کتاب تحفہ والدین ضرور پڑھیےلیکن کیوں؟
ڈاکٹر محمدیونس
بچوں کی معیاری تعلیم وتربیت کا عمل کوئی آسان کام نہیں ۔ جو بھی اس اہم فریضے کی انجام دہی کی کوشش کرتا ہے۔ یقینااسے صبر آزما مراحل سے گزرناتو پڑتا ہے۔ لیکن خوش قسمت لوگ وہ ہیں جو اس مشکل کا م کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی برتتے ہیں۔ اور نہ کبھی مایوسی کا اظہارکرتے ہیں۔
کیونکہ صبر آزما ہونے کے باوجود اس کام کا پھل بہت میٹھا ہوتاہے۔ جو دنیا وآخرت میں نیک نامی اور راحت وسکون کی شکل میں ملتا ہے۔ موجودہ دور میں سائنس وٹیکنالوجی نے جہاں زندگی میں بے شمار آسانیاں پیداکیں۔ وہیں ایک کام ایسا بھی ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور نے اس میں بہت زیادہ مشکلات پید ا کی ہیں۔ اور وہ کام ہے اولاد کی درست تعلیم وتربیت ۔
میں طویل عرصے سے تعلیم وتربیت کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ میری نظر میں اس حوالے سے بے شمار کیس اسٹڈیز ہیں۔ اپنے ان مشاہدات کو سامنے رکھ کر جب دیکھتا ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ کہ وقت گزرنے کے ساتھ بچوں کی تعلیم وتربیت کا عمل مزید مشکل تر ہوتا جارہاہے۔ جس کی دو وجوہات میری نظر میں بنیادی ہیں ۔
بچوں کو نماز کی ترغیب کسیے دیں
پہلی وجہ۔
تربیت کے مشکل ہونے کی پہلی وجہ ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کی شدید مداخلت ہے۔ اورپھر اس ٹیکنالوجی کے ذریعے آنے والی مغربی تہذیب، طرزحیات اور مغربی اقدار ہیں ۔ جنہوں نے ہماری خاندانی زندگی اور لائف اسٹائل پرگہرے اثرات مرتب کیے ۔مغربی تہذیب کے تین اثرات نے بنیادی طورپر ہماری نفسیات کو شدیدطور پر متاثرکیا ہے۔ جومندرجہ ذیل ہیں۔
۔ آزادی کی خواہش
۔ بے جا سہولت پسندی
۔ خواہشات کی تسکین کا بڑھتاہوا رجحان
یہ تین وہ بنیادی عناصر ہیں، جنہوں نے ہماری سوچوں اور رویوں کو بہت حد تک بدل کررکھ دیا ہے ۔ اب انسان وہی ہیں لیکن ان کے رویے اور انداز بدل گئے ہیں۔ اسلامی تہذیب میں ہرچیز اور انسان کےہررویے کے لئے کچھ حدودمقرر ہیں ۔ اور بعض پر پابندیاں بھی عائد ہیں۔ دین کی طرف سے عائد کردہ حدود کو بچوں کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بنانا تربیت کا اہم حصہ ہے۔
لیکن بدقسمتی سے مغربی تہذیب نے ہرنفسانی خواہش کو باقاعدہ قدر کی شکل دے کراس کی نہ صرف ترویج کی۔ بلکہ میڈیا ،سیاسی اثرورسوخ او ر دھونس کے ذریعے مادرپدر آزادی اور لامحدود خواہش پرستی کے رجحان کو دنیا میں فروغ دیا۔ چنانچہ مغربی تہذیب کے یہ اثرات آج ہماری نسل اورہمارے خاندانی ومعاشرتی نظام میں داخل ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسلامی اقدار کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت کا عمل مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
دوسری وجہ۔
والدین، اساتذہ اور ہمارے معاشرے اجتماعی شعور کا مغربی اقدار کے ان چیلنجز کو سنجیدگی سے نہ لینا اور اس بات پر مصر رہنا ہے۔ کہ دنیا کے حالات اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں جیسی بھی ہوں۔ یہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم اپنا روایتی انداز تعلیم وتربیت نہیں بدلیں گے۔
ہم نے اپنے ماں باپ اور معاشرے سےتعلیم وتربیت کے جوطور طریقے سیکھے ہیں۔ وہی ہمارے لئے کافی ہیں۔ اور انہی کو ہم سینے سے لگاکر رکھیں گے۔ حالانکہ دنیا کے طرز تمدن میں تبدیلی اور چائیلڈ سائیکالوجی میں ترقی کی بدولت بچوں کی تعلیم وتربیت کے انداز میں بھی زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
اگر والدین اور اساتذہ تربیت اولاد کے اسلامی مآخذ اور دورحاضر میں بچوں کی تعلیم وتربیت کے بدلتے ہوئے اندازسے باخبر رہتے۔ بچوں کی تربیت کے میدان میں ہونے والی ان تحقیقات سے استفادہ کرتے اور ان کو سنجیدگی سے اپنا لیتے۔ تو شاید آج تعلیم وتربیت کا عمل کافی مختلف ہوتا۔
بہرحال دیرآیددرست آید کی مثل اب والدین اور اساتذہ کو ان حالات کا ادراک ہونے لگاہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور ان جدید ریسرچز کو اپنانے کا رجحان اب والدین میں کافی حد تک بڑھتا جارہاہے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم اور بچوں کی تربیت
والدین مربی بھی استاد بھی
محترم قارئین ! یہاں دوباتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے فکرمند ہونے سے پہلے والدین کوخود اپنے بارے میں فکر مند ی کی زیادہ ضرورت ہے ۔ کیونکہ والدین اپنے بچوں کے لئے مربی ہونے کے ساتھ ابتدائی استادبھی ہوتے ہیں ۔ بچے اپنے والدین سے ہی ہر اچھی اور بری عادات لے کر انہیں اختیار کرلیتے ہیں۔ جوبعد میں ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتی ہیں۔
اگر والدین اپنی سوچ وفکراورطرزعمل کو بہتر بنائیں۔ اور بچوں کو گھر کے ماحول میں صحت مند عادتوں اور متوازن رویوں کا نمونہ دکھلائیں گے۔ تو انشااللہ بچوں کی تربیت کی حالت بہت بہتر ہوتی جائے گی۔ ورنہ گھر کی غلط تربیت وہ سنگ بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔ جس پر فارسی شعرکا مصرع ؔ
تاثریامیرود دیوارکج” صادق آئے گا۔”
تربیت کے لئے جامع اپروچ کی ضرورت
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ والدین کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے جامع اپروچ اپنانا ہوگا۔ یعنی ایسا اپروچ کہ جس میں جامع تربیت اولاد کے تمام پہلووں پرباقاعدہ حکمت عملی کے تحت کام کر نا شامل ہو۔ اور اس حکمت عملی کی بنیاد علم و تحقیق، بچوں کی نفسیات اور رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ پر رکھی گئی ہو۔ اس کے برعکس اگر والدین نے خدانخواستہ وہی پرانا روایتی انداز تربیت اپنا کر بچے کے کسی ایک پہلو کو بہتربنانے کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے پہلووں کو نظر انداز کیا۔ تو بچوں کی جامع اور معیاری تربیت ممکن نہ ہوسکے گی۔
کتاب تحفہ والدین میں ہم نےجامع تربیت اولاد کے تمام پہلووں پرتفصیل سے بات کی ہے۔ اور ہر پہلو کو اپنانے کے لئے واضح حکمت عملی پربھی بات کی ہے ۔ تاکہ پہلے والدین اور اساتذہ کو بچوں کی تربیت کے لئے تیار کیا جاسکے۔ اس مطلوبہ تیاری کا پورا طریقہ ہم نے ابتدائی دو ابواب میں والدین، مربی اور اساتذہ کے لئے ذکر کیا ہے۔
جبکہ تیسرے باب میں ہم نے بچوں کی جامع شخصیت کی تعمیر کے حوالے سے پوراماڈل پیش کیا ہے۔ جس میں بچوں کی تربیت کے پانچ ایریاز اور تعمیرشخصیت کے تین اہم ستون بیان کیے گئے ہیں۔ چوتھے باب میں ہم نے ٹین ایجر بچوں کے مسائل کا حل بھی تفصیل سے ذکرکیا ہے۔امید ہے کہ بچوں کی جامع تربیت اور تعمیرشخصیت کے حوالے سےیہ کتاب انشااللہ مفید” تحفہ ” ثابت ہوگی۔