مانٹیسوری طریقہ تعلیم

مانٹیسوری طریقہ تعلیم

دنیا آج ترقی کرتے کرتے چاند پر جا پہنچی ہے اور یہ سب تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ کسی فرد کو تعلیم دینا کوئی آسان کام نہیں اور چھوٹے بچوں کو تعلیم دینا اور انہیں سیکھنے سمجھنے کے مراحل سے گزار کر کسی قابل بنانا اور بھی دشوار کام ہے۔ چھوٹے بچوں کو پڑھانے اور سیکھانے کے مختلف طریقے ماہرین تعلیم نے متعارف کروائے ہیں، جن میں ایک طریقہ مانٹیسوری طریقہ تعلیم بھی ہے۔

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کی بانی

اس نظام تعلیم کی بانی ایک اطا لوی خاتون ڈاکٹر ماریامانٹیسوری ہیں جو ماہر نفیسات تھیں۔ ماریا مانٹیسوری 1870 میں پیدا ہوئیں روم سے اعلی تعلیم حاصل کی اورایک نفسیاتی کلینک میں ملازم ہوگئیں۔ دوران ملازمت 1907 میں ماریا کو ایک فرم کی جانب سے اسکول کے طلبہ کی تعلیم و نگرانی کا کام سپرد کیا گیا ۔ ماریا اس حقیقت سے آگاہ تھیں کہ بچوں میں ضعیف العقلی کی شکایت عدم صحت کی بناء پر پروان چڑھا کرتی ہے۔

انھوں نے ضعیف العقل بچوں کی نفسیات پر کام کرنے کے ساتھ کئی حقائق دریافت کیے اور وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ اگر حواس کند ہوں تو بچوں میں ضعیف العقلی جنم لینے لگتی ہے۔ اورپھر ایسے بچوں کی تعلیم و تدریس بھی غیر موثر رہتی ہے۔ ماریا مانٹیسوری نے بچوں کے حواس پر کام کرنا شروع کیا تو بچوں میں بتدریج لکھنے اور پڑھنے کی اور سمجھنے کی صلاحیتیں پروان چڑھنے لگیں۔

اسی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے عام بچوں کے حواس اور ان طبیعت مدنظر رکھتے ہوئے ان کیلئے تعلیم کا انتظام کیا۔ جس کے نتائج بہت ہی حوصلہ افزاء برآمد ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ اور ان کی مانٹیسوری طریقہ تدیس بھی بہت مقبول ہوا اور دنیا کے بیشتر ممالک میں مانٹیسوری طریقہ تعلیم رائج ہے ۔

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کے اصول

ماریا مانٹیسوری نے اپنے طریقہ تدریس کی بنیاد چند اصولوں پر رکھی جو بچوں کی تعلیم و تدریس میں مددگار اور معاون ہوتے ہیں جو کہ درجہ ذیل ہیں ۔

تعلیم کی نشونماء کا اصول(*

ماریا مانٹیسوری کا کہنا ہے کہ تعلیم ہماری مجموری شخصیت اور ہماری تمام تر جسمانی اور طبعی خصوصیات پر اثر انداز ہوتی ہے اس سے ہماری ذہنی جذباتی معاشرتی اور جسمانی نشونماء ہوتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ تعلیم ایک قوت ہے جو بچوں کو زندگی گذارنے میں مدد دیتی ہے ۔

آزادی کا اصول(*

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کی بانی ماریا مانٹیسوری کا کہنا ہے کہ طلبہ کو آزاد ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ آزادی ہر فرد کا فطری حق ہے اگر بچوں کو سخت اور جبر و تشدد والے ماحول میں رکھ کر تعلیم دینے کی کوشش کی جائیگی تو ان کی فطری صلاحیتیں نشونماء نہیں پائینگی لہذا انہیں ایک آزاد اور نظم و ضبط والے ماحول میں رکھ کر تعلیم و تدریس دی جائے ۔

انفرادیت کا اصول(*

ماریا مانٹیسوری کا خیال ہے کہ ہر بچہ اپنی مخصوص بالیدگی اور نشو نماء رکھتا ہے اس طرح اس کے رجحانات اور خواہشات بھی مختلف ہوا کرتی ہے اس  نظآم تعلیم میں بچے کی انفرادیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اجتماعی طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے طریقوں سے اس کی تعلیم کی جاتی ہے کہ جن میں انفرادیت کار فرماہو۔ اور انفرادی نشونماء کے بھر پور مواقع بھی میسر ہوں۔

ذاتی تعلیم کا اصول(*

 مانٹیسوری طریقہ تعلیم  کے مطابق تعلیمی عمل میں بچے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوناچاہیے۔ جبکہ معلم کو ثانوی حیثیت سے کام کرنا چاہیے ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف معلم ہی تدریس میں کردار ادا کرتا رہے اور طلبہ کو کسی قسم کے کردار ادا کرنے پر نہ اکسایہ جائے تو یہ طریقہ کار مؤثر نہیں ہوتا اسی لیے ماریا مانٹیسوری کے نذدیک ذاتی تعلیم ہی حقیقی تعلیم ہوتی ہے جو بچوں کو خود ان کی مدد سے مطابقت اور ذمہ داری کی صلاحیت سے ہم کنار کرتی ہے ۔

عضلات کی تربیت کا اصول(*

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کا یک اصول یہ بھی ہے کہ تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ جس کے ذیعے بچو ں کے جسمانی عضلات کی بھی تربیت ہو اور ان کے جسمانی عضاء میں قوت و توانائی پیدا ہو تاکہ وہ تعلیم کی بنیادی مہارتوں کوحاصل کر سکیں اور ان میں خود کام کرنے کا شعور بیدار ہو ۔

حواس کی تربیت کا اصول(*

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ بچے کے تعلیم و تربیت کے ساتھ حواس کی تربیت بھی ہونی چاہے اس طرح بچے نہ صرف یہ کہ ذہنی امراض سے دور رہتے ہیں بلکہ ان میں کسی بھی قسم کی ضعیف العقلی نہیں پیدا ہوتی۔

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کی خوبیاں

اس طریقہ تدریس میں بچوں کو بلکل گھر جیسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ بچہ آزادی سے اور آزادانہ ماحول میں کام کرنے سے خوش ہوتا ہے۔(*
کھیل کود مانٹیسوری طریقہ تعلیم میں شا مل ہیں جس سے عضلات میں پختگی اور توانائی پیدا ہوتی ہے۔(*
اس طریقہ تعلیم میں بچے  تصاویر، ویڈیوز اور کھلونوں کی مدد سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔(*اس میں زیر استعمال سازو سامان اور ماحول بچوں کی نفسیات کے عین مطابق ہوتےہیں۔(*

اس طریقہ دریس کے تین اہم حصے ہوتے ہیں(*

حواس کی تربیت(**

زبان کی تربیت(**

عضلات کی تربیت(**
بچون کی نفسیات اور ان کی خواہشات کو مدنظر کرھتے ہوئے تعلیم دی جاتی ہے ۔(*
بچوں میں خود سے کام و کو سمجھنے اور انہیں کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔(*
مانٹیسوری طریقہ تعلیم بچوں کی انفرادیت اور شخصیت کو اجاگر کرتا ہے ۔(*
معلم صرف رہنمائی کرتا ہے بچے خود عمل اور حرکات سے سیکھا کرتے ہیں ۔(*
٭)بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے اور وہ رفتہ رفتہ نہ صرف یہ کہ اپنا کام کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی تعاون کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔

مانٹیسوری طریقہ تعلیم کی خامیاں(*

جہاں اس طریقہ تدریس میں بہت سی خوبیاں موجود بھی وہیں ماہرین تعلیم کے نزدیک کچھ خامیاں بھی ہیں جو کہ مانٹیسوری طریقہ تعلیم میں پائی جاتی ہے ۔
ماہرین کے مطابق اس طریقہ تدریس میں  کردارکے پہلؤں کو نشونماء کے مواقع نہیں ہیں ۔(*
مانٹیسوری طریقہ تعلیم میں انفرادیت کی نشونماء اور حیاتیاتی تقاضوں کا اتنا خیا ل کھا گیا کہ سیرت اور مزاج کے پہلو نظر اندار کردیے گئے۔(*
ابتدائی عمر کے بچوں کو کہانیوں سے خاص لگاؤ ہوتا ہے جبکہ اس مانٹیسوری طریقہ تعلیم میں کہانی کا کوئی ذکر نہیں ۔(*
ماریا مانٹیسوری نے تخیلی اور علمی نشونماء پر زور نہیں دیا ۔(*
حواس کے ذریعے تربیت کا تصور غلط ہے کیونکہ ابتدائی عمر میں بچے کا ذہن ان خصوصیات کا حامل نہیں ہوتا۔(*

حرف آخر

ان تمام ترخامیوں کے با وجود مانٹیسوری طریقہ تعلیم جدید تعلیم کے حصول میں بڑی مقبولیت کا حامل ہے چونکہ اس طریقہ تدریس کی بنیاد نفسیاتی اصولوں پر رکھی گئی ہے جن میں بچوں کی انفرادیت اور شخصیت کی نشونماء پر زور دیا گیا ہے اس لیے یہ طریقہ تعلیم روز بروز لوگوں میں مقبول ہوتا جا رہا ہے اور بہت سے ماہرین تعلیم اس نظام تعلیم کو دیگر طریقہ تدریس کے مقابلے میں بہتر خیال کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑہیں

کنڈرگارٹن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top