ماحول کا تربیت پر اثر

تربیت انسانی بڑے جان جوکھوں کا کام ہے تربیت اور انسانی پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے ایک بنیادی عنصر ماحول بھی ہے ماحول اس ارد گرد کی فضاءاس جگہ جہان کوئی انسان رہتا ہے یا وہ لوگ جو اس کے ساتھ رہتے ہیں مل کر بناتے ہیں تربیت انسانی میں ماحول کا بڑا عمل ودخل ہوا کرتا ہے۔

جب تک آپ کسی مقصد کے لئے مخصوص ماحول ترتیب نہیں دے لیتے تب تک وہ مقصد حاصل کرنا دشوار نہیں بلکہ ناممکن ہوا کرتا ہے بالکل اسی طرح تربیت انسانی کے لئے بھی ایک ماحول ترتیب دینا پڑتا ہے ماحول کے تربیت انسانی پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مدارس کے ماحول میں رہنے والے بچے بنسبت اسکولوں اور کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے دین سے زیادہ نزدیک ہوا کرتے ہیں کیونکہ انہیں شروع سے ایک مخصوص ماحول فراہم کیا جاتا ہے یہ ماحول کے ہی اثرات ہوتے ہیں جو کہ ان بچوں میں بردباری ہمدردی اور ایثار جیسی صفات کو پیدا کردیتے ہیں۔

اگر آپ بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا کام ماحول کو ترتیب دینا ہے بچوں کے ذہنوں پر ارد گرد کا ماحول بڑا اثر انداز ہوتا ہے اور اگر انہیں اسی طرح ماحول کے سپرد کردیا جائے جیسا کہ اج کل چل رہا ہے تو ان کی شخصیت میں وہ گرہیں پڑ جاتی ہیں۔

جو کبھی کھولے سے بھی نہیں کھلتیں آئیے ایک مثال کے ذریعے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماحول کس طرح تربیت انسانی پر اثر انداز ہوا کرتا ہے فرض کیجئے کہ آپ پانی کا ایک بھرا ہوا گلاس ڈیفریزر میں رکھتے ہیں وہاں اس گلاس کو ٹھنڈا ماحول چند گھنٹوں کے لئے میسر آتا ہے جس کے بعد وہ پانی برف کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

یوں اس برف کی قدر وقیمت بھی ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے لئے راحت کا ساماں بھی بنتی ہے جبکہ اسی پانی کو کھلے ماحول میں رکھ دیا جائے چند دنوں میں اس میں سرانڈ اور جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں جس کوئی استعمال بھی نہیں کرتا ایک اور مثال لیتے ہیں۔

ایک بچہ اپنی کلاس میں گندگی نہیں مچاتا اور نہ ہی وقت بے وقت کچھ کھاتا پیتا ہے وہ بریک کا انتظار کرتا ہے جب بیل بجتی ہے تو اپنا ٹفن کھول کر اس میں موجود لنچ کھاتا ہے لیکن یہی بچہ جب گھر جاتا ہے تو ان سب چیزوں کو بھول جا تا ہے کپڑے کہیں تو جوتے کہیں اور بستہ کہیں یہ بچہ اسکول جاکر اتنا منظم کیوں ہوجاتا ہے اور گھر آکر وہ سب کچھ کیوں بھول جاتا ہے۔

اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ماحول کی ترتیب اسکول میں چونکہ ہر کام وقت کے ساتھ ٹائم ٹیبل کے مظابق چلتا ہے اور ایک مخصوص ماحول ترتیب دیا گیا ہوتا ہے جس کے مظابق بچوں کو چلایا جاتے اسلئے بچہ جب اس ماحول میں کچھ وقت کے لئے رہتا ہے۔

تو اس ماحول کو فالو کرنے لگتا ہے پھر جیسے ہی وہ بچہ واپس گھر پہنچتا ہے تو اسکول والا نظم وضبط بھول جاتا ہے اس لئے کہ ماں باپ نے گھر پر وہ مخصوص ماحول ترتیب نہیں دیا ہوتا کہ جس کی بچے کی تربیت کے لئے ضرورت ہوتی ہے جب اسی طرح کے دو مختلف ماحول میں بچے کی تربیت ہو تو اس کی شخصیت اور مزاج میں ایک الجھاؤ کی سی کیفیت طاری ہوجایا کرتی ہے۔

جس کا ازالہ زندگی بھر ممکن نہیں ہو پاتا لہذا  صرف بچوں کا اچھے اسکول میں ہی داخل کرادینا  ہی کافی نہیں بلکہ اگر ہم  خواہاں ہیں اپنے بچوں کی درست اور اچھی تربیت کے تو ہمیں گھر کے ماحول کو بھی درست کرنا ہوگا تبھی جاکر بچے کی درست تربیت ممکن ہے۔

جوبچے حالات کے رحم وکرم یا گلی محلے کے ماحول میں پرورش پائیں تو وہ بچے حالات اور ماحول سے متاثر ہوکر وہی کچھ قبول کرتے ہیں جو انہیں ماحول یا پھر حالات مہیا کرتے ہیں یوں تربیت کاعمل بری طرح مجروح ہوتا ہے  اور نتیجے کے طور پر وہ بچے اور ان کامستقبل خراب ہو جاتا ہے۔

لہذا تربیت کے لئے درست ماحول کا ہونا بڑا ضروری ہے درست ماحول کے  بغیر سب کچھ ہو سکتا ہے سوائے تربیت کے ماحول میں چونکہ صحبت بھی شامل ہوتی ہے اس لئے اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ بچہ کن لوگوں کے ساتھ ا ٹھتا بیٹھتا ہے۔

ہمارے والد صاحب قبلہ مرحوم اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا تخم کی تاثیر انسان میں دیر سے آیا کرتی ہے جبکہ صحبت کی تاثیر بڑی جلدی آجاتی ہے تربیت کے لئے مناسب ماحول ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ بچوں کی صحبت پر نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اور وقتا فوقتا بچوں کے دوستوں سے مل کر ان کی سوچ وفکر کو بھی جانچنا پڑتا ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ بچہ کیسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے اور اس سلسے میں اس کو برے دوستوں سے دور رکھنے اور اچھے لوگوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت بھی کی جائے۔

ماحول چونکہ انسان کے مزاج اور اس کی شخصیت پر بڑے گہرے اثرات ڈالتا ہے اس لئے ماحول کا درست ہونا بہت ضروری ہے آپ جان سکتے ہیں (اوپر دی گئی مثالوں کو دیکھیں )اگر بچہ اسکول میں ہر لحاظ سے بہتر چل رہا ہے اور گھر آتے ہی وہ ساری چیزوں کو پس پشت ڈال کر واپس اپنی پرانی ڈگر پر آجاتا ہے۔

تو گھر کے ماحول کو درست کرنے کی ضرورت ہے دو متضاد طرح کے ماحول  میں پلنے والے بچے کی شخصیت اور مزاج میں وہ دراڑیں پیدا کردیتے ہیں  کہ جن کو بھرنا بعد میں ناممکن ہوا کرتا ہے اسی طرح اگر آپ کے محلے اور گلی کا ماحول بچے کی تربیت پر برے اثرات مرتب کر رہا ہے جیسا کہ آج کل عموما ہورہا ہے تو جتنی جلدی  ممکن ہوسکے۔

اس ماحول سے جان چھڑا لینی چاہیئے تاکہ بچے کی تربیت درست خطوط پر استوار ہوسکے یاد رکھئے شادی کرنا واجب نہیں جب تک کہ گناہ میں ملوث ہونے کا اندیشہ نہ ہو شادی ہو جائے تو بچے پیدا کرنا بھی واجب نہیں لیکن جب بچے پیدا ہو جائیں تو ان کی تربیت کرنا واجب ہوجاتا ہے والدین کا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا ان کی طرف سے اولاد کے لئے بہتریں ورثہ ہے۔

اپنے بچوں کو ان کے حقیقی ورثے سے محروم نہ کریں بچوں کی درست تربیت نہ کرنا ان کا معاشرتی قتل کرنے کے مترادف ہے حدیث رسول ﷺ  ہے کہ

حدیث نمبر2928

(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فالامير الذي على الناس راع عليهم وهو مسئول عنهم، والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عنهم، والمراة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته”.

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی ۱؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی“۔

 

تخریج الحدیث:

 «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجمعة 11 (893)، والاستقراض 20 (2409)، والعتق 17 (2554)، والوصایا 9 (2751)، والنکاح 81 (5200)، والأحکام 1 (7138)، (تحفة الأشراف: 7231)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة 5 (1829)، سنن الترمذی/الجھاد 27 (1507)، مسند احمد (2/5، 54، 111، 121) (صحیح)» ‏‏‏‏

 

اس حدیث کی تشریح میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ شوہر اپنے گھر کا نگہباں ہے اس سے پوچھا جاہے گا کہ اس نے بحیثیت نگہباں اپنی ذمہ داری نبھائی یا نہیں بیوی سے پوچھا جائےکہ اس نے اپنی ذمہ داری نبھائی یا نہیں ہمارے بچے ہماری ذمہ داری ہیں آئیں اپنی اس ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے نبھانے کی کوشش کریں تاکہ ہمارے بچے اچھے مسلمان اور بہترین انسان بن سکیں اور ہم اس دنیا اور اس جہاں دونوں میں سرخرو ہو سکیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top