Thursday, November 21, 2024
HomeHealth & Nutritionکیا کھیل سے بچے سیکھتے ہیں؟

کیا کھیل سے بچے سیکھتے ہیں؟

کیا کھیل سے بچے سیکھتے ہیں؟

پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب

کھیلو گے کودو گے بنو گے خراب

    کیا کھیل سے بچوں کا سیکھنا ممکن ہے؟ یقیناً آپ نے بھی بچپن میں یہ شعر اپنے بڑوں سے سن رکھا ہوگا۔  اس شعر سنانے کا مقصد یہ ہوتا کہ بچوں میں “پڑھائی سے محبت” اور کھیل سے نفرت” پیدا ہو۔ مگر ہوا یوں کہ کسی بھی دور میں بچے کھیل کود کو فراموش نہ کر سکے۔ اور کھیل کے معاملے میں ان کا شوق وجنون بڑھتا چلا گیا۔

       ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ کھیل بچوں کا سیکھنا ممکن نہیں بلکہ کھیل توبچوں کے بگاڑ کا باعث ہیں۔ ماہرین کے مطابق جہاں پڑھائی کی انسانی شخصیت کی تعمیر وترقی میں اہمیت ہے، وہیں کھیلوں کے اپنے کئی فوائد ہیں۔  بلکہ زندگی کی کئی اہم ترین باتیں، مہارتیں ایسی ہیں، جنھیں بچے پڑھائی سے نہیں بلکہ کھیل کے دوران سیکھتے ہیں۔ اسی لیے نہ صرف اسکول بلکہ اب تو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی اسپورٹس کے کوچز کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اداروں میں تو ہر کھیل کے لیے علیحدہ سے اسپیشلسٹ کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

       دوسری جانب والدین کے خیال میں بچوں  کا کھیل کود غیر ضروری اور وقت کے ضیاع کا باعث ہے۔ اس سے بچے خراب اور پڑھائی سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ بات اس تناظر میں تو درست ہے کہ کھیل میں بے اعتدالی کے باعث بچوں کا ہر وقت کھیلنا اور دوسرے کاموں سے جی چرانے لگتے ہیں ۔لیکن فی نفسہ کھیل اپنی جگہ پر اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ ایک صحت مند انسان کے لیے ورزش۔ درحقیقت کھیل بچوں کی فطری خواہش اور بنیادی حق ہے۔ اس سلسلے میں بچوں پر روک ٹوک کرنا ظلم کے مترادف ہے۔

      آئیے! ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کھیل  بچے کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اور اس کے ذریعے سے بچے کیا کچھ سیکھتے ہیں:

توانائی کا بہتر استعمال

         بچوں میں بھرپور توانائی اور تحریک کا مادہ پایا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان کے لیے توانائی کے مثبت اخراج کا سب سے اہم ذریعہ کھیل ہی ہے۔ بچے کی فطرت ہے کہ وہ نچلا کبھی نہیں بیٹھ سکتا۔ وہ بچہ ہی کیا جو شوخ، اچھل کود کرنے والا نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر اسے اپنی توانائی کو خرچ کرنے کا مناسب موقع  نہیں ملے گا۔  تو وہ توانائی کسی نامناسب مقام پر غلط استعمال ہو کر لا محالہ توڑ پھوڑ، لڑائی اور دیگر  نقصانات کا باعث بنے گی۔ کھیل کے دوران جو حرکت، بھاگ دوڑ ہوتی ہے وہ اس توانائی کے استعمال کا بہترین ذریعہ ہے۔

 کھیل اورنظم وضبط

        نظم وضبط (Discipline) ہر بچے کو بڑا بنانے، انسانی شخصیت کو نکھارنے اور مضبوط بنیادوں پر پروان چڑھانے میں انتہائی مطلوب ہوتا ہے۔ جو اس کی زندگی کے تمام مراحل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ ڈسپلن بچے کھیل میں اصولوں کی پابندی کے ذریعے سے سیکھتے ہیں۔

قوانین کا احترام:

        کھیل کے دوران ہی بچے اصول و ضوابط کی پاسداری کا اہتمام کر کے قوانین کا احترام سیکھتے ہیں اور دوسرے بچے بھی بچوں کو  یاد دہانی اور تاکید کرتے ہیں، جب کہ خلاف ورزی پر غصے اور احتجاج کا مظاہرہ کر کے دوسروں کو ماننے پر مجبور کرتے ہیں اس طرح بچوں میں کھیل کود کے ذریعے قوانین کو سمجھنے اور ان کا احترام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے

 کیا کھیل سے صحت حاصل ہوجاتی ہے؟

         بھاگ دوڑ، اچھل کود کے ذریعے بچوں کے جسم،  پٹھوں اور ہڈیوں کی بہترین نشونما ہوتی ہے۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ کھیل میں حصہ لینے والے بچے دیگر بچوں کے مقابلے میں قدرے چست، پھرتیلے اور متحرک ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ بچے جو کھیل سے دور یا موبائل گیم کے رسیا ہوتے ہیں،  ان میں سستی، کام  چوری، موٹاپا اور دیگر امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔

تخلیقیت وتعمیریت

         کاغذ، مٹی، پلاسٹک وغیرہ کے کھلونوں کو بچے اپنی منشا کے مطابق جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں ۔جس کے نتیجے میں وہ چیزوں کی اشکال بنانے کے ساتھ بسا اوقات نئی چیز کو بھی وجود دیتے ہیں۔  بچے اپنے کھلونوں کے خراب ہو جانے کی صورت میں وہ اپنے تئیں بنانے اور مرمت کرنے کی کوشش کر کے اسی طرح کھیل کود سے بچےسیکھتے ہیں اور  اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔

صبر اور انتظار

       کھیل کے دوران بچے اپنی باری کا انتظار کرتے اور دوسروں کو موقع فراہم کر کے صبر و برداشت اور انتظار کرنا سیکھتے ہیں۔ یہ چیز ان کی زندگی میں ہلچل کے بجائے تحمل اور اطمینان کا باعث ہوتی ہے۔

 کھیل سے ٹیم ورک

        اجتماعی کھیل کے ذریعے بچے مطلوبہ ہدف کو مل کر حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ جس میں وہ باہم تعاون، مدد اور خیر خواہی سیکھتے ہیں۔

دوست بنانا

        ٹیم والے کھیلوں میں بچے نئے بچوں سے میل جول کرتے اور انھی میں سے کچھ کو دوست بھی بناتے ہیں۔

پڑھیے۔۔۔ جامع تربیت کی آٹھ بنیادیں

کوشش وجدوجہد

      کھیل کے دوران آگے بڑھنے کی دوڑ میں بچے خوب محنت اور مشق کرنا سیکھتے ہیں ،جو ان میں محنت اور ہمت کا بیج بوتی ہے۔ پھر جب وہ اپنے مطلوبہ ہدف کو حاصل کر لیتے ہیں ۔تو وہ ان کی خوشی کا باعث ہو کر انھیں تقویت دیتی ہے۔ اور حاصل نہ ہونے کی صورت میں مزید کوشش کا عزم کرتے ہیں۔

جرات، ہمت و حوصلہ

       مقابلے اور مسابقت والے کھیلوں سے بچوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور جرات پیدا ہوتی ہے۔ جو جیت کی صورت میں حوصلہ بڑھاتی اور ہار کی صورت میں اگلی مرتبہ عزم کرنے اور ہمت دکھا کر کمربستہ ہونے کا درس دیتی ہے۔

حوصلہ افزائی

     ٹیم ورک والے اجتماعی کھیل کے ذریعے بچے خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو داد دیتے اور دوسروں سے وصول کرنا سیکھتے ہیں۔ جو ان میں اگلی کامیابی کے لیے گویا روح پھونکنے کا کام کرتی ہے۔

لیڈرشپ

کھیلوں سے لائف اسکلز سیکھنا

     ٹیم ورک والے کھیل کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو انفرادی صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ اس سلسلے میں بچے خود ہی میں سے کسی کو لیڈر، کپتان بنا کر سب اس کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ لیڈر وقت کی پابندی، حکمت، پلاننگ، کمیونیکیشن، فیصلہ سازی سے گویا پوری ٹیم کو چلانے کی سعی کرتا ہے۔ جس کے باعث اس کی لیڈرشپ کی صفت پروان چڑھتی ہے۔اوردوسرے بچے اسے دیکھ کر سیکھتے ہیں

        یہاں اس بات کا خیال رکھنا بہت اہم ہے کہ کھیل کے یہ تمام فوائد اس صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں ،جب بچوں کی اس حوالے سے پہلے ذہن سازی کی گئی ہو۔ اور انھیں کھیل کے بنیادی آداب سے روشناس کروایا گیا ہو۔ پھر یہ بھی نہایت ضروری امر ہے کہ وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلیں۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں سے اسکول کے کام کی طرح کھیل کے متعلق بھی پابندی سے ان سے فیڈبیک لیں۔ پھر جہاں اصلاح و رہنمائی کی ضرورت ہو وہاں ان کی مدد کریں۔ اگر ان امور کا خیال نہ رکھا جائے تو کھیل فوائد کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ جیسا کہ عموما کھیلوں میں ٹکراؤ ہونا معمول کی بات ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ نہ تو کھیل کے معاملے میں بچوں پر بالکل پابندی عائد کرنی چاہیے۔ کہ ان کی صلاحیتیں ابھرنے سے قبل ہی دب جائیں۔ اور نہ ہی انھیں اس معاملے میں بالکل آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔ اصول یہ ہے کہ کھیلوں کے بارے میں اعتدال  سے کام لینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھئے۔ بچوں میں پڑھائی کا شوق کیسے پیداکریں؟

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی