تحریر؛ محمد زید عثمان
ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ اور ہم ماں کی نظر میں ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں ، اگرچہ کتنے ہی کیلنڈر کیوں نہ بیت جائیں ۔
میری ماں میرے لیے عظیم سرمایہ تھی۔ ماں سے بڑھ کر بھلا کون ہمیں پیار دے سکتا ہے ۔کچھ لمحات زندگی میں ایسے ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے۔میرے لیے وہ لمحہ، وہ گھڑی بھلانا بہت مشکل ہے جب میری والدہ کی میری آنکھوں کے سامنے وفات ہوئی ۔ میری زندگی کا کل سرمایہ میری ماں تھی۔جس سے میں دکھ درد خوشی غم سب کچھ بانٹا کرتا تھا۔
وہ کرب ناک گھڑی جسے زندگی میں شاید کبھی نہ بھلا سکوں۔وہ21رمضان المبارک کی ایک گھڑی تھی جب صبح سات بج کر بیس منٹ پر میری والدہ ہم سب کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور جا رہی تھیں ۔مجھے ہر طرف اندھیرا محسوس رہا تھا۔ اور ان کی غیر موجودگی میں مستقبل کے درجنوں خدشات چشم تصور میں ابھر رہے تھے۔
گھرسے ایک دم چیخوں کی آوازوں نے میرے قدموں کو ڈگمگا کر رکھ دیا۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے ۔ کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میری ماں ہنستا بستا شہر اور خوشیوں بھرا گھر چھوڑ کر چلی جائیں گی اور ہم ان کی محبت بھری گود سے محروم ہو جائیں گے ۔
انہوں نے اوائل عمری میں ہی قرآن پاک سے تعلق جوڑ لیا تھا ۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں پڑھنا ، پڑھانا شروع کردیاتھا۔زندگی کی تقریبا چالیس بہاریں قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے میں گزاردیں۔ساتھ ساتھ بچیوں کو بہشتی زیور ، بہشتی گوہر ، ترجمہ و تفسیر کی بھی تعلیم دیتی تھیں ، تاکہ ان کو زندگی گزارنے کے اصولوں کاپتہ چل جائے ۔ انہوں نے بلا شبہ سیکڑوں بچیوں کو قرآن پاک کے زیور سے آراستہ کیا۔
میری ماں انتہائی نیک صالحہ ، صابرہ ،پاک دامن،خوش اخلاق ،صابرہ شاکرہ،ہنس مکھ ، ذہین، دانا،شفیق ، رحم دل ، حق گو اور سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔
دھیمی آواز میں بڑے احسن طریقہ سے بات کرتی تھیں۔حق بات کرنا ان کا شیوہ تھا۔جب تک صحت نے ساتھ دیا نماز تہجد اور روزوں کا باقاعدگی سے اہتمام رہا۔جب بھی معتکف ہوتیں کسی سے کوئی بات بھی نہ کرتیں ، رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف اورطاق راتوں کو ڈھونڈنے کا معمول تھا ۔
والدہ محترمہ بہن بھائیوں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھ کر بانٹتی تھیں ۔برادری کے ہرفرد سے خوش اخلاقی سے ملنا بھی ان کا طرہ امتیاز تھا۔کوئی برابھلا بھی کہہ دیتاتو مسکرا کرٹال دیتی تھیں۔جوانی میں ہی بڑی دانا عورتوں میں شمار ہوتی تھیں ۔اکثر اوقات عورتيں مفید مشوروں کےلیے میری والدہ سے رہنمائی لیتی تھیں۔
والدہ محترمہ کے ہاتھوں میں قدرت نے بہت شاندار ذائقہ رکھا تھا وہ جب بھی کھانا پکاتیں درودشریف اور قرآن پاک کا ورد زبان پرجاری رہتاتھا۔میری ماں کو حج کا بچپن سے شوق تھا پھر خدا نے ایساسبب بنا دیا کہ جوانی میں ہی حج نصیب ہوا۔2017ء میں ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے گھر لے گیا ۔ حج کے سفر کے دوران ان کو خواب میں حضرت آدم علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی ۔
جس حال میں بھی ہوتیں ، زبان پر “, الحمدللہ” ہی کہتیں، شدیدعلالت میں بھی اللہ کی شکر گزار اور تسلیم و رضا کی پیکر نظر آتیں۔ مرض الوفات میں بھی ان وہ صبر و رضا کی مجسم تصویر بنی رہیں۔
اللہ تعالیٰ ماں جی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،ان کی تمام بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے،ان کے جملہ نیک اعمال کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے، ان کے تمام صدقات جاریہ کو تا قیامت جاری وساری رکھے اور مجھ سمیت تمام اولاد کو ایسا بننے کی توفیق دے جس سے ماں جی کی روج خوش ہوجائے۔(آمین)