دینی تقریبات اور محافل میں لاؤڈ اسپیکر کا نا مناسب استعمال
عبد الخالق ہمدرد
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی دوسروں کو دیکھ کر اپنے اوپر شک کرنے لگتا ہے کہ کہیں میں ہی غلطی پر تو نہیں؟ یا میں پاگل اور دیوانہ اور باقی سب ہوشیار اور عقلمند تو ہیں۔ کل میں اسی طرح کی کیفیت سے ایک بار پھر دو چار ہوا۔ روداد آپ کے سامنے رکھتا ہوں، فیصلہ آپ کا۔
ہوا یوں کہ ایک جگہ سے ایک دینی کانفرنس کا دعوت نامہ ملا۔ جگہ ایسی تھی کہ کئی وجہ سے انکار مشکل تھا۔ اس لئے کئی کام چھوڑ کر وہاں جانے کا فیصلہ کیا اور گھر آئے کچھ بہت عزیز مہمانوں کو بھی وقت نہ دے سکا۔ وہ بھی پروگرام میں مدعو تھے اس لئے وہاں چلے گئے۔
مغرب کے بعد وہاں پہنچے تو میں دل میں سوچ رہا تھا کہ شاید ہمیں تاخیر ہو گئی ہے کیونکہ پروگرام عصر سے شروع ہونا تھا۔ خیر نعت خوانی کا دور چل رہا تھا۔ ہم بھی بیٹھ گئے۔ عشاء کی نماز تک خیر گزری۔
مائک سے چپک کر پڑھنے کا شوق
نماز کے بعد اگلی نشست شروع ہوئی تو پھر نعت خوانی شروع ہوئی۔ اب کے نعت خوان ذرا پیشہ ور قسم کے تھے۔ بلند گو (لاؤڈ اسپیکر) کی آواز بڑھنے لگی اور نعت خوان مائیک منہ کے اندر نہیں تو لبوں سے پون ملی میٹر کے فاصلے پر رکھ کر پڑھنے لگے۔ اس سے آواز میں اتنی کرختگی پیدا ہو گئی کہ سر پھٹنے لگا۔
ایکو کا عذاب
بلند گو(لاؤڈ اسپیکر) کے منتظم کو ایک نہیں کئی بار اشارہ کیا کہ آواز ذرا کم کر دو، مگر ایک نہ چلی۔ ایک اور نعت خوان نما گویا یا گویا نما نعت خوان مائیک پر آیا تو کہنے لگا کہ “اس کا کوئی والی وارث نہیں؟ ایکو کھولیں.” میں نے کہا جب آواز آ رہی ہے تو ایکو کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن ایکو کھل گیا۔ اب جو حالت ہوئی وہ ناقابل بیان ہے لیکن سارے لوگ بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔ کسی کو آواز یا شور زیادہ ہونے کی کوئی پروا نہیں تھی۔ اس گویے نے نجانے کیا کیا سنایا۔ من جملہ ایک نظم ایسی بھی تھی جس میں فحش گالیاں بھی تھیں لیکن لوگ اسے داد دے رہے تھے۔
اس سے جان چھوٹی تو ایک مقرر صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے مختصر تقریر فرمائی لیکن آواز کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ میں نے ساتھ بیٹھے مولانا سے تصدیق چاہی کہ آواز کیسی ہے؟ تو کہنے لگے بھئی، کان پھٹ رہے ہیں۔ اس خطاب کے بعد میں وقفے کی نیت سے باہر نکلا اور گھر سے ہو کر گھنٹے بعد دوبارہ کانفرنس میں پہنچا۔
اب پھر ایک نعت خوان کی باری تھی اور وہی چنگھاڑنے کی آواز مسجد کے در و دیوار کو ہلا رہی تھی۔ میں مسجد کے اندر آ گیا تھا، اس لئے بیٹھ گیا لیکن تھوڑی دیر بعد کان سائیں سائیں کرنے لگے اور سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
میں اس بات کا منتظر تھا کہ کب مرکزی مہمان کا خطاب ہو اور میں اجازت لوں لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ مہمان خصوصی سامنے صوفے پر آئے تو میری جان میں جان آئی کہ اب معاملہ ختم ہونے والا ہے۔
خدا خدا کر کے دسمبر کی اس طویل رات میں ساڑھے گیارہ بجے کے بعد مہمان خصوصی صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے۔ آپ ایک خوش شکل، خوش لباس اور سرو قد مولانا تھے۔ بڑے دھیمے اور خوبصورت انداز سے خطاب شروع کیا تو مجھے خوشی ہوئی کہ آج ایک اچھا اور سلجھا ہوا خطاب سننے کو ملے گا کیونکہ مقرر صاحب واقعی تیاری کر کے تشریف لائے تھے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ان کی آواز بھی بلند اور بلند کے بعد کرخت ہونے لگی اور بلند گو نے کریلہ اور نیم چڑھا کا کام کیا۔ مجھ سے پھر نہ رہا گیا تو سسٹم والے کو اشارہ کیا کہ ہم پر رحم کرو۔ مقرر صاحب نے شاید میرا اشارہ دیکھ لیا تھا، اس لئے وہ بھی کہنے لگے کہ “ایکو بند کر دیں، مین سسٹم اونچا کریں تاکہ جن کو سمجھ نہیں آ رہی، ان کی سمجھ بھی ٹھیک ہو جائے”۔
آواز کی بجائے دھماکے
میں نے دل میں کہا، میری بلا سے، سب کے سامنے ایک جملہ کہہ دیا تو کیا ہوا، اب تقریر تو سنیں گے مگر چند منٹ بعد کہنے لگے کہ میں آپ کا مہمان ہوں، میں آپ سے کہتا ہوں کہ آواز کھول دیں۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب الفاظ تو سمجھ نہیں آ رہے تھے البتہ دھماکے اور بمباری خوب ہو رہی تھی۔
مجھے اپنے میزبانوں کا بہت خیال تھا، لیکن سوا بارہ بجے کے بعد ہمت نے جواب دے دیا تو مجبوراً محفل سے اٹھ گیا۔ یوں اس بابرکت محفل کی دعا سے محروم رہا۔ باہر نکلا تو کسی کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بہروں کی طرح کان پہ ہاتھ رکھ کر بات سن سکتا تھا۔ ایک میزبان نے رکنے کا بھی کہا لیکن معذرت کر لی۔ گھر پہنچا تو بھی کانوں کا وہی حال تھا۔ مجھے لگا کہ اگر تقریر ختم ہونے تک بیٹھتا تو شاید دو دن قوت شنوائی سے محروم رہتا۔
یہ ایذائے مسلم نہیں ہے ؟
یہ تو ہو گئی روداد۔ اب اگلی بات یہ ہے کہ میرے بھائیو، بزرگو، دوستو، علماء کرام، مفتیان عظام اور قراء کرام، اس بات پر ذرا روشنی ڈالئے کہ کیا اس کیفیت سے صرف میں گزرتا ہوں یا کبھی آپ کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ اس بارے میں میں پہلے بھی دو تحریریں “واللہ کان پھٹ گئے” اور “بارے کچھ ذکر نعت خوانی کا” کے عنوان سے لکھ چکا ہوں اور فیسبک پر موجود ہیں۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اس قدر آواز کے ساتھ سپیکر کا استعمال ایذاء مسلم کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ کیا دینی گفتگو اور نعت چنگھاڑتی آواز اور شور شرابے کے بغیر نہیں پڑھی جا سکتی اور اس قدر اونچی آواز نکالنے کا کتنا ثواب ہے؟؟؟
اذان وجمعہ والا اسپیکر تلاوت،نعت ،تقریر کے لئے کیوں استعمال نہیں ہوسکتا
کیا یہ شور شرابہ اور گانوں کی طرز اور ادا میں کی جانے والی گلوکاری مسجد اور نعت کے آداب سے مطابقت رکھتی ہے؟ اگر رکھتی ہے تو اس کی کوئی دلیل اور نہیں رکھتی تو ایسا کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟؟ اسی طرح جس سپیکر پر جماعت، اذان اور جمعہ ہو سکتا ہے، اس پر تلاوت، نعت اور تقریر کیوں نہیں ہو سکتی؟؟؟
دین کا کام دینی مزاج کے مطابق ہونا چاہیے
آخری گزارش یہ ہے کہ دین کا ہر کام دین کے مزاج کے مطابق ہونا چاہئے۔ اپنے طریقے سے دین کی خدمت کے زعم میں دین اور شریعت کی دھجیاں اڑانا بہر حال ناجائز عمل ہے۔
یہ لکھنے کے بعد بھی مجھے خیال ہو رہا ہے کہ جب سب لوگ یہی کچھ کر رہے ہیں، جبکہ ان میں مجھ سے بڑے علماء، صلحاء، اتقیاء اور مفتیان کرام موجود ہوتے ہیں اور کوئی بھی نکیر نہیں کرتا تو کہیں میں ہی نکو تو نہیں؟؟؟ للہ اصلاح کا طلبگار ہوں۔
یہ بھی پڑھیں