Tuesday, November 19, 2024
HomeLatest"گوشئہ تنہائی ایک خوب صورت شعری مجموعہ

“گوشئہ تنہائی ایک خوب صورت شعری مجموعہ

گوشئہ تنہائی ایک خوب صورت شعری مجموعہ

امام شافعی رحمہ اللہ ایک فقیہ اور صاحب مذہب امام ہونے کے علاوہ ایک اچھے شاعر بھی تھے لیکن  شاعری کو بہ طور پیشہ، کل وقتی مشغلہ اور پہل ترجیح کے طور پر اپنانے کو معیوب سمجھتے تھے، چنانچہ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں

ولولا الشعر بالعلماء یزری

لکنت الیوم اشعر من لبید

اگر شعرو شاعری (میں انہماک) علماء کےلئے باعث عیب نہ ہوتا تو میں آج “لبید” سے بڑا شاعر ہوتا – اگر امام شافعی رحمہ اللہ شاعری کو اپنا مقصد اولی بنا لیتے تو آج ہم شاید انہیں شافعی مسلک کے امام کے بجائے ایک بڑے شاعر کے طور پر جانتے ممکن ہے وہ ” لبید ” جیسے لیجنڈ شاعر کے ہم پلہ ہوتے۔ “لبید ” دور جاہلیت میں شعر و ادب کا بہت بڑا نام تھا ان کی اضافی خصوصیت یہ تھی کہ دوسرے جاہلی شعراء کے مقابلے میں ان کی شاعری شرکیہ باتوں کی آلودگی سے پاک اور پاکیزہ خیالات کی عکاس ہوتی تھی بخاری کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ لبید کی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا

اصدق کلمۃ قالھا الشاعر کلمۃ لبید

الا کل شیء ما خلا اللہ باطل

و کل نعیم لا محالۃ زائل

” سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید کا یہ جملہ (مصرع) ہے

 آگاہ رہو! اللہ کے سوا ہر شے فنا کے گھاٹ اترنے والی ہے اور ہر نعمت آخر کار ختم ہونے والی ہے

 حضرت امام شافعی رحمہ اللہ والی بات استاذ محترم مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے اگر مفتی صاحب اردو شاعری کو اپنا کل وقتی مشغلہ بنا لیتے تو آج ان کا شمار بھی اردو زبان کے استاد شعراء میں ہوتا- بڑا شاعر بننے کےلئے جتنے ظاہری اسباب درکار ہوتے ہیں وہ سب آپ کو مہیا ہیں،

طبیعت میں فطری موزونیت ہے، صرف بارہ سال کی عمر میں شعر کہنے پر قدرت حاصل کر لی تھی جس ماحول میں پرورش پائی وہ مکمل ادبی تھا مرد تو مرد خاندان کی خواتین بھی ادب دوست اور شعر کہنے کی صلاحیت رکھتی تھیں اور شعر کہا کرتی تھیں۔ پھرعالم دین بھی بن گئے عروض و قوافی کی کتابیں پڑھیں بھی اور پڑھائیں بھی۔ ذہین و فطین بھی ، دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی بہرہ مند، ایسے شخص کےلئے ایک بڑا اور پیشہ ور شاعر بننا کیا مشکل ہے۔

ہم نے تو یہ بھی سنا ہےکہ ایک وقت جب مفتی صاحب کا شعرو شاعری کی طرف رجحان زیادہ ہونے لگا تو ان کے والد ماجد مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے ان کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی فرمائی بہت ممکن ہے اگر وہ شعر و شاعری کو اپنی صلاحیتوں کی مکمل جولان گاہ بناتے تو شاید آج اردو کو تو ایک بڑا شاعر نصیب  ہوتا لیکن اہل علم “تکملہ فتح الملھم” جیسی شاہکار، سیکڑوں علمی کتابوں، ہزاروں جدید مسائل میں عالم اسلام کی رہنمائی کرنے والے جید مفتی و فقیہ سے محروم رہتے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا رواں صدی ایک محقق اور مجتہد کو کھو دیتی

علمی مشاغل کی وجہ سے مفتی صاحب گو اپنے اندر کے شاعر کو دبا دینے میں تو کسی حد تک کامیاب رہے لیکن اسے پوری طرح کچل نہ سکےعلمی مشاغل ، تصنیف و تالیف، دعوت و ارشاد،درس و تدریس اور دیگر گونا گوں دینی مصروفیات کے باوجود فرصت کے لمحات میں شعر کہتے رہے اور بعض نجی محافل میں پر ترنم انداز میں اپنا کلام سنانے کا سلسلہ بھی  جاری رکھا زمانہ طالب علمی میں ہمیں بھی مفتی صاحب کا کلام ان کی زبانی سننے کے مواقع میسر آئے ہیں اللہ تعالی نے آپ کو خوب صورت ترنم سے بھی نواز رکھا ہے جب کلام شاعر بہ زبان شاعر ہو اور ساتھ خوش الحانی بھی ہو تو سماعت کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے جب کلام مفتی صاحب جیسی ہردل عزیز شخصیت کا ہو اور آہنگ بھی انہی کا ہو تو تصور کیجئے سماعتوں میں کیسا رس گھلے گا-

 حال ہی میں مفتی صاحب کی شاعری کا مجموعہ “گوشئہ تنہائی” چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے اور ادبی حلقے میں کافی مقبول ہو رہا ہے مفتی صاحب نے اس مجموعے کو اپنی  “تنہائی کی واردات” کا نام دیا ہے کتاب میں مفتی صاحب کے  کلام کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو آپ مختلف نجی محافل میں پڑھتے رہے ہیں یا جنید جمشید مرحوم سمیت مختلف نعت خوانوں کے خوب صورت آہنگ نے اسے عالم گیر بنا دیا ہے یہ حصہ مناجات اور حمدو نعت پر مشتمل ہے اس حصے میں وہ کلام بھی شامل ہے جو کتاب کی اشاعت کے ساتھ پہلی دفعہ قارئین کے سامنے آیا ہے مجموعے کا ایک بڑا حصہ تاثراتی نظموں پر مشتمل ہے جس میں مرثیے، سہرے وغیرہ شامل ہیں جبکہ ایک حصے میں غزلیں شامل کی گئی ہیں۔

اردو شاعری کے سب سے پہلے نقاد مولانا الطاف حسین حالی نے اردو غزل کی تنگ دامنی کاشکوہ کیا تھا اور اسے وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا ان کےمطابق اردو غزل میں صرف گل و بلبل، بادہ و ساغر ، جام و پیمانہ، محبوب کے کاکل و رخسار ، ہجر کی اذیتوں اور وصل کی شادکامیوں ہی کے تذکرے ہوتے ہیں ان قدیم شاعرانہ خیالات کی جگالی کے  بجائے شاعر کے دل پر گزرنے والی ہر کیفیت اور قلب کی ترجمانی کرنے والے ہر قسم کے خیالات کو غزل کے قالب میں ڈھالنا چاہیئے مفتی صاحب کی غزلوں میں آپ کو یہی ملتا ہے آپ نے غزل میں روایتی شاعرانہ جگالی کے بجائے دل کی  کیفیات اور پاکیزہ احساسات کو الفاظ کی مالا میں اس طرح پرو دیا ہے کہ ہر مصرع سے مقصدیت چھن چھن کر باہر آتی محسوس ہوتی ہے آپ کے بڑے بھائی محمد ذکی کیفی مرحوم کی غزلیں بھی اپنے اندر یہی رنگ لئے ہوئی ہیں –

 گوشئہ تنہائی 176 صفحات پر مشتمل ہے ٹائٹل بہت ہی دیدہ زیب ہے اور کاغذ بھی بہت اعلی معیار کا استعمال کیا گیا ہے- خود ایک اچھے شاعر و ادیب ہونے کے باوجود مفتی صاحب نے اپنے اس شعری مجموعے کی نطر ثانی اپنے بھتیجے اور عصر رواں کے صف اول کے شاعر سعود عثمانی سے کروائی ہے جس میں ہمارے لئے یہ سبق پنہاں ہے کہ  بڑے سے بڑے آدمی کے لئے بھی کسی صاحب فن سے استفادے کی  گنجائش موجود ہوتی ہے اور یہ طرز عمل بھی بڑوں کا بڑا پن شمار ہوتا ہے۔

آخر میں ہم قارئین کےلئےمجموعے سے بعض اشعار بہ طور نمونہ پیش کئے دیتے ہیں

 مناجات

الہی تیر چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں

سراپا فقر ہوں عجزو ندامت ساتھ لایا ہوں

 گنوا کر عمر ساری غفلت و عصیاں کی دلدل میں

سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کےانچل میں

 یہ آنکھیں خشک ہیں یا رب انہیں رونا نہیں آتا

سلگتے داغ ہیں دل میں جنہیں دھونا نہیں آتا

 یہ تیرا گھر ہے تیرے مہر کا دربار ہے مولا

سراپا قدس ہے اک مہبط انوار ہے مولا

 زبان غرق ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر

 خدایا رحم میری اس زبان بے زبانی پر

 مجھے زندگی میں یارب سر بندگی عطا کر

مرے دل کی بے حسی کو غم عاشقی عطا کر

ترے درد کی چمک ہو تری یاد کی کسک ہو

مرے دل کی دھڑکنوں کو نئی بے کلی عطا کر

بھری انجمن میں رہ کر نہ ہوں آشنا کسی سے

مجھے دوستوں کے جھرمٹ میں وہ بے کسی عطا کر

یارب مجھے دنیا میں جینے کا قرینہ دے

میرے دل ویراں کو الفت کا خزینہ دے

سیلاب معاصی میں طاعت کا سفینہ دے

ہستی کے اندھیروں کو انوار مدینہ دے

نعت کے کچھ نمونے

کون و مکاں کی رفعتیں آپ کے نقش پا کی دھول

شمس و قمر کے دائرے آپ کی راہ کا غبار

آپ کے دم سے دور کی خالق کائنات نے

روح زمیں کی تشنگی چشم فلک کا انتظار

اتنے درود آپ پر جتنی خدا کی نعمتیں

اتنے سلام آپ پر جن کا نہ ہو سکے شمار

حرم کی مقدس فضاوں میں گم ہوں

میں جنت کی ٹھنڈی ہواوں  میں گم ہوں

یہ زمزم کے چشمے یہ پیاسوں کے جمگھٹ

زمیں سے ابلتی شفاوں میں گم ہوں

ابھی شرح الفت کی منزل کہاں ہے؟

ابھی تو تقی ابتداوں میں گم ہوں

نظم کے نمونے

“مری کی شام” عنوان سے ایک شاہکار نظم مجموعے کا حصہ ہے یہ نظم مفتی صاحب کی قادرالکلامی اور سخن وری کا منہ بولتا ثبوت ہے نظم کا ہر ہر شعر فصاحت و بلاغت کا شہ پارہ معلوم ہوتاہے پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ الفاظ و تراکیب ، کنایات و استعارات مفتی صاحب کے سامنے ہاتھ باندھے ایسے ایستادہ ہیں کہ آپ جس کو جب اور جہاں چاہیں جڑ دیں اور مصرعوں کا تاج محل کھڑا دیں۔ لیجئے اس نظم کے کچھ اشعار سے حظ اٹھائیے

 مری کی شام، یہ شام طرب، یہ پہنائی

 یہ رنگ و نور کا مسکن،جہان رعنائی

 بلند و پست پہ سبزے کی مخملیں پوشاک

 دیار حسن میں پھولوں کی بزم آرائی

 یہ وادیوں میں گھٹاوں کےجمگھٹے رقصاں

فراز کوہ پہ بجلی کی مست انگڑائی

یہ دھوپ چھاوں کی چہلیں کھلی فضاوں میں

 یہ عطر بیز ہواوں کی کوہ پیمائی

شفق کے رنگ سے رخسار کوہ پر غازہ

 دھنک کے فیض سے وادی کا جسم چمپائی

یہ نرم نرم پھواروں کے رم جھمی نغمے

 یہ بوندیوں کے پیانو ،ہوا کی شہنائی

یہ سطح کوہ پہ فصل بہار کے ڈیرے

یہ رنگ و بو کے بسیرے،گلوں کی انگنائی

خود اپنے حسن کے جلووں میں کھو گئی وادی

یہ ہو چکا تو فضا نے شراب برسائی

یہ آسماں پہ بادل کے سرمئی استر

 یہ بیچ بیچ میں تاروں کی نرم ترپائی

 قدم قدم پہ مچلتے پرے حسینوں کے

 یہ کوہساروں پہ پھرتے غزال صحرائی

 یہ رنگ و روپ،یہ عشوے ،یہ شوخیاں یہ سنگھار

 گداز و نرم لبادے ، لباس سرمائی

 ہر ایک حسن ہے خود اپنے آپ پر نازاں

ہر اک جمال کے جلوے خود اپنے شیدائی

افق کے پار جاوں، جگمگاتے چاند تاروں میں

شفق کی سرخ وادی میں، سحر کے نور پاروں میں

جہاں انگڑائیاں لیتی ہے ہستی،ان بہاروں میں

امڈتے جوئباروں میں،چھلکتے آبشاروں میں

جہاں دوشیزہ کلیوں سے ہوائیں چھیڑ کرتی ہیں

جہاں تصویر ہستی میں بہاریں رنگ بھرتی ہیں

جہاں قوس قزح کے سائےمیں شامیں نکھرتی ہیں

جہاں لیلائے شب کی سانولی زلفیں سنورتی ہیں

مرثیوں سے چند اشعار

کیوں تیرہ و تاریک ہے نطروں میں جہاں آج

کیوں چھائے ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

کیا نخل تمنا کو مرے آگ لگی ہے

سینے سے جو رہ رہ کے یہ اٹھتا ہے دھواں آج

اب کون ہے دنیا میں جو پوچھے گا تقی کو

کس فکر میں ہے؟ کیوں نہیں آیا؟ ہے کہاں آج

(والد ماجد کی وفات پر)

کیا خبر تھی ہمیں یہ زہر بھی پینا ہوگا

آپ دنیا میں نہ ہوں گے ہمیں جینا ہوگا

آپ جب بزم تصور میں چلے آتے ہیں

کتنے خنجر ہیں جو سینے میں اتر جاتے ہیں

(بھائی ذکی کیفی کی وفات پر)

غزل کے کچھ نمونے

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا

متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا

ہماری بادہ نوشی پر فرشتے رشک کرتے ہیں

کسی کے سنگ در کو چومنا، مخمور ہوجانا

قدم ہیں راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟

یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا

یہاں تو سر سے پہلےدل کا سودا شرط ہے یارو!

کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بسا لینا کسی کو دل میں،دل ہی کا کلیجہ ہے

پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہوجانا

مجھ سے ہٹ کر دیکھیئے، مجھ کو بھلا کر دیکھئے

میری الفت کا فسوں کچھ دور جاکر دیکھئے

بس پس مژگاں ہی رکھیے آتش سیال غم

عمر بھر کی پونجیوں کو کیوں بہاکر دیکھیے

کتنے غنچے مضطرب ہیں دل میں کھلنے کےلئے

اپنے ہاتھوں سے ذرا نشتر لگاکر دیکھیے

ابر بہار اور برس،ہاں برس ابھی

پیاسے ہیں گلستاں میں بہت خارو خس ابھی

کیا بات کہہ رہی ہےمری آشیاں کی راکھ

مامون ہے بہار سے کنج قفس ابھی

صدیوں سے اس فضا میں مہک ہے بسی ہوئی

گذرا ہے اس گلی سےکوئی جیسے بس ابھی

افسردگی کا میل دلوں سے اتار کے

لو آگئے ہیں دن مری فصل بہار کے

راہیں نئی نئی ہیں،خیاباں نئے نئے

دل میں تصورات کے طوفاں نئے نئے

کلیاں نئی نئی، پھول نئے، گل ستاں نیا

ہستی نئی، زمیں نئی ،آسماں نیا

درد سے،یادوں ، اشکوں سے شناسائی ہے

کتنا آباد مرا گوشئہ تنہائی ہے

میرے پیچھے تو ہے ہرآن یہ خلقت کا ہجوم

اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے

مری خستگی پر کرم کی نظر ہو

خدارا مداوائے زخم جگر ہو

بکھر جائیں گیسو جو شانوں پہ ان کے

تو دنیا کی تنظیم زیر و زبر ہو

کار فرما زمانے میں غم ہے

غم ہی تقویم ابن آدم ہے

یہ جو نرگس پہ قطرہ لرزاں ہے

قلب مضطر ہے یاکہ شبنم ہے

چشم ساقی اگر نہیں مائل

پھر تو جنت بھی اک جہنم ہے

کیا انہیں ہو چلا ہے میرا خیال

درد کیوں دل میں آج کم کم ہے

آنسو نکل پڑے ہیں بہاروں کو دیکھ کر

راتیں گزار دی ہیں ستاروں کو دیکھ کر

طوفان پرست ہوں مجھے ساحل نہیں عزیز

کشتی ڈبو رہا ہوں کناروں کو دیکھ کر

حیات اک اضطراب جاوداں معلوم ہوتی ہے

فضا کتنی ہی دل کش ہو دھواں معلوم ہوتی ہے

محیط دل میں طوفان غم و آلام کے دھارے

تنفس کی ہے یہ رفتار یا چلتے ہوئے آرے

ستاروں کی خنک چھاوں سرور انگیز تھی پہلے

نسیم صبح کی ورزش ترنم ریز تھی پہلے

یکایک کیا ہوا مجھ سے یہ جنت چھن گئی یا رب

مرے دل کی مقدر سے مسرت چھن گئی یارب

بچوں کی جامع تربیت

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

  1. ماشاء اللہ بہت خوب ۔۔ اللہ کریم استاذ مکرم کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور آپ کا سایۂ عاطفت تادیر صحت ، سلامتی ، عافیت کے ساتھ امت مسلمہ کو عطا فرمائے آمین ❤️

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی