انسان کی زندگی سے موت تک کا سفر

ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اسے بلآ خر اسے موت سے دوچار ہونا پڑتا ہےیہی انساں کا مقدر ہے ۔نہ تو انسان اپنی مرضی سے اس دنیا میں آیا ہے اور نہ ہی اسے موت دینے سے پہلے اس کی رائے پوچھی جاتی ہے لیکن ایک چیز ہے زندگی اور موت کا درمیانی عرصہ اس پر انسان کو پوری قدرت دی گئی ہے اب وہ چاہے تو اپنے اعمال کی اصلاح کر کے انعمت علیھم لوگوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرالے یا پھر اعمال کو ضائع کرے اور غیر المغضوب علیھم لو گوں میں اپنا شمار کرالے اس کی اپنی سوچ اس کے اپنے نفس کی چاہت ہے اسے پورا اختیار حاصل ہے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ

وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا(7)فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا(8)

ترجمہ کنزالایمان: (اور جان کی قسم  اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایاپھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی)

تفسیر صراط الجنان: {وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا: اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جان کی اور اس کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا اور اسے کثیرقوتیں عطا فرمائیں  جیسے بولنے کی قوت،سننے کی قوت، دیکھنے کی قوت اور فکر، خیال ،علم ،فہم سب کچھ عطا فرمایا پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں  ڈالی اور اچھائی برائی،نیکی اور گناہ سے اسے باخبر کردیا اور نیک و بد کے بارے میں  بتادیا۔( خازن، الشّمس، تحت الآیۃ: ۷-۸، ۴ / ۳۸۲)

انسان کی زندگی اور موت کے بارے میں اقبال فر ماتے ہیں کہ

زندگی کیا ہے عناصر کی ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا

جب کوئی کام اختتام پذیر ہوتا ہے تو چیزیں واپس وہیں چلی جاتی ہیں کہ جہاں سے وہ  پہلی مرتبہ آئی تھیں  بیج سے درخت درخت سے پھل پھل سے پھر واپس بیج اور بیج پھر واپس اپنے اصل یعنی مٹی میں چلا جاتا ہے یہی قدرت کا بنایا ہوا ایک دائرہ ہے  جس کی بابند کائنات کی ہر شے ہے ۔

اسی طرح انسانی جسم چونکہ مٹی سے بنا ہے اس لئے مرنے کے بعد اسے مٹی کے حوالے کردیا جاتا ہے اور روح چونکہ اللہ کی طرف سے آئی ہے اس لیے مرنے کے بعد وہ واپس اللہ کی جانب چلی جاتی ہے کہ جہاں سے وہ پہلی مرتبہ آئی تھی ۔

انسان روح اور جسم کا مرکب ہے دراصل اس کے جسم میں روح کی موجودگی ہی زندگی کا اظہار ہے جب انسان پر موت طاری ہوتی ہے تو یہی روح اس کے جسم سے علیحدہ کرلی جاتی ہے بظاہر جسم ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے لیکن اب موت کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا کیونکہ روح اس جسم انسانی کا ساتھ چھوڑ چکی ہوتی ہے۔

زندگی اور موت کا درمیانی عر صہ جو انسان کو عطاء کیا گیا ہے بس اسی عرصے سے متعلق قیامت میں اس سے سوال کیا جائے گا یعنی جو چیز انسان کے بس میں نہیں شریعت نے اسے یعنی انسان کو اس کا مکلف بھی نہیں بنایا اے زندگی اور موت کی کشا کش میں سرگرداں انسان تو ان چیزوں کے پیچھے کیوں پڑا ہے جو تیری تباہی کا باعث ہیں۔

اور ان چیزوں کو تونے کیوں چھوڑ رکھا ہے جو کہ تیری نجات کا ذریعہ ہیں اے نادان انسان موت تجھ سے زندگی کی راحتیں اور عیاشیاں چھین لے گی موت کی تلخی اور کرواہٹ زندگی کی مٹھاس اور چاشنی کا  ذائقہ ہمیشہ کے لئے تجھے بھلا دے گی نہ دنیا میں آنا تیرے بس میں تھا اور نہ دنیا سے جانا تیرے بس میں ہے۔

اگر تیرے بس میں ہے تو یہی درمیانی عرصہ جو تجھے ملا ہے اور یہی تیری کامیابی وناکامی کا باعث ہے اگر زندگی سے موت تک کا یہ سفر یاد الہی میں گزرا تو قربت الہی تجھے نصیب ہوجائے گی اور اگر تیرا زندگی سے موت تک کا یہ سفر عیاشیوں بے اعتنائیوں اور فسق وفجور میں رہتے ہوئے گزرا تو پھر تجھے رحمت الہی اپنے سے دور کر دے گی۔

اے انسان تو ں تو وہ تھا جو قربت ربی سے آشنا تھا پھر تجھے ایک غلطی نے جنت سے نکال کر دنیا میں لا پھینکا جہاں تو زندگی اور موت کی کی کشمکش میں اپنے رات اور دن گزار رہا ہے اور اس زندگی کے دورانئے میں مزید گناہ بھی کئے جارہا ہے۔

کیا تیرا دل نہیں چاہتا کہ تو بھی اپنے اصلی گھر جنت کی طرف اس طرح لوٹے کہ جس طرح تو وہاں رہا کرتا تھا یعنی بیج کی طرح تو بھی واپس اپنی منزل پر جا پہنچے جہاں سے تو چلا تھا یہی کامیابی ہے بیج اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے اور اپنے پیچھے ہزاروں بیج اور درخت اپنی نشانی کے طور پر چھوڑ جاتا ہے بقول اقبال

مٹادے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے

جنت کی ہوائیں حسین باغات اور راحتیں تیری منتظر ہیں جن کی مثال اس فانی دنیا میں کہیں نہیں وہ نعمتیں اور راحتیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھا بس اے انسان تو دھوکے کی زندگی میں نہ پڑ اور جو عرصہ حیات تجھے ملا ہے اس میں اپنی زندگی کو سنوار لے کیونکہ موت تو بہر حال ہر ذی روح کو آنی ہے کل نفس ذائقتہ الموت پھر اس کے بعد حیات جادوانی ہوگی لہذادھوکے کی زندگی سے نکل قرآن کہتا ہے

كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ(185)

ترجمہ: کنزالعرفان: (ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے)

اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(16)وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىﭤ(17)اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰى(18)صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى(19)

ترجمہ: کنزالعرفان: (بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔بیشک یہ بات ضرور اگلے صحیفوں میں ہے۔ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں)

فطرت انسانی ہے کہ انسان دائمی فائدوں کو چھوڑ کر وقتی آسائشون کے ہیچھے لگا رہتا ہے بس اسے اپنے آج کی فکر ہے کل کا ذکر سن کر وہ پریشان نہیں ہونا چاہتا

نبضیں بھی برقرار ہیں سانس بھی چل رہی ہے مجھ میں

آج کا دن گزر جائے بس کل کی مجھے خبر نہیں

جبکہ قرآن کہتا ہے کہ دنیاوی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے انسان چونکہ خود فانی ہے اس لئے وہ فانی چیزوں سے دل لگاتا ہے ایک دانا کا قول ہے کہ دنیا کی زندگی کے لئے اتنی کوشش کر جتنا تجھے یہاں رہنا ہے اور آخرت یعنیٰ( موت )کے لئے اتنی کوشش کر جتنا تجھے وہاں رہنا ہے زندگی اور موت کے درمیان معلق یہ انسان اپنے سفلی اور نفسانی جذبات کی خاطر مال ومتاع جمع کرنے اور لہو ولعب اور عیاشیوں میں مصروف ہے ۔خبر نہیں کب موت آجائے اور اس کا یہ سامان زندگی یونہی پڑا رہ جائے شاعر کہتا ہے کہ

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان ہے سو برس کا پل کی خبر نہیں

اور ہر دل عزیز عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کہتے ہیں کہ

ٹک حرص وہوس کو چھوڑ میاں

مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر

کیا گوئی پلاسر بھارا

کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر

کیا آگ دھواں کیا انگارہ

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

انسان کی ساری زندگی اسی دنیا کو اکٹھا کرنے میں گزر جاتی ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ موت سامنے آکھڑی ہوتی ہے

اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ(1)حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَﭤ(2)

ترجمہ کنزالعرفان: (زیادہ مال جمع کرنے کی طلب نے تمہیں غافل کردیا ۔یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا)

یوں وہ انسان قبر میں جاپہنچتا ہے جو دنیا کی زندگی کا رسیا ہوا کرتا تھا اور موت سے بھاگتا تھا اچھے کپڑے اس کے جسم سے اتار لئے جاتے ہیں دیکھو یہ آج کہاں چلا جارہا ہے اس تو ہاتھ بھی خالی ہیں اس کا تو لباس بھی سلا ہوا نہیں ۔

یہ کہاں جارہا ہے؟

قبر میں ۔

وہاں کیا ہوگا ؟

اس سے سوال ہوگا ۔

کس سے متعلق؟

جو عرصہ دنیا میں گزارا اس سے متعلقَ۔

اس کے وارث کہاں ہیں ؟

وہ پیچھے آرہے ہیں ۔

اس کا مال کہاں ہے ؟

وہ پیچھے رہ گیا ۔

اسے کہاں لئے جارہے ہو ؟

اس کے اصلی مقام کی طرف یعنی دفنانے

وہ کیوں ؟

کیونکہ زندگی نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اسے موت آگئی

اب اسے دفنا دیں گے کیونکہ اس انسان کی زندگی کو موت کھا گئی

نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ

چلتے چلتے دیکھنا اک دن گول تیری ڈھل جاوے گی

اس بدھیا تیری مٹی پر نہ گھانس بھی چرنے آوے گی

دھی پوت جوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

یہ کھیپ جو تونے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

دنیاوی زندگی چار دن کی ہےاس میں انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہو سکتیں اور پھر موت بھی آنی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بقول شاعر

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top