یوم چترال (Chitral Day)
شیر ولی خان اسیر
گزشتہ تین چار سالوں سے چترال کے نوجوان اور فلاحی تنظیمات چترال ڈے کے نام سے پشاور شہر میں ایک جشن کا انتظام کر رہے ہیں۔ جس میں مختلف مروجہ کھیلوں، قراءت، حمدو نعت خوانی اور تقریری مقابلے کرواتے ہیں۔ اول دوئم سوئم پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو انعامات دینے کے علاؤہ چترال کے اندر صحت، تعلیم، ادب، موسیقی وغیرہ شعبوں میں اچھی کارکردگی کے حامل خواتین و حضرات کو تعریفی ایوارڈ بھی دیتے ہیں۔
پچھلے سال فروری کے پہلے ہفتے میں چترال ایسوسی ایشن فار ایجوکیشنل اینڈ ہیلتھ نے اس ایونٹ کو منایا تھا اور راقم ک بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس سال 24 اور 15 جنوری کو اس کا انعقاد ہوا۔ قشقار فاؤنڈیشن چترال اور تریچمیر بیک پیکرز کلب نے پشاور ضلعی انتظامیہ، ڈائریکٹوریٹ آف سپورٹس اور کلچر کے پی کے تعاؤن سے اس جشن کا انتظام کیا۔
تقریبات میں وقت کی پابندی کا فقدان
14 جنوری 2023 کی صبح دس بجے اس کی افتتاح تقریب منعقد ہونا تھی۔ اپنی عادت سے مجبور میں پانج منٹ کم دس بجے اپنے پوتے ارحم علی سرنگ کے ساتھ پشاور سپورٹس کمپلکس پہنچا تو منتظمین کے علاؤہ کوئی بندہ موجود نہیں تھا۔ ہم نے اشیائے خوردونوش کے اسٹال میں لگائے کرسیوں پر بیٹھ کر دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ گرم گرم چائے کا لطف بھی اٹھایا۔ الطاف الرحمن رومی اور ایک ریشنیغ(ریشن نامی گاؤں کا) ایک برخوردار (افسوس نام لینا بھول گیا) نے کمپنی دی۔ چترالی نو جوانوں کی آمد کے انتظار میں دوپہر ہوگئی۔ ساڑھے گیارہ بجے میں بھی ہال میں داخل ہوا۔تب تک ہال کی نصف نشستیں بھر گئی تھیں۔لیکن مہمان خصوصی ڈی سی پشاور ابھی تک نہیں پہنچ پائے تھے۔
زئیت گاؤں کے سادات خاندان کے ذہین و فطین لکھاری جوان شیر حسین شاہ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور اپنی میٹھی باتوں سے مجھے محظوظ کرنے لگے۔ پھر علی اکبر قاضی نے میرے پہلو میں نشست سنبھال لی۔ ان سے عالمانہ گفتگو سننے کا موقع نہ ملا کیونکہ ہال میں شور تھوڑا زیادہ تھا۔ لنگوٹیا یار ریٹائرڈ سیکرٹری محکمہ بلدیات رحمت غازی کے آنے اور میرے ساتھ کرسی سنبھالنے سے میری تنہائی مزید کم ہو ہوگئی کیونکہ ان کے ساتھ پرانی یادوں کی دھرائی کی داستان چل نکلی۔ گزرے دوستوں محمد عباس مرحوم، فدا احد مرحوم اور بلبل ولی خان بلبل مرحوم کی جدائی کا افسوس کیا کیونکہ یہ ہمارے مشترکہ یار تھے۔ ان کا ہم سے بچھڑ جانا ہم دونوں کے لیے اذیت ناک تھا۔ ان کے ساتھ ہر لمحہ رہ رہ کر یاد آتا ہے۔
ساڑھے بارہ بجے ڈپٹی کمشنر پشاور تشریف لائے اور تقریب کا آغاز ہوا۔ ڈی سی شفیق اللہ صاحب نے مختصر افتتاحی خطاب کیا اور تقریب کے انعقاد اور چترالی تہذیب و تمدن کی تعریف کی۔ اس کے بعد مہمانوں کو چترالی ٹوپیاں پہنائی گئیں۔ یوں افتتاحی تقریب اختتام پزیر ہوگئی۔
چترال ڈے کے سماجی اور معاشرتی پہلو
یوم چترال یا چترال ڈے یا” ݯھترارو انُس” منانے کے بہت سارے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اہل چترال کا یہ اجتماع نہ صرف چترال کے بڑے بوڑھوں اور نوجوانوں کو آپس میں گھل مل جانے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ اہل پشاور کے ساتھ مل بیٹھنے اور اپنی تہذیب و ثقافت سے ان کو روشناس کرانے کا زرین موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ جشن سیاسی، مسلکی/ مذہبی، نسلی اور علاقائی گروہ بندیوں سے پاک ہوتا ہے اور آپس میں یگانگت اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے جو ہماری پرامن زندگی اور معاشرت کے لیے ناگزیر ہے۔
اس جشن کے ذریعے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مقابلوں کا موقع دیا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ایوارڈ کے ذریعے چترال کے ان خواتین و حضرات کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے جنہوں نے کسی بھی شعبہء زندگی میں نمایاں کردار ادا کیے ہوتے ہیں۔ پشاور میں مقیم بچوں کو صحت مند تفریح کا اچھا موقع ملتا ہے۔
اگلی صبح دس بجے دوسرے دن کے پروگرام تھے جن میں قرآت ، حمد، نعت خوانی اور تقریر کے مقابلے تھے اور 3 بجے سہ پہر تقسیم انعامات کا سیشن تھا۔ پچھلے دن کے تجربے سے غلط سبق ملا تھا اس لیے ڈھائی بجے بعد دوپہر اپنی بیگم کے ہمراہ پشاور اسپورٹس کمپلکس پہنچا تو دیکھا کہ تقسیم انعامات آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ میری بیگم صاحبہ نے اپنی بچی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ کا شیلڈ وصول کیا اور میرے ہاتھ سے دو آخری ایوارڈ دلوائے گئے۔ اس کے علاؤہ چترال کی لیجنڈری شخصیت ماہر تعلیم اور چترال کی چلتی پھیرتی تاریخ جناب مکرم شاہ صاحب اور ان کے خاندان کے افراد سے عرصے بعد ملاقات ہوئی اور سیشن کے اختتام پر چند منٹوں کے لیے مل بیٹھنے کا موقع ملا جس کی ہمیں ہمیشہ آرزو رہتی ہے۔
چترال کی اولین تعلیم یافتہ خواتین
جب میری اہلیہ اپنی بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سِرنگ کا ایوارڈ وصول کر رہی تھی تو میں سوچ میں پڑ گیا تھا۔ میری نشست کے پیچھے بچیوں کی نشست گاہ تھی جو کچھا کھچ بھری تھی۔ یہ چترالی بچیاں کالج اور یونیورسٹیوں کی طالبات تھیں۔ اسٹیج پر میری شریک حیات جمشیلی بی بی اپنے خاندان کے بھائی وکیل ارشاد احمد کے ہاتھ سے بچی کا انعام وصول کر رہی تھی۔ یہ خاتون اپر چترال کی ان تین خواتین کی ہم عصر ہے جن کو علاقے کی اولین تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور جنہوں نے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور استانی کی حیثیت سے علاقے کی خدمت کی تھی۔ چترال زیرین میں بھی ایسی خواتین اب بھی موجود ہیں جن کو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ملازمت میں پیش روی کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی خدمات پر ایڈوکیٹ نیاز اے نیازی کا ایک تفصیلی مضمون بھی نظر سے گزرا تھا۔
ریݰُن چترال کی گلسمبر بیگم مرحوم بنت عبدل حوالدار، زئیت کی گلستان عزیز بنت مرزا محمد اقبال مرحوم ، بونی کی لغل زمرد ( والدہ فدائی ثانی بونی گول) اور بریپ یارخون کی جم شیلی بی بی بنت خان جمعدار نے 1968 میں کراچی سے تعلیم و تربیت حاصل کرکے آغاخان ہیلتھ سروسز پاکستان کی طرف سے زچہ بچہ یونٹوں میں خدمات کا آغاز کیا تھا اور اٹھارہ بیس سالوں تک صحت کے شعبے میں خدمات انجام دینے کے بعد گلسمبر بیگم، جم شیلی بی بی اور گلستان عزیز نے محکمہ تعلیم جوائن کیا جب کہ لغل زمرد صحت کے شعبے میں ہی خدمات انجام دیتی رہی اور پنشن پائی. ان خواتین نے چالیس سے زائد عرصے تک صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اہل چترال کے لئے خدمات انجام دیں۔ اپنی انتھک جد و جہد اور سخت محنت سے اعلےٰ عہدوں تک رسائی پائی اور ریٹائر ہوئے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں چترال کی ان پیش رو خواتین کا نام کوئی نہیں لیتا جنہوں نے اس دور میں لڑکوں کے مدرسوں سے پرائمری اور مڈل پاس کیا تھا جب سماج بچیوں کے اس عمل کو کفر اور بے حیائی قرار دے رہا تھا۔ ان کے والدین معاشرے کی گالیاں اور تہمتیں برداشت کر رہے تھے۔ ان خواتین اور ان کے والدین نے قدیم دقیانوسی خیالات اور روایات کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تھا اور بچیوں کے لیے تعلیم اور ملازمت کی راہیں کھولی تھیں۔ جم شیلی بی بی وہ پہلی چترالی خاتون ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر خواتین کی سیاست میں حصہ لینے کی ابتداء کی تھی۔ اپنی ان بیٹیوں کی خدمات کا اعتراف کرنا چترالی معاشرے پر قرض ہے۔۔
نئی نسل میں سحر خیزی کی عادت ختم ہو رہی ہے
خیر! یہ اس موقع پر ذہن میں گردش کرنے والے خیالات تھے۔ یوم چترال کے انعقاد سے جہاں بہت سارے مثبت رجحانات کو مہمیز ملتی ہے وہیں پر کچھ منفی رجحانات بھی نظر آئے۔ان میں وقت کی نا قدری مجھے بے حد افسوسناک لگی۔ مجھے بتایا گیا کہ ہمارے کھلاڑی بچے جو کمپلکس کے ہوسٹل میں قیام پذیر تھے صبح ساڑھے دس بجے تک نیند کے مزے لے رہے تھے جب کہ تقریب کا آغاز دس بجے ہونا تھا۔ دس گیارہ بجے تک بستر پر پڑے رہنے کی عادت ہماری نئی نسل کا ” نشان امتیاز” ۔ بن چکی ہے۔صبح کا وقت وہ قیمتی وقت ہے جس میں عبادت سے لے کر دنیاوی امور تک کا عمل دن کے چوبیس گھنٹوں میں سب سے زیادہ پر اثر ہوتا ہے۔ دنیای کی تقریباً ساری نامور شخصیات سحر خیز تھیں اور ہیں۔ ان کی اعلےٰ کارکردگی کا راز ان کی سحر خیزی میں پوشیدہ تھا ۔جس نے صبح کا وقت کھو دیا گویا اس نے پورا دن کھو دیا۔ اور اگر زندگی بھر یہ بری عادت کسی کے ساتھ رہی تو سمجھ لیں کہ اس نے پوری زندگی ہی کھو دی۔ ہماری نوجوان نسل کو اس بری عادت سے چھٹکارا پانا ہوگا ورنہ وہ دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے محروم رہ جائے گی۔