بےایمان معاشرے کا ایک ایمان دار فرد
ڈاکٹر یونس حسنی
ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آنے والوں کی قدیم بستی دہلی کالونی
پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت اس کا دارالسلطنت کراچی قرار پایا۔ ہندوستان سے آنے والوں کی یلغار فطری طور پر کراچی پر زیادہ ہوئی اور دیکھتے دیکھتے کراچی کی آبادی بری طرح بڑھتی گئی۔ نئی نئی بستیاں آباد ہوئیں انھی بستیوں میں سے ایک دہلی کالونی ہے جو گزری نام کے گاؤں کے جوار میں آباد ہوئی اور اب یہ آبادی ڈیفنس کا دروازہ ہے۔
دہلی کالونی میں “راجا بھائی” کی دکان جو مسالوں کے لئے مشہور تھی
دہلی کالونی میں بیش تر آباد کار دہلی کے پنجابی سوداگران تھے جن کا پیشہ تجارت ہے ، اس محلے میں 40 گز سے لے کر 120 تک کے مکان تھے اور وہ بھی یک منزلہ۔ تاجروں کی اس آبادی میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جو بھائی راجا کی دکان کے نام سے مشہور تھی۔
بھائی راجا کا اصل نام بھی کچھ رہا ہوگا مگر وہ اپنی عرفیت سے مشہور تھے۔ ان کی دکان کہنے کو دکان تھی مگر دراصل وہ ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور تھا۔ آپ اپنی ضرورت کی کسی چیز کا تصور کیجیے وہ بھائی راجا کے اسٹور میں میسر ہوگی۔
چھوٹی سی دکان میں زمین سے لے کر چھت تک الماریاں اور اس میں طرح طرح کے ڈبے اور بوتلیں۔ بالائی حصے تک رسائی کے لیے انھوں نے ایک سیڑھی رکھی تھی۔
وہ صرف تاجر ہی نہیں ایک مبلغ بھی تھے ، تبلیغی جماعت سے تعلق تھا
بھائی راجا صرف تجارت نہیں کرتے تھے وہ مبلغ بھی تھے دکان پر تختیاں اور مختلف قسم کے بورڈ آویزاں تھے جن پر احادیث درج تھیں۔ ان کا کوئی لڑکا نہیں تھا اس لیے سارے کام خود کرتے، جوڑیا بازار سے سودا لانا، اسے متعلقہ ڈبوں اور مرتبانوں میں منتقل کرنا، خریداروں کو سودا فراہم کرنا۔
خلاف اصول حرکت پر ہر کسی کو ڈانٹ دیتے گاہک ڈانٹ سہہ کر انہی کے پاس ہی کھینچے چلے آتے
پھر ان کے چند اصول تھے وہ ان اصولوں پر سب سے عمل کرواتے خصوصاً عورتوں سے۔ خلاف اصول حرکت پر وہ ہر کسی کو ڈانٹ دیتے تھے مگر خریدار نہ جانے کیوں ان کی ڈانٹ سہ کر ان کے یہاں سے سودا لینے آتے۔
جو سوئے گا قیامت کے دن روئے گا ، فجر کے وقت گھر سے نکلتے ہوئے صدا لگاتے چلے جاتے
صبح وہ فجر کے وقت گھر سے نکلتے تو سونے والوں کو جگاتے جاتے ان کی صدا تھی جو سوئے گا وہ قیامت کے دن روئے گا۔ بہت سے لوگ ان کی یہ صدا سن کر نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے کتنا ثواب ملتا ہوگا انھیں۔
سودا تولتے تو ان کی تول بالکل درست ہوتی ان کے چاٹ مسالے، کھٹمل مار ادویہ اور متعدد ایسی چیزیں جو صرف ان کی دکان پر ملتی تھیں۔ بڑھاپے کے باوجود آخر وقت تک اپنے ہاتھ کی کمائی ایمان داری سے کما کر کھائی۔ پچھلے ہفتے ان کا انتقال ہو گیا۔
میری طرح کسی بندۂ خدا کو ان کی موت کا صدمہ ہوا تو اس نے اپنے تاثرات موبائل پر شیئر کیے۔ میں اپنی بات چھوڑ کر ان کی تحریر کے ذریعے مشترکہ اظہار عقیدت اور دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت ۔
دہلی کالونی اور نواح کے باورچی خانوں میں ان کے مسالوں کی دھوم تھی
بھائی راجا ایک ماہر فن تھے، اپنی نگرانی میں بڑیاں، چاٹ مسالے، بیسن وغیرہ پسواتے۔ انھیں اپنے کام سے عشق تھا۔ معیار کے حوالے سے بڑے حساس تھے اور ایمان داری ان کا شعار تھا۔ اس لیے دہلی کالونی اور اس کے نواح کے باورچی خانوں میں ان کے فن کا ڈنکا بجتا تھا۔ انھوں نے چار نسلوں کو متاثر کیا۔ ہمارے دادا ، والد پھر ہم ہمارے بعد آنے والی نسل۔ ہر ایک کو ان کے مسالوں کی چاٹ بلکہ لت لگی ہوئی تھی۔
میں نے ان کے مسالوں کی طلب دیکھی تو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ان گناہ گار آنکھوں نے دبئی اور ابو ظہبی میں ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی بڑیوں اور مسالوں کا سکہ چلتا دیکھا ہے۔
دعوت دین کے حوالے سے یک سو تھے، تبلیغی جماعت سے وابستہ تھے اور دکان پر قرآنی آیات اور احادیث پر مبنی تختیاں آویزاں کر رکھی تھیں، کم گو تھے مگر دینی موضوعات پر بات کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے، ایسے موقع پر ان کا دینی جذبہ و جوش الگ ہوتا تھا اور وہ بدلے ہوئے بھائی راجا نظر آتے تھے۔
بھائی راجا قدیم پیڑھی کے نمائندے تھے
بھائی راجا اس قدیم پیڑھی کی نمایندگی کرتے تھے جس نے دہلی کالونی آباد کی۔ اسے پھلتے پھولتے دیکھا اور پھر اپنی آنکھوں سے اسے انسانوں کا جنگل بنتے اور برباد ہوتے دیکھا۔ محلہ محض گلیوں اور گھروں کے مجموعے کا نام تو نہیں ہوتا، صدیوں کی روایتیں، عادتیں، قدریں اس کی بنیادوں میں دفن ہوتی ہیں۔ اہل نظر تازہ بستیاں آباد کریں گے، مگر ہائے وہ دہلی کالونی اب کہاں کہ بقول میر صاحب ’’جس کے تھے کوچے اوراق مصور کے‘‘ بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے۔ بھائی راجا دل میں آباد اس بستی کا سادہ مگر خوبصورت ورق ہیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ ایکپریس)