاکٹر عبد الرحمن السمیطؒ کا شمار دورِ حاضر کی عظیم ترین مسلم شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ایک مرد مجاہد تھے۔ ان کا تعلق خلیجی ملک کویت سے تھا۔ کویت کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یہ بچپن سے ہی ملنسار اور دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے والے رقیق القلب انسان تھے۔ انہوں نے دوسروں کی مدد کے لیے اپنے وطن میں عیش و عشرت کی زندگی کو چھوڑا اور افریقہ کے تپتے ہوئے صحراوٴں میں چلے گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے اسلام کی دعوت اور یتیموں اور بے کسوں کی مدد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ افریقہ میں دعوت کی تقریباً 29 سالہ مدت میں ان کے ہاتھوں 11.2 ملین سے زیادہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ انہوں نے کینیڈا، عراق اور یورپ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ محلات اور پرکشش ملازمتوں کو چھوڑ کر اسلامی رفاہی اور دعوتی کام سنبھالتے ہوئے اپنی ساری زندگی اس عظیم خدمت کو انجام دیتے ہوئے امت مسلمہ کے پسماندہ طبقہ کے علاج ومعالجہ اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں گزار دی۔ لیکن گمنام رہے، کسی نے ان کو نہ جانا نہ پہچانا، کیوں کہ ان کے اندر خلوص کا وہ چراغ روشن تھا، جس سے دل کی دنیا روشن و منور تھی، ان کو دنیا کی شہرت نہیں چاہئے تھی، ان کا ہر عمل رب کیلئے تھا، اسی لئے تو کبھی کسی اخبار کی زینت بننا گوارا نہ کیا، اگر وہ چاہتے تو میڈیا کا ہجوم ان کے ارد گرد ہوتا۔
شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط رحمہ اللہ سے متعلق معلومات ان کی وفات کے بعد سامنے آئیں
ان کے متعلق یہ معلومات بھی ان کے انتقال کے بعد افریقی اخبار اور العربیہ ڈاٹ کام وغیرہ کے حوالہ سے حاصل کی گئیں۔ ان کی کہانی میں ہمارے مالداروں، اہل علم ودانش، پروفیشنل، قائدین اور رہنماوٴں کے لئے یقیناً ایک پیغام ہے۔ شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط 15 اکتوبر 1947ء مطابق 1366ھ کو پیدا ہوئے اور انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے 15 اگست 2013ء بمطابق 8 شوال المکرم 1434ھ کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے افریقہ کی جانب رخت سفر باندھا اور افریقہ کے دور دراز علاقوں اور صحراوٴں میں رہ کر اسلامی رفاہی ودعوتی کام کرتے رہے، ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توفیق اور اخلاص کی بدولت 11 ملین سے زائد افراد نے براعظم افریقہ کے مختلف ممالک میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور رستم ایران کے دربار میں سفیر فاروقی حضرت ربعی بن عامرؓ کی اس تقریرکی جیتی جاگتی تصویر پیش کی کہ ”خدا نے ہم کو مبعوث کیا کہ ہم لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک رب کی بندگی وغلامی میں ڈالیں اور ادیان ومذاہب کے ظلم وجور سے نکال کر اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لے جائیں۔“
کویت کے امیر گھرانے سے تعلق تھا، افریقہ کے صحراؤں میں عمر گزاری
شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط کا تعلق کویت کے اعلیٰ گھرانہ سے تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی عیش و عشرت سے بھری پری زندگی پر افریقہ کے صحراوٴں اور جنگلوں کو ترجیح دی اور وہاں جاکر عیسائی مشینری کا مقابلہ کرتے ہوئے مفلسی و غربت کے شکار عوام کی مدد اور علاج و معالجہ کرکے ان کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ اکثر لوگ ان سے سوال کرتے کہ وہ کویت میں عیش وعشرت کی زندگی چھوڑ کر افریقہ کے جنگلوں میں کیوں زندگی گزار رہے ہیں تو وہ ہمیشہ کہاکرتے تھے: ”ایمان کی جو حلاوت مجھے یہاں میسر آتی ہے اگر حکمران تھوڑا سا بھی مزہ چکھ لیں تو وہ اپنے محلات چھوڑ کر یہ کام شروع کردیں۔“ شیخ پر امریکی ایجنسیوں اور یہودی لابیوں نے دہشت گردی کا الزام بھی عائد کیا اور افریقہ میں ٹینک بنانے کی فیکٹری قائم کرنے کے الزامات لگائے اور خفیہ ایجنسیوں نے ان کا پیچھا کیا، جبکہ ان پر متعدد بار قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن ان تمام سے بے پروا اس مرد مجاہد نے اپنا کام بند نہیں کیا۔ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی دینی مصلحتوں کے نام پر اسلام کی خدمت سے پیچھے ہٹنا گوارہ کیا۔ شیخ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر مسلمان تاجر صحیح طریقہ سے اپنی زکوٰة دیں اور حقیقی مستحقین میں اس کی تقسیم کو یقینی بنائیں تو مسلمانوں کی غربت ختم ہو جائے گی اور مسلمان فقیر رہے گا نہ کسی مسلمان کو کوئی عیسائی مشینری اس کی غربت کو استعمال کرکے کافر بنا سکے گی۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا: ”عرب تاجروں کا سرمایہ 275 ارب ڈالر ہے، جس کی اگر صحیح زکوٰة نکالی جائے تو یہ 250 ملین مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کافی ہے، یہ صرف عرب تاجروں کی بابت ہے۔ جبکہ دنیا بھر کے مسلمان تاجروں کا سرمایہ کاس کے علاوہ ہے۔“
شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط نے 5700 مساجد بنائیں،9500 کنویں کھدوائے ،860 اسپتال تعمیر کروائے
شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط مرحوم نے اپنی زوجہ محترمہ ام صہیب کے ساتھ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور رفاہی کام کا آغاز کیا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ امت کی مائیں اور بہنیں ذرا غور کریں کہ ایک عورت نے شیخ عبد الرحمن کو پر تعیش زندگی کو ترک کرنے پر آمادہ کردیا اور افریقہ کے صحرا اور چٹیل میدان، جنگلوں میں زندگی بسرکرنے پر مجبور وآمادہ کیا اور یہی نہیں، بلکہ خود ان کے شانہ بشانہ ان کے عمل میں معاون ومدرگار رہیں۔ عورت کا یقیناً معاشرہ کی تبدیلی اور اس کی اصلاح میں اہم کردار ہوتا ہے۔ شیخ نے افریقہ کے صحرا میں اپنی زندگی کے 29 برس گزارے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر 5700 مساجد تعمیر کیں۔ 9500 کنویں کھدوائے۔ 15000 بے سہارا یتیموں کی تعلیمی، معاشی کفالت کی۔ 840 اسلامی مکاتب، 204 اسلامی مراکز، 860 اسپتال اور ڈسپنسریاں اور 4 بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں۔
سعودی عرب نے خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا
شیخ نے ابتدا میں انفرادی طور پر اپنے ذاتی مال سے کام شروع کیا اور اپنی تمام دولت اور کمائی کو اسی مقصد کے لئے وقف کردیا۔ صدقات وزکوٰة کو مستحقین میں تقسیم کرنے کے صاف وشفاف نظام کیلئے انہوں نے ”افریقن مسلم کمیٹی“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کا نام بعد میں ”ڈائرکٹ ایڈ“ رکھا۔ اپنی ادارت میں ”الکوثر“ میگزین کا اجرا کیا۔ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سعودی عرب نے ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ دعوتی سفر میں شیخ السمیطؒ موزمبیق اور کینیا وغیرہ کے جنگلات میں کئی بار جنگلی جانوروں کی زد میں آ گئے اور زہریلے سانپوں نے ان کو کئی بار ڈنک مارا، لیکن رب نے ان کو بچالیا۔ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کو دوبار جیل جانا پڑا۔ پہلی بار 1970ء بغداد کی جیل میں رکھا گیا۔ اور قریب تھا کہ ان کو سزائے موت دی جاتی۔ لیکن اس بار بھی بچ گئے۔ دوسری بار 1990ء میں کویت اور عراق کے مابین جنگ کے دوران میں بھی انہیں گرفتار کیا گیا اور شدید ترین اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی پیشانی اور ہاتھ پیر سے گوشت نوچے گئے۔ اس سلسلے میں کبھی تذکرہ نکلتا تو وہ کہتے کہ مجھے اس وقت یقین تھا کہ موت صرف اسی وقت آئے گی جس وقت رب نے میری تقدیر میں لکھی ہوگی۔ وہ اپنے آبائی وطن کویت بہت کم ہی آتے تھے۔ بس رشتے داروں کی زیارت یا علاج کے لیے ہی آتے تھے۔شیخ کی عمر اگرچہ زیادہ نہیں تھی۔ لیکن ان آزمائشوں اور مشقتوں نے جلدی انہیں بوڑھا کر دیا۔ وہ 65 برس کی عمر میں کافی بیمار ہوگئے۔ ایک بار تو ان کی وفات کی افواہ بھی اڑ گئی تھی۔ بالآخر یہ شخص 15 اگست 2013ء کو دنیا کے بہت سے یتیموں کو اور مسکینوں کو حقیقت میں یتیم کرکے اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ کویت کے وقت کے مطابق صبح کے ساڑھے آٹھ بجے ان کی تدفین وتکفین ہوئی۔ خدا ان کی خدمات کو قبول فرمائے اوران کی لحد پر رحمتیں برساتا رہے۔ آمین۔ بس ضرورت اس امر ہے کہ مسلمان شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السمیط جیسی شخصیات کو اپنا آئیڈیل بنالیں۔ پھر اسلام کے نشاة ثانیہ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔