Wednesday, November 20, 2024
HomeColumnsگرمیوں کی چھٹیوں میں والدین اور طلباء کیا کریں ؟

گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین اور طلباء کیا کریں ؟

گرمیوں کی چھٹیاں:وطن عزیز کے باقی صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی پرائیویٹ و سرکاری اسکول، کالج اور یونیورسٹیز میں 6 جون سے گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی ہیں۔ عموماً یہ چھٹیاں ڈیڑھ سے دومہینے کی ہوتی ہیں۔ لیکن اس بار یہ ڈھائی ماہ کی ہیں۔

گرمیوں کی چھٹیاں

چھٹیوں کو سیر و تفریح اور موویز دیکھنے تک محدود نہ کیجئے

چھٹیوں کے یہ دن زیادہ تر طلباء و طالبات بس یوں ہی گزار دیتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے نہ تو خود شعوری طور پر کسی قسم کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی والدین ان کے مستقبل کے حوالے سے اس اہم ترین ڈویلپمنٹ میں کوئی دلچسپی لیتے ہیں۔ والدین ہوں یا طلباء بہت زیادہ ہوا تو کہیں سیر و تفریح کے لیے چلے گئے، موویز دیکھ لیں یا پھر سارا دن نیٹ پر سرفنگ کرتے ہوئے گزار دئیے جاتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو چھٹیوں کے ان بیش قیمتی اوقات کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے والدین کو سنجیدہ ہونا پڑے گا اور بچوں کی چھٹیوں کو فائدہ مند بنانے کے لیے مکمل پلاننگ کرنی پڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: موسم گرما کی تعطیلات کو کیسے کارآمد بنائیں؟

طالب علمی کا سہانا دور اور تعطیلات کی خوشیاں

وہ دن بھی کیا دن تھے جب ہم بھی سکول کے طالب علم تھے۔ مارچ اور اپریل میں نیا تعلیمی سال شروع ہونے کے ایک آدھ ماہ کے بعد جیسے ہی جون کی آمد ہوتی، ہم بچوں کے دل خوشیوں سے بھرنے لگتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ اسکول انتظامیہ چھٹیوں کا سلسلہ 8، 10 جون کے بعد شروع کرتی تو ہمیں یہ دن خاصے بھاری معلوم ہوتے اور ہم اندر ہی اندر کڑھتے کہ آخر کیوں ہماری 2 ماہ کی تعطیلات پر یہ 10، 12 دن کا نقب لگایا جا رہا ہے لیکن مرتے کیا نہ کرتے، سہنا ہی پڑتا تھا۔ ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔
میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ مئی کا اختتام ہونے جا رہا ہے اور استاد محترم ملک الیاس صاحب نے ایک خبر سنا کر ہمارے سارے ارمان خاک میں ملا دیے کہ گرمیوں کی تعطیلات اب یکم جون کی بجائے 15 جون سے ہوں گی۔ یہ پندرہ دن جو گزرے مجھے آج بھی یاد ہے کس طرح مر مر کر صبح اٹھتے تھے اور محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتاؤں کو کوستے ہوئے سکول آتے تھے۔

گرمیوں کی چھٹیاں

طلباء کے لئے اپنی صلاحیت کو نکھارنے کا بہترین موقع

ملک صاحب نے کبھی بھی کلاس مس نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد آج پاکستان اور بیرون ممالک ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور ان کا کوئی بھی شاگرد زندگی کے میدان میں ناکام نہیں ہے۔ سب کے سب اس مشکل دور کا بڑی ہمت سے مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کے زیادہ تر شاگرد بر سر روزگار ہیں۔ انہوں نے ان پندرہ دنوں کو غنیمت جانا اور سٹڈی ٹائم ٹیبل میں مزید سختی کر دی تھی اور ہم پڑھنے پر مجبور تھے اور کرتے بھی کیا سوائے انتظار کے؟ آخر وہ دن آ ہی گیا جب گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان ہوا اور پھر ہمارے استاد محترم ملک محمد الیاس صاحب نے ایک نصیحت کی کہ ان چھٹیوں کو ضائع نہ کرنا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر آنا، اس قیمتی ترین وقت کو یوں ہی کھیل کود میں برباد نہ کر دینا اور ہم نے ایسے ایسے وعدے کیے جیسے ان دو ماہ میں افلاطون بن کر آئیں گے۔

پھر خدا خدا کرکے گرمیوں کی ان چھٹیوں کا آغاز ہوتا تھا، تب وقت کی چال بہت دھیمی دھیمی سی تھی، ہم دوپہر کے وقت اپنے دادا کے آم کے باغ کی طرف نکل جاتے اور پھر خوب موج مستی ہوتی نہ فکر تھی اور نہ غم روزگار تھا فقط فرصت ہی فرصت تھی اور ہم تھے۔ اسکول کے دنوں میں جو وقت بڑی تکلیف سے گزرتا تھا اب ہم بچوں کے لیے یکایک فرصت کا پُرسکون وقت بہت طویل اور پرلطف ہوجاتا تھا، وہ گرمیوں کی سُہانی دوپہریں کس قدر شیریں اور خمار انگیز محسوس ہوتی تھیں، آج ہم فقط اس کا تصور ہی کرسکتے ہیں۔

گرمیوں کی چھٹیاں

یہ بھی پڑھئیے: ترکی میں طلباء کے لئے قابل تقلید تربیتی کورسز

چھٹیوں کے دوران قرآن پڑھانے والے استاذ کلاس کی ٹائمنگ بڑھا دیتے

اسکول کی چھٹیوں میں ہمارے سارے معمولات بدل جاتے تھے، ہمیں قرآن پاک پڑھانے والے مولانا مظہر عباس صاحب ہماری اسکول کی چھٹیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ساڑھے 12 بجے چھٹی دینے کے بجائے ڈیڑھ، ڈیڑھ، 2، 2 بجے تک بٹھا کر رکھتے اور کبھی کبھی تو سہ پہر کے 3 بھی بج جاتے۔ وہ وقت بھی عجیب ہوتا، کاٹے نہ کٹتا تھا۔ اور اب ہم مولانا صاحب کو دل ہی دل میں کوستے۔

گرمیوں کی چھٹیاں

تعطیلات کے دوران شام کا وقت کھیل کود کے لئے

بہرحال ہم گھر آکر کھانے وانے سے نمٹ کر کچھ آرام کرتے اور پھر معمول کے وقت 6 بجے کے بجائے 4 بجے ہی امجد بھائی کے پاس ٹیوشن چلے جایا کرتے اور یوں ہمیں 6 بجے تک چھٹی مل جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہمارے پاس شام کا سارا وقت ہمارے کھیل کود کے لیے موجود ہے۔ ورنہ عام دنوں میں ہمیں تعطیل کے سوا ذرا بھی فرصت میسر نہیں ہوتی تھی۔ پھر اگر مغرب کے بعد بھی دل نہیں بھرا تو اب انہی گلیوں میں چھپن چھپائی، چور چور، پکڑم ساتھی، پکڑم پکڑائی، چور پولیس اور برف پانی سے لے کر دال کچی پکی، باندر کلہ، وانجھی، کوڈی تک کے مناظر دیکھتے جائیے۔ اس کھیل کود میں حسب منشا پھیری والوں سے پاپ کورن، قلفی، شربت، گولے گنڈے، مکئی، بھٹے اور شکر قندی وغیرہ بھی کھاتے جاتے تھے۔ بہت ہی خوآب ناک وقت تھا یہ ہماری زندگی میں۔
یوں تو یہ ہمارے گاؤں میں کم وبیش ہر شام ہی کے مناظر ہوتے تھے، لیکن ہمارے اسکول کی ان چھٹیوں میں گویا ان تمام سرگرمیوں کو ایک عروج حاصل ہوجاتا تھا کہ ایک ساتھ سبھی بچے فارغ ہیں۔ اگر ان چھٹیوں میں میل جول اور گھومنے پھرنے کے پروگراموں کے ساتھ ہفتہ وار نانی کے ہاں جانے کے اہتمام کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی ۔

نانی اماں جس کو پیار سے ہم میٹھی اماں بولتے تھے ایک نیک اور کم گو خاتون تھیں۔ ان کے گھر جاتے تو ہم بھی ہر ہفتے تھے، لیکن ان 2 مہینوں کی چھٹیوں میں یہ ہفتہ وار روانگی سرِ دوپہر ہی ہوجایا کرتی تھی۔ بچپن کی وہ چھٹیوں کے دن بھی کیسی آزادی کے دن تھے۔ والدین کی روک ٹوک بھی اس عرصے کے لیے کچھ مؤخر سی رہتی، اگر روک ٹوک ہوتی بھی تو زیادہ خاطر میں نہ لاتے اور اپنی مرضی کرتے۔

اس دوران ہماری مستی کا یہ عالم تھا کہ پڑھائی لکھائی کے کام بھی ٹال رکھے جاتے، اسکول کی چھٹیوں کا کام چیک تو ہوتا نہیں تھا، اس لیے اکثر اسے نظرانداز کردیتے، بچپن کی بے فکری بھی کیا خوب ہوتی تھی، کوئی مسئلہ اور کوئی پریشانی ہونا تو درکنار، ان کا ذرا سا شائبہ تک بھی نہیں ہوتا تھا۔ گویا یہ چھٹیاں کسی عید کی طرح ہوا کرتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چھٹیاں ختم ہونے کے ساتھ ہی ذہن میں ایک خفیف سی پریشانی مستقل رہنے لگتی کہ کہیں اسکول کھلنے کے بعد اس کام کی پوچھ تاچھ ہوگئی تو کیا ہوگا؟

گرمیوں کی چھٹیاں

پرانے دور میں چھٹیوں کی سرگرمیاں اور آج کے تقاضے

ان چھٹیوں میں مختلف کورسز کرنے کا سلسلہ بھی رہتا، کوئی ٹائپنگ سیکھتا، کوئی لینگویج کورس تو کوئی کمپیوٹر کورس میں مہارت کے لیے جستجو کرتا۔ بچیوں کا زیادہ زور سینے پرونے، قریشیہ اور مختلف قسم کی دستکاریوں میں ہوتا تھا۔ اب یہ وہ وقت نہیں رہا بلکہ یہ 2023 ہے اب بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹائم ٹیبل ترتیب دیا جائے۔ تعلیم کے جس شعبے میں بچہ کمزور ہو اسے بہتر کرنے کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں کا سہارا لیا جائے۔ کتاب سے بچوں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے میگزین اور کہانیوں کی کتابیں فراہم کریں۔

بچوں کو اسلامی تاریخ پر دستاویزی موویز دکھائیں ، انہیں سیرو تفریح کرائیں

اسلامی تاریخی موضوعات پر بننے والی ڈاکیومینٹری اور ڈرامے بچوں میں دین کے حوالے سے دلچسپی پیدا کر سکتے ہیں۔ تاریخی اور تفریحی مقامات کی سیروسیاحت سے بچوں کو نئے انداز میں بہت سی نئی باتیں سیکھنے کا موقع دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کی دلچسپ سائنسی ایجادات

تعطیلات شروع ہونے سے پہلے تمام سرگرمیوں کا ٹائم ٹیبل بنائیں

بہت سارے طلباء و طالبات چھٹیاں شروع ہونے سے قبل چھٹیوں کے منصوبے بناتے ہیں لیکن چھٹیاں ختم ہونے کے بعد وہ کفِ افسوس ملتے ہیں کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں، ساری چھٹیاں یوں ہی گزر گئیں۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو، اس کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ڈائری یا نوٹ بک میں چھٹیوں میں انجام دینے والے کاموں کی ایک فہرست بنالیجیے۔
مثلاً فلاں فلاں رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ اسکول، کالج کے نامکمل کاموں کو انجام دینا ہے۔ریڈنگ روم موجود ہے تو ٹھیک ہے نہیں تو ایک کمرہ مختص کر کے روم کی اچھے سے صفائی کرنی ہے۔کتابیں رکھنے کے لیے شیلف بنوانا ہے وغیرہ۔ اس فہرست کے جو کام مکمل ہوتے جائیں ان پر نشان لگاتے جائیں۔ اس طرح آپ اپنی چھٹیوں کے اوقات کو منظم طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔

گرمیوں کی چھٹیاں

چھٹیوں میں بچوں کو آن لائن کورسز اور مختلف شارٹ کورسز کرائیں

کمپیوٹر اور دیگر جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے آن لائن کورسز کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
بچوں کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کراٹے، تیراکی وغیرہ کے شارٹ کورسز کرائے جا سکتے ہیں۔

اگر آپ نے اپنی چھٹیوں کا استعمال منصوبہ بند طریقے سے کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو یہ چھٹیاں آپ کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہو سکتی ہیں۔ تو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور وقت آپ کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ جائے آج ہی طے کیجیے کہ آپ اپنی گرمی کی چھٹیاں کس طرح گزاریں گے۔

گرمیوں کی چھٹیاں

والدین کے کرنے کا کام

والدین کا فرض بنتا ہے ان قیمتی دنوں کو بچوں کے لیے سود مند بنایا جائے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔ چین، بھارت ہو یا ایران ہمارے تمام ہمسائے اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ان کی ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی تربیت کر رہے ہیں اور آج یہ ممالک ترقی کی دوڑ میں ہم سے کافی آگے نکل چکے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل یعنی نئی نسل کی فکر کر رہے ہیں۔

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی