امریکا کی جانب سے القدس (یروشلم) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے بعد مختلف ممالک نے اس مقدس شہر میں اپنے سفارتخانوں کیلئے اراضیاں بھی مختص کر دی ہیں۔اس امریکی فیصلے کے کچھ عرصے بعد عرب میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ بھارت ”ہندی سرائے“ کہلانے والی القدس کی اس تاریخی عمارت میں اپنا سفارتخانہ بنانے کا خواہاں ہے، جس میں برصغیر کے معروف صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکرؒ مقیم رہے تھے۔ بابا فریدؒ سے قبل شیخ احمد رفاعیؒ جیسے کئی اولیاءکا یہ مسکن رہا ہے، جو مسجد اقصیٰ کی زیارت کیلئے تشریف لا کر یہاں ٹھہرتے رہے ہیں۔
گاندھی اور نہرو سمیت کئی اہم رہنما زاویہ ہندیہ کا دورہ کر چکے ہیں
”الزاویة الھندیة“ (ہندی سرائے یا ہندی خانقاہ) نامی اس جگہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان سمیت کئی ممالک کے رہنما اس کا دورہ کرتے رہے ہیں۔ گاندھی اور نہرو سمیت بھارت کی ابتدائی قیادت فلسطینی کاز کی حامی رہی ہے۔ تاہم اب مودی سرکار فلسطین کے بجائے اسرائیل کی گود میں بیٹھی ہوئی ہے۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی ”معا نیوز“ کے مطابق بھارت القدس میں اسی ہندی سرائے کو اپنا سفارتخانہ بنانے کا خواہاں تھا، نریندر مودی نے اسرائیلی دورے سے قبل کہا تھا کہ ”ہمارے لئے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔“ ان کے اس بیان کے بعد فلسطینی عوام نے رملہ اور البیرہ شہر میں بھارتی قونصل خانے کے سامنے احتجاج کیا۔ جس کے بعد بھارتی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم تنازعے کے دو ریاستی حل کے موقف پر قائم ہیں۔ جب تک طرفین کسی بات پر متفق نہیں ہوتے، بھارت اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل نہیں کرے گا۔“
بابا فرید گنج شکر نے سفر فلسطین کے دوران یہاں قیام کیا تھا
بیت المقدس (یروشلم) میں سات ایکڑ پر محیط ایک جگہ ہے، جسے زاویہ یا کارنر کہا جاتا ہے۔جو گزشتہ آٹھ سو برس سے ہندوستان سے منسوب رہی ہے۔ یہاں ایک آستانہ بنا ہوا ہے، جس میں بابا گنج شکر نے مسجد اقصیٰ کی زیارت کے سفر میں قیام کیا تھا۔ بعد میں خلافت عثمانیہ نے یہ جگہ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کو دی تھی۔ 1200ءکے لگ بھگ جب صلاح الدین ایوبیؒ کی فوجوں نے صلیبیوں کو یروشلم سے نکال باہر کیا تو ہندوستان سے آئے ہوئے ایک درویش نے اس شہر میں قدم رکھا۔ اس درویش کا نام فرید الدین اور لقب ”گنج شکر“ تھا اور ان کا تعلق بھارت، پاکستان اور افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے مشہور چشتیہ سلسلے سے تھا۔ آج بھی ان تینوں ممالک میں ہزارہا لوگ اس صوفی بھائی چارے کا حصہ ہیں اور یہ سلسلہ چل رہا ہے۔
بابا فرید گنج شکر کی سوانح حیات لکھنے والے کہتے ہیں یہاں پہنچنے کے بعد بابا فرید گنج شکر اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ کے ارد گرد پتھرکے فرش پر جھاڑو لگاتے یا روزہ رکھ کر اس قدیم شہر کے اندرون میں واقع ایک غار کی خاموشی میں عبادت میں گزارتے تھے۔ ان کی پنجاب واپسی اور پھر سلسلہ چشتیہ کے سربراہ بننے کے برسوں بعد تک بھی ہندوستان سے حج کے ارادے سے جانے والے لوگ مکہ کے راستے میں بیت المقدس میں قیام کرتے رہے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس مقام پر نماز پڑھیں، جہاں بابا فریدؒ نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ سوئیں جہاں بابا فریدؒ سوئے تھے۔ دھیرے دھیرے بابا فرید کی یادوں سے منسلک جگہ پر آستانہ بن گیا اور ”ہندوستانی سرائے“ کے نام سے ایک چھوٹا سا مہمان خانہ بھی بن گیا، جہاں ہندوستانی حاجی قیام کرتے تھے۔
آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود بابا فرید گنج شکر سے منسوب تاریخی سرائے موجود
آٹھ صدیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ سرائے یہاں موجود ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں زمین کے چپے چپے پر ہر کوئی پوری شدت سے اپنا تاریخی حق جتاتا ہے، وہاں یہ جگہ اب بھی ایک ہندوستانی گھرانے کے ہاتھ میں ہے۔ اس سرائے کے موجودہ رکھوالے 86 سالہ محمد منیر انصاری جنگ عظیم دوم سے پہلے سے اس مقام پر رہ رہے ہیں اور وہ ان تاریخی دنوں کے گواہ ہیں جب فلسطین کی سرحد اس سرائے کے مرکزی دروازے تک محدود ہوگئی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے تمام رہائشی ہندوستانی تھے۔ لگتا تھا کہ میں ہندوستان میں ہی ہوں۔ جونہی آپ سرائے کے گیٹ سے اندر آتے تو آپ ”ریاست ہندوستان“ میں ہوتے۔
پھر جنگ عظیم کی وجہ سے یہاں حاجیوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا اور سرائے میں حاجیوں کے بجائے فوجی قیام کرنے لگے اور یہ جگہ ”انڈین فورتھ انفینٹری ڈویژن“ کے ان فوجیوں کیلئے مختص ہو گئی، جنہوں نے 1948ءمیں عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ کے آغاز پر فوج کی نوکری چھوڑ دی تھی۔ اس تاریخی مقام کو چھاﺅنی بنانے کے خلاف مولانا محمد علی جوہرؒ، حکیم اجمل خانؒ وغیرہ مسلم رہنماﺅں نے احتجاج کیا، مگر برطانیہ نے آدھا حصہ ہندوستانی مسلمانوں کو دیا، بقیہ حصے پر قبضہ برقرار رکھا۔ 1967ءکی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں گولے برساتی ہوئی شہر میں داخل ہوئیں تو سرائے کی عمارت بھی گولوں کی زد میں آ گئی اور چھت بھی گر گئی۔ یہ آستانہ ہندوستانی مسلمانوں کے ہاتھ کیسے آیا، یہ بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے۔
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے منیر حسین انصاری سرائے کے موجودہ متولی ہیں
1923ءمیں بیت المقدس کے مفتی اعظم الحاج امین الحسینیؒ نے مسجد اقصیٰ کی مرمت اور تعمیر نو کی غرض سے مالی مدد کی درخواست کے ساتھ ایک وفد ہندوستان روانہ کیا۔ ہندوستان پہنچنے پر وفد کی ملاقات تحریکِ خلافت کے رہنماوں سے ہو گئی، جو ان دنوں برطانوی سامراج کے خلاف تحریک چلا رہے تھے اور ایک عالمی اسلامی خلافت کے لیے کوشاں تھے۔ فلسطینی مہمانوں نے اپنے ہندوستانی میزبانوں کو سرائے کی حالتِ زار کے بارے میں بتایا اور ان سے پوچھا کہ آیا ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ کسی ہندوستانی مسلمان کو اس سرائے کی دیکھ بھال کے لیے بیت المقدس بھیج سکیں۔ اس درخواست کے جواب میں جو شخص 1924ءمیں یروشلم پہنچا، اس کا نام نذیر حسین انصاری تھا۔ وہ اترپردیش کے قصبے سہارنپور سے آئے تھے۔
اگلے 27 برسوں کے دوران نذیر حسین انصاری نے نہ صرف ہندوستانی سرائے کی مرمت اور تزئین کی، بلکہ اس خیال کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی کہ یروشلم اب بھی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ 1920ءاور 30ءکی دہائیوں میں شیخ نذیر کئی مرتبہ ہندوستان گئے اور مسلمانوں سے مزید مالی مدد کی درخواست کرتے رہے۔ جن مخیر مسلمانوں نے شیخ نذیر کی مدد کی، ان میں حید آباد کے نظام بھی شامل تھے، جن کی تصویر 1937ءمیں مشہور امریکی رسالے”ٹائم“ میگزین کے سرورق پر ”دنیا کا امیر ترین شخص“ کی سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ اب شیخ منیر انصاری اس آستانے کے متولی ہیں۔
بھارت سرائے کو اپنا سفارت خانہ بنانے کا خواہاں
آج سرائے میں ایک لائبریری، مسجد اور مہمانوں کے لیے کمرے بھی ہیں، جہاں کچھ ہندوستانی اب بھی آ کر ٹھہرتے ہیں۔ 2011ءمیں شیخ منیر حسین کو ”پراواسی بھارتیہ سمن“ ایوراڈ بھی ملا جو کہ بھارتی صدر کی جانب سے ملک کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دینے والے ہندوستانیوں کو دیا جاتا ہے۔ سرائے کی چھت پر شیخ منیر نے بھارت کا قومی پرچم لہرا رکھا ہے۔ اسی تاریخی سرائے کو بھارت اپنا سفارتخانہ بنانے کا خواہاں ہے۔