بچوں کو قرآن کیسے حفظ کرائیں ؟
اپنے بچوں کو حفظ کروانے کی خواہش بہت سے لوگوں کے دل میں ہوتی ہے لیکن یہ خواہش جب عمل میں ڈھلتی ہے تو بہت سارے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ والدین کی شدید خواہش چونکہ ابھی بچے کی خواہش اور پلاننگ میں شامل نہیں ہوتی تو اکثر بچے ضد ، باغیانہ روئیے اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ اگر کچھ بچے شوق اور رغبت کا اظہار کریں بھی تو اکثر بچے جس عمر میں حفظ شروع کرتے ہیں اس لحاظ سے یہ اُن کے والدین کا فیصلہ اور خواب ہی کہلا سکتا ہے جسے پورا کرنا اُن پر لازم ہوجاتا ہے ۔ اس مرحلہ حفظ کے دوران مختلف مراحل آتے ہیں جن کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں جن کے بچے حفظ کرچکے ہوں یا کر رہے ہوں ۔
سب سے پہلی بات کہ حفظِ قرآن ہو یا ناظرہ قرآن ، اس کے لئے کوئی عمر مقرر نہیں ۔
دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ قرآن کریم کو سمجھنا ، اس پر عمل کرنا اور اس کے پیغام کو آگے پہنچانے میں اپنا حصہ ڈالنا، یہ وہ کام ہیں جن کے حوالے سے ہم سے روز آخرت بھی سوال ہوگا اور دنیا کی زندگی میں بھی یہ ہمارے لیے راہ راست پر قائم رہنے کا سبب بنیں گے ۔
حفظ قرآن کو اگر محض فرض کی ادائیگی ، برکت کے حصول یا فخر کے اظہار تک محدود رکھا جائے کہ ایک دفعہ حفظ کی روایت پوری کر لی اب زندگی بھر حافظ کا لاحقہ نام کے ساتھ لگا رہے گا مگر عملی طور پر قران کا حق نہ ادا کیا جاۓ تو یہ ہماری نا اہلی اور قرآن کے پیغام سے ناآشنائی شمار ہوگی ۔
تیسری بات، قرآن کریم کو دل اور دماغ میں محفوظ کرنا سنت ہے، سعادت ہے، معجزہ ہے لیکن فرض نہیں ہے ۔
چوتھی بات یہ کہ بچے کو حفظ کرانا ہے کہ نہیں کرانا،اس کا فیصلہ بچے کی استعداد کی بنیاد پر ہی کیا جاسکتا ہے ۔
حفظ کرانے سے پہلے کرنے کے کام
💠۱۔پہلا کام؛ اس سمت میں آگے بڑھنے سے پہلے والدین کی آپس میں ڈسکشن ، ہم آہنگی ، اس ذمہ داری کے نتیجے میں آنے والی مشکلات کو مل کر فیس کرنے پر ایگریمینٹ ۔ اگر ابا کی خوائش ہے تو اماں بھی جان لے کہ اس کے مطابق آپ نے گھر کا روٹین سیٹ کرنا ہے ۔اگر اماں کی خواہش ہے تو ابا دیگر ذمہ داریوں اور گھر کے حوالے سے خاتون خانہ کو سہولت دیں ۔ ماں یا باپ میں سے ایک یا دونوں کو ذمہ داریاں تقسیم کرنی ہوں گی مثلاً بچے کو لانا ، لے جانا ، اُس کے ٹیچرز یا اسکول سے رابطہ رکھنا اور گھر کے اندر اُس کا سبق دہرانے میں اُس کی مدد کرنا ۔
💠۲۔دوسرا کام؛ دیکھ بھال کر اچھے مدرسے یا ٹیچر کا انتخاب ۔جن اداروں یا ٹیچرز کے بارے میں اچھے review نہ ملیں وہاں یا تو نہ بھیجیں یا پھر اچھی طرح اطمنان کرلیں ۔ مار پیٹ حفظ اور ڈسپلن کے لئے شرط نہیں ۔
💠۳۔تیسرا کام؛ بچہ اگر چھوٹی عمر میں ہے تو اُس کو بتانا اور اس کے ساتھ مل کر سیلیبریٹ کرنا کہ وہ اتنا خوبصورت کام کرنے کا آغاز کر رہا ہے ۔ اور اگر بڑا بچہ ہے تو اُس کی مرضی معلوم کرنا، اس کو فائدے بتانا، ترغیب دلانا ۔ بجاۓ اس کے کہ اس پر زبردستی یہ فیصلہ مسلط کیا جائے ۔
💠۴۔اگر چھوٹی عمر کا بچہ ہے یعنی پرائمری اسکول کی ایج کا ہے جو کہ سب سے اچھی عمر ہے ۔ایسے میں بچے کو اسکول سے ہٹا کر گھر میں اس کے لیے کسی اچھے ٹیچر سے ٹیوشن کا انتظام کیا جائے جو ریاضی ، انگریزی اور سائنس پڑھا سکے تاکہ وہ اسکول کی تعلیم کے لحاظ سے پیچھے نہ رہے ۔ ورنہ ایسے مدرسے اور ادارے بھی ہیں جہاڻ حفظ کے ساتھ اسکول کی تعلیم بھی ہے ۔
💠۵۔بڑے بچے کے لیے جو ٹین ایج میں ہے یہ مناسب نہیں کہ وہ اسکول سے بالکل محروم ہوجاۓ بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اسکول ضرور جائے البتہ اُن کے اوپر حفظ کے سالوں کے دوران پڑھائی کا بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ بہرحال اس کا فیصلہ والدین بچے سے ڈسکس کرکے ہی کرسکتے ہیں ۔
دوران ِحفظ بچے اُکتا جاتے ہیں ، تھک جاتے ہیں ، بھولنے سے جھجھلاتے ہیں ۔حالانکہ اس بات کی شاید کوئی سند نہیں لیکن شیطان کی طرف سے وسوسے بچوں کو بہکاتے ہیں ۔ مدرسے جانے والے بچے وہاں کی سخت روٹین سے چڑتے ہیڻ اور کبھی اچھے دوست نہ ملیں تو بدتمیزی بھی سیکھ لیتے ہیں ۔ ماں باپ چونکہ اس دھن میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح حفظ ہوجاۓ تو وہ بچے کے جذبات و احساسات کو سمجھے بغیر اُسے بات بات پر ڈانٹے ہیں تو بچے ضد میں آکر والدین کو زچ کرنے والی حرکتیں بھی کرتے ہیں ۔
حفظ قرآن
بچے کا روٹین
بچے کو حفظ کروانے کے لیے قربانی سارے گھر کے افراد نے دینی ہوگی ۔ اگر سارے گھر والے بچے کو حفظ کے مشقت والے روٹین میں لگا کر راتوں کو دیر دیر جاگیں ، وقت بے وقت پارٹیاں ہوں ، گھر میں ہر وقت چیخ پکار اور گندگی ہو تو بچے کے لیے فوکس کرنا مشکل ہے وہ منتشر رہے گا ۔ بچے کے لیے سونے کی صاف ستھری پرسکون جگہ رکھیں تاکہ نیند پوری ہو ۔ اُس کے سبق یاد کرتے وقت اُس جگہ شور اور کسی قسم کی distraction نہ ہو۔ اُس کا رات وقت پر سونا اور دن میں کچھ وقت کا قیلولہ (Nap ) ضروری ہے ۔
بچے کی غذا
بچے کے کھانے پینے کاخیال رکھا جائے، اسے ایسی غذائیں دی جائیں جو اُس کی دماغی صحت اور فوکس کو بڑھاسکیں ۔ مثلاً
دودھ ،انڈا، ڈرائی فروٹس ،سبزیاں وغیرہ
اس کے بارے میں کسی nutritionist سے مشورہ کیا جاسکتا ہے ۔
حفظ قرآن
ایکسرسائز
بچے دوران حفظ ایک ہی کام بہت محنت سے کرتے ہیں اور اکثر اس میں طویل اوقات بیٹھ کر دہرائی کرنی ہوتی ہے جس وہ ذہنی و جسمانی طور پر تھک جاتے ہیں اس لئےکوئی بھی جسمانی ورزش اُن کے لیے اچھی ہے جیسے سوئمنگ ، رننگ ، جاگنگ ، ہائیکنگ یا اور کوئی اسپورٹس سرگرمی ۔
ذہنی صحت
مستقل پریشر اور توقعات پر پورا اُترنے کا خیال اُنہیں انگزائٹی میں مبتلا کرسکتا ہے اس کے لیے ان کے لیے آوٹ ڈور کچھ تفریحی سلسلہ رکھنا۔ اُن سے پیار محبت سے بات کرنا ، اان کی سننا اور کچھ وقت اُن کی mindfulness کی مشق کروانا مفید ہے ۔
جذباتی صحت
پڑھائی کے دوران بچے کاغصہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس لیے گھر کے باقی لوگ بھی اُس بچے ہر غصہ کرنے اور اُس پر چیخنے کی بجائے خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو اچھا ہے ۔ وہ دوسرے لوگوں کی فراغت سے جیلیس ہوسکتا ہے ، وہ اپنے استاد یا والدین سے چڑنے لگ سکتا ہے وہ بہت سے جذبات کو سمجھے بغیر اچانک پھٹ پڑ سکتا ہے اس کے لئے اردگرد کے لوگوڻ کو ایموشنلی انٹیلیجنٹ ہونا ضروری ہے تاکہ اُس کا ساتھ دے سکیں ۔
چیلینجگ روئیے
ایسے فیز آتے ہیں جس میں بچے حفظ چھوڑنے کا اعلان کردیں، یاد کرنے کے بجائےوقت گزاری کریں ، ٹیچر کے حوالے سے شکایتیں لے آئیں لیکن ان سب میں بچے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ہے آپ کا نہیں ہونا چاہیے ۔
حفظ قرآن
تحمل -صبر -انتظار
یہ تین لفظ یاد رکھیں اس سفر میں کام آئیں گے ۔
پیار کی انتہا ، محبت اور نرمی سے اُس کے پاس بیٹھ کر سمجھانا ، کندھے سہلانا، باہر گھمانے لے جانا ، اُس کو لعن طعن نہ کرنا اور نفل پڑھ کر اُس کے لیے دعا کرنا اور خصوصا معوذتین پڑھ کر اُس ہر دم کرنا اور اُسے پڑھوانا ۔
ہوسکتا ہے یہ فیز بالکل شروع میں آۓ، ہوسکتا ہے بیچ میں یا بالکل آخر میں۔ بس گھبرانا نہیں ۔ لیکن اگر بالکل شروع میں بچہ بالکل بپھر جاۓ اور ہرگز راضی نہ ہو تو فیصلے پر نظرثانی کرلیں یا کچھ وقت کا وقفہ دے دیں۔
حفظ کی تکمیل کا مرحلہ ہے ۔ خوبصورت موقع ۔ ہم یہ سوچتے ہیں ہمارا بیٹا یا بیٹی اپنے حفظ کی بدولت ہمیں ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جاۓ گا لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسی کو منزل نہ سمجھیں ۔
اب اصل کام اس کو برقرار رکھنا اور بچے کا قرآن سمجھنے کی طرف توجہ دلانا ہے ۔ ماں باپ کے لیے اولاد کی ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہوتی لیکن بالغ ہونے سے پہلے بچے کو ذمہ داری کا احساس دلانا اور اس کے ذہن میں قرآن اور دین کی محبت پیدا کرنے کی کوشش اہم ہے کیونکہ ہر ایک اپنےاعمال کا جوابدہ ہوگا ۔
یہ تحریر بہت سے قریبی رشتہ داروں کے بچوں کو دیکھ کر لکھی لیکن ہر ایک کا تجربہ الگ ہے ۔ اس لیے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے ۔اس کے علاوہ لکھتے وقت لڑکوں کو سامنے رکھ کرلکھا ہوسکتا ہے لڑکیوں کا تجربہ الگ ہو ۔
تحریر ؛ نامعلوم
یہ بھی پڑھئیے:
بچوں کی تربیت میں حلال وطیب غذا کا کردار