بہاولپور کی شان لال سوہانرا پارک اور اسلامیہ یونیورسٹی
نوید نقوی
بہاولپور ایک دلکش شہر اور تاریخی روایات کا امین خطہ ہے جو اپنی الگ ریاست رکھتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ جدا گانہ ثقافتی ورثہ رکھتا ہے۔ اس وقت اس کا شمار پنجاب کی بڑی ڈویژن اور ضلع میں ہوتا ہے۔ یہ ایک امیر خطہ تھا اور اب حکمرانوں کی غفلت اور مجرمانہ چشم پوشی سے یہاں کے باسی بھی پانی کی شدید قلّت اور خوراک کے بحران کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
نواب آف بہاولپور نے ریاست کے رضاکارانہ انضمام کے بعد اپنے خزانوں کے منہ پاکستان کے لئے کھول دئے
بہاولپور کو محسن پاکستان بھی کہا جاتا ہے، نواب آف بہاولپور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی رفقاء میں شامل تھے اور قائد اعظم کے کہنے پر ہی اپنی عظیم ریاست کا انضمام رضاکارانہ طور پاکستان کے ساتھ کیا اور اپنے خزانے کے منہ نوزائیدہ ریاست کے لیے کھول دیے۔
نواب صاحب نے اپنی طرف سے نوزائدہ مملکت کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کیں
حتیٰ کہ پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک بہاولپور کے نواب نے ادا کیں اور اپنے محل تک قائد اعظم کو گفٹ کیے۔ بہاولپور سرائیکی اکثریت پر مشتمل خطہ ہے تاہم یہاں بڑی تعداد میں پنجابی آبادکار اور دیگر زبانوں کے بولنے والے بھی صدیوں سے آباد ہیں۔
یہ شہر اپنے اندر ایسی جاذبیت رکھتا ہے کہ ہر صاحب ذوق یہاں رہنے کو پسند کرتا ہے
میرے عظیم استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر شبیر بلوچ صاحب سابق ہیڈ آف میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ہمیشہ فرماتے رہے ہیں کہ جس طرح من پسند انسان کے ساتھ زندگی گزارنا باعث سکون ہوتا ہے اسی طرح بعض شہر اور خطے بھی اپنے اندر ایسی جاذبیت اور کشش رکھتے ہیں کہ انسان لا محالہ خواہش کرتا ہے ساری زندگی اس شہر میں گزار دے، بہاولپور کا بھی پاکستان کے ان چند شہروں میں شمار ہے جن کا میعار اور دلکشی ایسی ہے کہ ہر صاحب ذوق شخص اس شہر میں رہنا پسند کرتا ہے۔
یہاں قدم قدم پر نوابوں کے دور کی تاریخی عمارات آپ کا استقبال کریں گی سر سبز اور خوبصورت شہر ایسے لگتا ہے جیسے صحرا کے سینے پر موتی براجمان ہو، یہ شہر ایک طلسماتی حیثیت رکھتا ہے مہمان نوازی اور اعلیٰ ظرفی یہاں کے باسیوں کی خصوصیات میں شامل ہے۔ لیکن اتنا تعارف کرا کر میں رکشے کا رخ قریب ہی لال سوہانرا پارک کی طرف کرتا ہوں اس شہر کا مکمل تاریخی تعارف اور اس کی سیر انشاء اللہ تعالیٰ انہی صفحات پر پھر کبھی کرواؤں گا فی الحال اپنے دوست سلیم چشتی کی فرمائش پر لال سوہانرا پارک چلتے ہیں۔
ایک لاکھ 65 ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا لال سوہانرا پارک
لال سوہانرا پارک پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاول پور میں واقع ہے یہ جنوبی ایشیاء کے بڑے اور وسیع ترین قومی پارکوں میں سے ایک ہے۔ یہ پارک ایک لاکھ 65 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر پھیلا ہواہے، یہ پارک زمینی خدوخال صحرا،پانی اور جنگلات کے باعث بہت مقبول ہے۔ یہ پارک بہاولپور سے 35 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے، تھل نہر یہاں سے گذرتی ہے۔ یہاں جھیلیں اور تالاب بکثرت پائے جاتے ہیں پارک کی سطح میدانی اور صحرائی ٹیلوں پر مشتمل ہے یہ ٹیلے 6 میٹر تک بلند ہیں جو ہزاروں ایکڑ اراضی پر محیط ہیں.
پارک جنگی حیات سے بھرپور ،تلور سمیت مختلف قسم کے بری اور آبی جانوروں کا مسکن
یہ پارک جنگلی حیات جن میں جنگلی پرندے اور جنگلی جانوروں سے بھر پور ہے۔ جنگلی بلی، خرگوش، تلور، ہرن، چھپکلیاں، سانپ، کوبرا، عقاب، شاہین، گدھ اور روسی عقاب، مختلف قسم کی چڑیاں، الو یہاں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تالابوں اور جھیلوں میں پانی کے جانور مگر مچھ، مچھلیاں اور کچھوے بھی پائے جاتے ہیں۔
دس سے تیس ہزار آبی پرندوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے
یہاں تقریباََ 10 ہزار سے 30 ہزار تک آبی پرندوں کی آمدورفت جاری رہتی ہےحکومت پنجاب نے منصوبہ بنایاہے کہ یہاں معیاری قسم کا سفاری پارک قائم کیاجائے یہاں شیروں کے لیے قدرتی ماحول بنایاجائے گا تاکہ سیاح شیروں کو ان کے اصلی مسکن میں قریب سے دیکھ سکیں اس کے علاوہ نیپال سے لائے گئے گینڈوں کی نسل میں اضافہ کے لیے ایک مرکز بھی ہے جو پاکستان میں معدوم ہے۔ تقریباََ 400 سے زائد جنگلی جانوروں اور پرندوں کی نسلی افزائش کے لیے کام کیاجا رہاہے مثلاََ کالا ہرن، جو پاکستان میں خطرناک حد تک کم ہو رہاہے.
کالے ہرن کی افزائش بڑھانے کے لئے 70 ایکڑ پر محیط انکلوژر بنایا گیا ہے
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق برصغیر کے اس خطے میں سنہ 1947 میں کالے ہرنوں کی تعداد 80 ہزار تھی جو کم ہو کر سنہ 1964 میں آٹھ ہزار پر آ گئی۔ تاہم بحالی کی کوششوں کے بعد اب دوبارہ ان کی تعداد 25000 کے قریب ہو چکی ہے۔ کسی زمانے میں چولستان کے صحرا میں اس قیمتی جانور کی بہتات ہوا کرتی تھی اور آپ کو غول کے غول نظر آ جاتے تھے پر غیر قانونی شکار اور خلیجی دوستوں کو بے رحمی کی حد تک شکار کرنے کی اجازت نے یہ تعداد کافی حد تک کم کر دی ہے لیکن لال سوہانرا پارک میں کالے ہرن کا 70 ایکڑ پر مشتمل انکلوژر بنا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا کے چند بڑے پارکوں میں شامل اسی پارک میں کالے راج ہنس کی افزائشِ نسل بھی کروائی جاتی ہے۔ ہرن کی ایک اور قسم چنکارہ بھی یہاں آپ کو دوڑتے اور پھدکتے ملیں گے۔
بچوں کے لیے تفریح کا خاطر خواہ بندوبست ہے۔ یہاں پانی کی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جہاں جانے کے لیے آپ کو ایسے راستے سے گزرنا پڑتا ہے کہ سفاری جیسا ماحول بن جاتا ہے۔ میں یعنی نوید نقوی، شجاع ، عامر شہزاد ، شریف وٹو اور عبداللہ میاں جب اس پارک میں گئے تھے تب ہم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طالب علم تھے اور مختلف ڈیپارٹمنٹس سے تعلق رکھنے کے باوجود اکثر وقت اکٹھے گزارتے تھے ، نہ ہماری لائف میں کوئی لڑکی تھی اور نہ ہی ہمارے گروپ نے کبھی ایسی خواہش کی تھی ، ایک دوبار ہم نے اپنی ایک کلاس فیلو سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کی لیکن پیارے دوست کاشف لاشاری نے گروپ کے منشور کی خلاف ورزی نہ کرنے دی اور بر وقت ہمارے ارمانوں پر اوس ڈال دی۔
پارک میں بچوں کی تفریح کے بھی بھرپور انتظامات ہیں
خیر میری زندگی کا یہ خوبصورت ترین وقت تھا جب غم روزگار نہیں تھا اور زندگی ایک ایسے خواب کی طرح گزر رہی تھی جس میں شہزادے بھی ہم تھے اور بادشاہ بھی ، خیر اگر آپ بھی اس پارک میں بچوں کے ساتھ آنا چاہیں تو آپ کا دن بہترین گزر سکتا ہے، آپ دن کے پہلے ٹائم کالے اور چنکارہ ہرنوں کے ساتھ وقت پاس کریں پھر 8 کلومیٹر دور بچوں کے پارک میں جا کر بچوں کے لیے شاندار دن بنا سکتے ہیں۔ یہ پارک اور اس متصل چلڈرن پارک وسیع وعریض ہیں۔
آپ یہاں کھانے پینے کا سامان لے کر آ سکیں تو بہتر ہے نہیں تو یہاں بھی کھانے پینے کی اشیاء مل جاتی ہیں اور آپ یہاں سے نکل کر تقریباً دس کلو میٹر دور ڈیزرٹ برانچ کینال کی دوسری طرف واقع قدرتی جھیلوں کے کنارے بیٹھ کر سکون سے کھانا پینا کر سکتے ہیں۔ ان دنوں یہاں ہٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں جہاں رکنے کا بندوبست ہو گا۔ فی الحال بہتر ہے کہ آپ چٹائیاں اور اپنا کھانا ساتھ لے جائیں اور کسی درخت کی چھاؤں میں جھیل کنارے بیٹھ کر تناول فرمائیں۔
شام ہوتے ہی ہرنیں کونوں کھدروں سے قلانچیں بھرتے نمودار ہوتے ہیں
کچھ عرصہ قبل یہاں دو گینڈے موجود تھے پر اب ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ یہاں آپ جب بھی آئیں شام تک لازمی انتظار کریں جب ان پیارے ہرنوں کو کالے چنے کا کھانا ڈالا جاتا ہے، کیونکہ اس وقت ایک گھمسان کا رن ہوتا ہے اور ہرن کونوں کھدروں سے چونکڑیاں بھرتے ہوئے جب کھانے کے لیے آتے ہیں تو آپ خود کو فطرت سے نزدیک تر سمجھتے ہیں اور یہ منظر آپ کی آنکھوں کو طراوت بخشتا ہے۔
حکومت پاکستان کو چاہئیے کہ اس وسیع و عریض رقبے پر پھیلے خوبصورت جنگلی مسکن پر بھرپور توجہ دے اور مزید رقبے پر نہ صرف جنگلات لگائے جائیں بلکہ اس قومی اثاثے سے درختوں کی کٹائی کو سختی سے روکنا بھی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس پارک میں بین الاقوامی معیار کی سہولیات دے کر ہر روز لاکھوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور آخر یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا ؟
یہ بھی پڑھیں
دنیا کی بلند ترین اے ٹی ایم جہاں تک پہنچنے کے لیے پریوں کی بستی سے گزرنا پڑتا ہے