ٹین ایجرز کو اقداراورویلیوزسکھانا
اقداریا ویلیوز کسی منظم معاشرے کی بنیاد ہواکرتی ہیں۔ اگراقدار مضبوط ہوں، تو معاشرہ مضبوط کہلاتا ہے۔ ورنہ کمزورمعاشرہ کہلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقدارکیا ہوتی ہیں؟ اقداریا ویلیوز وہ کام ہوتے ہیں جن کو معاشرہ کی سطح پر،فیملی کی سطح پر یا انفرادی طورپر اہمیت دی جاتی ہے۔ مثلا ایمانداری ایک یونیورسل اور آفاقی قدر ہے۔ جسے دنیا میں ہر جگہ اہمیت دی جاتی ہے۔
اسی طرح بے شمارمعاشرتی یا مذہبی اقدارہوتی ہیں۔ جنہیں اپنی نسل کو سکھانی پڑتی ہیں۔ ہرگھر کی ویلیوز الگ ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ ویلیوز مذہب، لائف اسٹائل، نسلی فرق ،تہذیبی اورثقافتی امتیاز سے جنم لیتی ہیں۔ جن میں فرق آنے پر ہرگھر کی ویلیوز الگ ہوسکتی ہیں۔
لیکن کچھ معاشرتی ویلیوزاور اقداروہ ہوتی ہیں، اس معاشرے کی مشترک اقدارکہلاتی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ یونیورسل ویلیوز بھی ہوتی ہیں۔ جو پوری دنیا میں اقدارکے طور پرمانی جاتی ہیں۔
ہم اپنے بچوں کواپنی رول ماڈلنگ اور فیملی لائف اسٹائل کے ذریعے شروع سے ہی کچھ اقدار سکھارہے ہوتے ہیں۔ جو ہماری فیملی اقدارہوتی ہیں۔ کچھ معاشرتی اور کچھ یونیورسل اقدار بھی بچپن سے ہی بچے سیکھ لیتے ہیں۔ بلوغت کے مرحلے میں پہنچ کر ٹین ایجر بچے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ان سیکھی ہوئی اقدار کو ریفائن کرنا شروع کرتے ہیں۔
والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ٹین ایج میں اپنے بچوں کوپہلے سے سیکھی ہوئی اقدار پر قائم رکھیں۔ ان اقدار کو ویلیودینے اوران پرعمل درآمد کو یقینی بنائیں ۔
:والدین کی رول ماڈلنگ
والدین اپنے بچوں کے مستقل رول ماڈل ہوتے ہیں۔ چاہے والدین کو اس کااحساس ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ وہ اپنے بچوں کے ہیروہوتے ہیں ۔اوربچے ان کی ہرادا کا بغور نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے ہرگفتاروکردار کی کاپی بھی کررہے ہوتے ہیں۔ لہذا والدین کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیونکہ وہ اپنے کسی بھی عمل سے اپنے بچوں کو پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ والدین کو اقداراورویلیوز اپنے بچوں کی طرف منتقل کرنے کے حوالے سے اپنے کرداراوررول ماڈلنگ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے انہیں مندرجہ ذیل سوالات کےجوابات تلاش کرنے چاہییں۔
سچائی اور ایمان داری ایک یونیورسل قد ر ہے۔ کیا آپ خود اس پرپورا اترتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی بچے کے سامنے جھوٹ بولا ہے؟ یا بچے سے جھوٹ بلوایا ہے؟
کَیا آپ دوسروں کوعزت واحترام دیتے ہیں؟ اور ان سے نرم ومہذب لہجے میں بات کرتے ہیں؟
کیا آپ خود صوم وصلوۃ اوردین واخلاق کے پابند ہیں؟
کیا آپ خود صحت مند لائف اسٹائل کے عادی ہیں؟ صحت مند غذا، مناسب آرام اورروزانہ جسمانی ورزش کے عادی ہیں؟
کیا آپ صحت وصفائی اور ڈسپلن کو زندگی میں ویلیودیتے ہیں؟
کیا آپ خود وقت کی پابندی اور محنت کے عادی ہیں؟ اوران اقدار کو اپنی زندگی میں ویلیودیتے ہیں؟
یقین کیجیے اگران سوالات کے جوابات آپ کی طرف سے مثبت ہیں۔ توآپ کا بچہ بھی ضروران میں سے اچھی عادات کو اپنالے گا۔ اگرچہ ٹین ایج کے عارضی مرحلے میں وہ ان میں سستی کا مظاہر کرتا ہو۔ لیکن اگر ان سوالوں کے جوابات منفی ہیں، تو یقینا رول ماڈلنگ کا اثر ہوگا۔ اور بچے بھی غلط رخ پر جائیں گے۔
دوسری بات یہ بھی ہے، کہ پانی نشیب کی طرف بہتا ہے۔ یعنی کمزوری جلدی جگہ پکڑلیتی ہے۔ جبکہ اچھائی اپنی جگہ بنانے میں وقت لیتی ہے۔ اگران اقدارمیں آپ کی کمزوری تھوڑی بہت بھی ہوگی۔ تو رول ماڈلنگ کی کمزوری کی وجہ سے بچوں میں زیادہ کمزوری دیکھنے میں آئے گی۔ لہذا والدین کو اپنی رول ماڈلنگ مضبوط کرنی ہوگی۔ اور اقدار کوواقعتا ویلیودیناہوگا۔
:فیملی میں باہمی عزت واحترام
افراد خانہ میں درمیان چھوٹے بڑے کی تمیز بہت ضروری ہے۔ چھوٹےاپنے بڑوں کی عزت کرتے ہوں۔ اور بڑے اپنے چھوٹوں سے شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے ہوں۔ یہ ایک مضبوط اور اچھے گھرانے کی بنیاد ہونے کے ساتھ اچھے معاشرے کی پہچان بھی ہوتی ہے۔
چونکہ والدین گھر میں اپنے بچوں کے رول ماڈل ہواکرتے ہیں۔ ان کو اس چیز کا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑے گا۔ کہ وہ خود بھی ایک دوسرے کوعزت دیتے ہوں۔ اور بچوں کے ساتھ بھی عزت واحترام سے ساتھ پیش آتے ہوں۔
جب گھر میں باہمی عزت واحترام اورمحبت کا کلچر ہوگا۔ تو بچے یہ کیفیت دیکھ کرخود ہی ان ویلیوز کو اپنائیں گے۔ ماں باپ جب آپس میں ایک دوسرے کو عزت دینے کے ساتھ اپنے بچوں کوبھی عزت دیں گے۔ تو اس کے کئی فوائد ہونگے۔
مثلا بچوں کی عزت نفس قائم ہوجائے گی، جس سے ان میں خوداعتمادی پیداہوگی۔ پھرماں باپ کی رول ماڈلنگ دیکھ کر بچے بھی آپس میں اوردوسروں سے عزت واحترام سے پیش آئیں گے۔ اس کے علاوہ خود ماں باپ کی عزت کا بھی خیا ل رکھیں گے۔ اگر آپ اپنے گھر کے ماحول میں عزت واحترام کا کلچر پید اکرناچاہتےہیں، تو مندرجہ ذیل اصول اپناسکتے ہیں۔
۔ گھر میں تو تڑاں کی جگہ آپ جنا ب سے بات کیجئے۔ جب والدین خود درست انداز اپنائیں گے۔ تو بچے ضروران کی اچھی رول ماڈلنگ کو اپنائیں گے۔
۔ گالم گلوچ یا بدزبانی کو گھر کے ماحول سے خارج ہی کردیں۔ اوراپنے بچوں کو گالم گلوچ کے عادی دوسرے بچوں سے بھی دوررکھیں۔
۔ کسی کو کمزور سمجھ کر اس کو دبانے یا مذاق اڑانے کی عادت سے خود بھی اجتناب کریں۔ اوربچوں کو بھی اس عادت سے دور رکھیں۔ بلکہ کمزورپررحم کرنے کوگھرکے کلچرکاحصہ بنائیں۔
۔ کسی کو کوسنے، مارنے، ذلیل کرنے یا کمترسمجھنے کی قطعااجازت نہ دیں۔ اور نہ ہی والدین خود ایسا کریں۔
۔ دوسرے کی رائے کو احترام دیں اس کی بات کو اہتمام سے کان لگا کرسنیں۔ چاہے تمہیں اس بات سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔
۔ غلطی پر فورا معذرت اورکسی کی مدد پر اس کا شکریہ ادا کرنے کو اپنے گھر کے کلچر کاحصہ بنائیں۔
ان اصولوں کو اپناکراوربچوں کو اس کی تلقین کرنے سے آپ اپنے بچوں کو معاشرے میں باہمی عزت واحترام اور امن ومحبت سے رہنے کا سلیقہ سکھاسکیں گے۔
وہ زندگی کی خوبصورتی اور مٹھاس سے آشنا ہونگے۔ اورزندگی میں باہمی اعتماد، دوستانہ ماحول اور دوسروں سے مضبوط تعلقات کو فروغ دے سکیں گے۔