کامیابی میں سوچ ، رویوں اور عادتوں کا کردار
(ڈاکٹرمحمدیونس خالد کی زیرطبع کتاب “پوری شخصیت کی تعمیر” سے ماخوذ)
سوچ انسانی دماغ کی پیداوار ہوتی ہے جودماغی نیورونز کے باہمی تعامل یا کسی رونما ہونے والے خارجی واقعے کا مشاہدہ کرنے سے انسانی دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔یعنی انسانی دماغ سوچوں کا کھیت ہوتا ہے جہاں سے مختلف سوچ اورپھر ان سوچوں کے انڈے بچے پیداہوتے رہتے ہیں،یوں ہمارے دماغ میں ہر وقت سوچیں ہی سوچیں پیدا ہوتی ہیں۔
سوچ کی قسمیں
سوچ کی دو قسمیں ہوتی ہیں
پہلی قسم مثبت سوچوں کی ہے ،مثبت سوچوں میں تعمیر کا عنصر غالب ہوتاہے۔
دوسری قسم منفی سوچوں کی ہوتی ہے جن میں کسی بھی چیز کے بارے میں تخریب کا رجحان غالب ہوتا ہے۔
انسانی جذبات، احساسات اور رجحانات کا مرکزقلب یعنی دل ہوتا ہے۔
سوچ کی طرح جذبات واحساسات بھی دوقسم کے ہوسکتے ہیں۔
پہلی قسم پاکیزہ اور نیک جذبات ورجحانات کی ہوتی ہے۔
جبکہ دوسری قسم اس کے برعکس منفی جذبات ،احساسات اور رجحانات کی ہوسکتی ہے ۔
رویہ کیا ہے ؟
جب انسانی دل و دماغ آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ Communicate کرتے ہیں اور کسی کام یا نکتہ کے بارے میں دماغ کی سوچ اور دل کاجذبہ ہم آہنگ ہوجاتا ہے تو وہ کام انسانی اعضا سے ظاہر ہوکر کردار کی شکل اختیار کرلیتا ہےجسے رویے کا نام دیا جاتا ہے۔ یوں رویہ ایک خارجی عمل کا نام ہے جس کی بنیادیں دماغ کی سوچ اور دل کے جذبے کے اندر پیوست ہوتی ہیں۔
سوچ اور جذبے کے بدلنے سے رویے بھی بدلتے ہیں۔ مثبت سوچ سے جب پاکیزہ جذبا ت مل جاتے ہیں تو انسانی رویے میں خوبصورتی آتی ہے لیکن اگر سوچ منفی ہو یاجذبات غلط رخ پر ہوں تو انسانی رویہ اور کردار بھی معیوب ومشکوک بن جاتا ہے۔
انسانی عادات کی تشکیل کیسے ہوتی ہے ؟
انسانی عادات رویوں سے آگے کا مرحلہ ہوتی ہیں، یعنی سب سے پہلے دماغ میں سوچ پیدا ہوئی ، سوچ کے ساتھ دل کے جذبات متحرک ہوئے۔ ان دونوں کے آپس میں ملنے سے جو انسانی عمل وجود میں آتا ہے اس کو رویہ کا نام دیاجاتا ہے ۔ایک ہی رویہ جب باربار دہرایا جایا جائے تو وہ مزاج ا ور طبیعت کا حصہ بن کر عادت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس کے لغوی معنی ہی باربار کرنے کے ہیں۔
کسی عمل کو بارباردہرانے سے عادتیں بعض اوقات اتنی پکی ہوجاتی ہیں کہ ہم اسے فطرت ثانیہ یعنی پکی عادت کا نام دیتے ہیں۔ انسان کی عادتیں اچھی بھی ہوسکتی ہیں اور بری بھی ،تاہم عادتوں کی تشکیل رویوں سے اور رویوں کی تشکیل سوچ، احساسات اور جذبات سے ہوتی ہے۔
شعور اور لاشعور
دوسرے الفاظ میں اس بات کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ ہمارے دماغ کے دوحصے ہیں ایک کو شعور کہتے ہیں اوردوسرے حصے کو تحت الشعور یا بعض اوقات اسے لا شعور بھی کہاجاتا ہے۔
پہلاحصہ نسبتا چھوٹا ہوتا ہے اور دوسراحصہ آئس برگ کی طرح بہت بڑا ہوتاہے۔ ریسرچ کے مطابق ان دونوں میں تناسب دیکھا جائے تو 10 اور 90 فیصد کا تناسب بنتا ہے۔ برین میں شعور کا حصہ صرف 10فیصد ہوتا ہے جبکہ تحت الشعور کا حصہ 90 فیصد ہوتا ہے۔جب انسان شعور کی سطح پر کسی چیز کو بار بار دہراتا ہے تو تحت الشعور کو یہ پیغام چلاجاتا ہے کہ یہ چیز اس کے لئے اہم ہے اسے اپنے پاس محفوظ کرلو۔اس طرح تحت الشعور اس چیز کو اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہے۔
بعد میں اس عمل کومزید دہرانے پر اس کی اہمیت کا اندازہ تحت الشعور کو ہوتارہتا ہے یوں وہ چیزتحت الشعور کی سطح پر جذب ہوکر پختہ عادت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جیسے ہی اس کے بارے میں تحت الشعور کو اشارہ مل جائے وہ فورا متحرک ہوجاتا ہے اور شعور کی سطح پر آکرعمل کرنا شروع کردیتا ہے ۔
جب کوئی چیز اس طرح تحت الشعو ر کا حصہ بن جائے اور انسان اس کو باربار دہرانے لگے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ اس کی عادت بن گئی ہے۔یہ عادت جب باربار دہرائی جائے تو فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔انہی عادتوں اور رویوں سے انسانی شخصیت پروان چڑھتی ہے اور یہ عادتیں اس کی پہچان بن جاتی ہیں۔
شخصیت پرسوچ ، عادات اور رویوں کے اثرات
سوچ اورعادتیں انسانی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں، کہاجاتا ہے کہ انسان اپنی سوچ اور عادات کی پیداوار ہے۔جب انسان کی سوچ اور عادتیں اچھی ہوں تواس کی شخصیت میں نکھار آجاتا ہے، خوب صورتی آتی ہے۔ لیکن خدانخواستہ سوچ ،رویے اورعادتیں بری ہوں توایسی شخصیت دوسروں کے لئے نفرت انگیز ہونے کے علاوہ خود اپنی ذات کے لئے بھی نقصان دہ بن جاتی ہے ۔یہی منفی سوچ اور خراب عادتیں اسے زندگی کے ہرمیدان میں ناکامی کی طرف لے جاتی ہیں۔
بری عادات ناکامی کی بنیاد
کہاجاتا ہے کہ انسان کاسب بڑا دشمن باہر سے نہیں آتا بلکہ خود انسان کے اندرموجود ہوتا ہے اور وہ اس کی بری عادات اور زنگ آلودسوچیں ہوتی ہیں۔ اچھی عادتیں انسان کی کامیابی کی ضمانت اور کلید ہوتی ہیں جبکہ بری عادتیں اس کی ناکامی کا باعث بنتی ہیں۔
ایک ریسرچ میں دنیا کے کامیاب ترین انسانوں کی جب فہرست بنائی گئی اور ان کی کامیابیوں کا راز معلوم کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان کی اچھی عادتیں ہی تھیں جن کی بدولت وہ دنیاوی کامیابی کی اوج کمال تک پہنچ گئے تھے۔ اس کے برعکس ایک ریسرچ میں دنیا میں ناکام لوگوں کی ناکامی کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا وہ اپنی بری عادتوں ہی کی وجہ سے ناکامی کے دھانے پر پہنچے ۔
کیا سوچ عادات اور رویوں کو بدلاجاسکتا ہے؟
جی ہاں ! یہ قابل تبدیل چیزیں ہیں ان کو موثر حکمت عملی اور مستقل مزاجی کے ذریعے سو فیصد تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ عادتون اور رویوں کو بہتربناکر انسان اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدل سکتاہے۔لیکن اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ عزم مصمم کرے اور پھر اس پر ثابت قدمی اختیارکرے۔
ان دوشرائط کے ساتھ جب انسا ن اپنی پرانی خراب عادتیں بدل کر نئی اور اچھی عادات اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعا بھی مانگتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ تبدیل نہ ہوں۔ البتہ اس کی ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
عادات اور اسٹیفن آر کوی کی رائے
مشہور بیسٹ سیلنگ کتاب “کامیاب اور پراثرلوگوں کی سات عادات”کے مصنف اسٹیفن آرکوی کا کہنا ہے کہ انسانی رویوں اورعادتوں کی تشکیل وتعمیر کی ترتیب یہ ہے کہ رویے اور عادات انسانی سوچ اور زاویہ نظر کی بنیاد پر بنتی ہیں، جس کو وہ پیراڈائم کا عنوان دیتے ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ خود رویوں اور عادتوں کا الگ کوئی وجود نہیں بلکہ ان کا وجود پیچھے کی سوچ ،نقطہ نظر، تناظر یا پیراڈائم پر منحصر ہے ۔
اگرانسان کی سوچ اور تناظر بہتر ہو تویقینا اس کا رویہ ، کردار اور عادتیں بھی اچھی ہوں گی ۔ لیکن اس کے برعکس اگر سوچ اور تناظر بہتر نہیں تو ان کے مظاہر، رویوں یا عادات پر الگ سے کام کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ اگر کردار، رویوں اور عادتوں کو بہتر بناکر شخصیت کی اچھی تعمیرکا ارادہ ہے تو اپنی سوچ اور تناظر کو بہتربنائیے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں ۔
فرض کیجیے کہ آپ کو اندرون شکاگو کسی خاص مقام پر پہنچنا ہے اور آپ اس شہر میں نووارد ہیں ،آپ کے لئے اس مقام تک پہنچنے کیلئے شہر کی گلیوں کا نقشہ بہت معاون ہوسکتا ہے لیکن فرض کریں کہ آپ کے ہاتھ میں غلط نقشہ آگیا ہے اور چھپائی کی غلطی سے جس نقشے پر شکاگو لکھا گیا ہے وہ دراصل کسی اور شہر کا نقشہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس نقشے کی مدد سے آپ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ سکتے ہیں؟ یقیناجواب نفی میں ہوگا۔چاہے آپ کتنی ہی جدوجہد کیوں نہ کریں۔
اس کامطلب یہ ہوا کہ ہمارا ذہن بھی سوچ کی شکل میں ہمیں ایک نقشہ فراہم کرتا ہے جس کے مطابق چلتے ہوئے ہمارے رویے اور عادات وجود میں آتی ہیں۔ جودرحقیقت اس سوچ کے ظاہری مظاہر ہیں۔ اب اگر ہمیں اپنی عادتوں اور رویوں کو درست کرنا ہوا تو ہمیں پہلے اپنے ذہنی نقشے یعنی سوچ کو درست کرنا ہوگا جو نسبتا آسان کام ہے ۔ سوچ کو بہترکئے بغیر ہم عادتوں کو بہتر بنانے کی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔
کامیاب انسانوں کی عادات پر مفید کتابیں
کامیاب انسانوں کی کونسی عادات اور رویے ہوتے ہیں؟ اس موضوع پر کئی مشہور اور بیسٹ سیلنگ کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو آپ پڑھ سکتے ہیں۔ مثلا ڈاکٹر اسٹیفن آرکوی کی ایک مشہور کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ” پراثر لوگوں کی سات عادات” کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اسی طرح ملین ڈالر ہیبٹ کے نام سے رابرٹ جے رنگر کی کتاب ہے۔تیسری کتاب اس حوالے سے جو مشہور ہے وہ نپولین ہل کی کتاب “تھنک ایند گرورچ” کے نام سے دستیاب ہے۔ ان کتابوں میں انسان کو کامیابی عطا کرنے والی عادات اور رویوں کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔
چند اچھی عادات کی فہرست
اس کتاب میں جوابھی آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ عنوان چونکہ ضمنا زیر بحث آیاہے۔لہذا ہم انسان کوکامیابی کی طرف لے جا نے والی عادات کی طرف صرف عنوانات سے اشارہ ہی کریں گے باقی تفصیل سے اس موضوع پر پڑھنے کے لئے مندرجہ بالامذکورکتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ذیل میں مختصرا چند اچھی عادات کوذکر کیا جاتا ہے۔
1۔ زندگی اور اس کی ہر سرگرمی کو انجام دینے سے پہلے احتیاط سے پلاننگ اور منصوبہ بندی کرنا ۔
2۔ رات کو جلدی سونا اور صبح جلد ی اٹھنا۔
3۔ اپنی غذا، ورزش ، نیند اور صحت کا بھرپور خیال رکھنا۔
4۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنانا۔
5۔ مثبت اور تعمیری سوچ اختیارکرنا منفی سوچوں سے محتاط رہنا۔
6۔ بھیڑ چال اور ٹرینڈ کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنا راستہ خود متعین کرنا۔
7۔ زندگی کے مقاصد متعین کرنے کے بعد ان کے حصول کے لیے ثابت قدمی اختیار کرنا۔
8۔ زندگی کی ہر سرگرمی کو کرتے ہوئے مقصد تخلیق کو پیش نظر رکھنا۔
9۔ عادتوں اور رویوں پر ہر وقت نظر رکھنا ۔
10۔ زندگی کے ہرکام کو دینی زاویہ نگاہ سے دیکھنا اور اللہ کی رضا کو اولین ترجیح بناناوغیرہ۔