قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت

قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت کیسے کریں؟

ڈاکٹرمحمدیونس خالد۔  پیرنٹنگ تربیہ کوچ، کاونسلر

بچوں کے دل و دماغ کو متاثر کرنے کا سب سے طاقتور ذریعہ کہانی ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب میں کہانیوں کو نسل در نسل اقدار، اخلاق اور عقائد منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن اسلامی تربیہ کا سب سے خوبصورت اور موثر ذریعہ وہ ہے جو قرآنِ مجید نے خود اختیار کیا یعنی قرآنی قصص۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ”( یوسف: 111)
یقیناً ان انبیاء  کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے۔

یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآنی قصص محض تاریخ یا تفریح  کیلئے نہیں ہیں، بلکہ عبرت حاصل کرنے کیلئے ہیں۔  تربیہ، رہنمائی اور کردار سازی کا زندہ نصاب ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ہم قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیہ کو عملی طور پر کیسے ممکن بنائیں؟
آئیے ہم اس کے طریقہ کار کو سمجھتے ہیں۔

 تربیہ کا مقصد سمجھیں۔ تربیہ کا مقصد علم دینا نہیں، کردار پیدا کرنا اور احساس پیدا کرنا ہے۔

آج کے والدین اور اساتذہ اکثر صرف معلومات دینے پر زور دیتے ہیں، مگر قرآنی تربیہ کا مقصد معلومات سے زیادہ  کردار (Character)  اور اخلاق کی تعمیر ہے۔قرآن کے ہر قصے میں کردار سازی کے بنیادی اصول پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جیسے:

  • حضرت یوسفؑ کے واقعہ میں  سچائی، صبر واستقامت، معاف کرنا اور مشکل وقت میں بھی عفت وپاکدامنی۔
  • حضرت ابراہیمؑ  کے واقعہ میں اللہ پرایمان،  توحید اور قربانی کا جذبہ۔
  • حضرت موسیٰؑ کے واقعہ میں  باطل کے سامنے حق بات کہنے کی جرات، ہر اللہ کی طرف رجوع ، اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے ساتھ مخلص رہنا۔ عدل، ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی جرآت
  • حضرت نوحؑ  کے واقعہ میں  صبر واستقامت، اللہ پر ایمان ویقین، حق کیلئے قربانی  کا جذبہ چاہے اکیلے رہ جائیں۔
  • حضرت لقمانؑ کے واقعہ میں بچوں کو نصیحت کرنے کا حکیمانہ انداز ، توحیدوایمان کی تلقین، دلیل سے با ت کرنے کا سلیقہ

 یاد رکھیے۔قصص قرآنی سے تربیت کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ بچہ کہانی سن کر اپنے اندر تبدیلی محسوس کرے ۔ وہ اچھا انسان، اچھا مسلمان اور ذمہ دار شہری بننے کا دل سے خواہشمند بنے۔ اور خود کہانی کے کردار کے طور پر محسوس کرنے لگے۔

2۔  بچوں کی عمر کے مطابق قرآنی قصص کا انتخاب کریں۔

قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت تب ہی مؤثر ہوتی ہے جب کہانی اور اس کو سنانے کا انداز بچے کی  عمر کے لحاظ سے موزوں ہو۔ کیوں کہ ہر کہانی اور ہراسلوب ہرایک  کیلئے کارگرنہیں ہوتا۔

عمر کے مراحل کے لحاظ سے چند مثالیں:

عمر موزوں قرآنی کہانیاں تربیتی پیغام
4–6 سال حضرت آدمؑ اور جنت، پرندے ابابیل کی کہانی اطاعت کے فوائد، نافرمانی کے نتائج
7–9 سال حضرت یوسفؑ، اصحاب کہف صبر، ایمان پر ثابت قدمی
10–12 سال حضرت موسیٰؑ، فرعون، بنی اسرائیل عدل، ظلم کے خلاف کھڑا ہونا
13+ سال حضرت ابراہیمؑ، حضرت یعقوبؑ ایمان وتوحید، قیادت، قربانی

عمر کے لحاظ سے کہانی اور اسلوب کے انتخاب سے  بچہ اپنی ذہنی سطح کے مطابق سیکھتا ہے اور اس کا اثر بھی  دیرپا رہتا ہے۔

3۔  کہانی کو صرف سنائیں نہیں، بلکہ محسوس کروائیں  ۔

قرآنی کہانیاں تب زندگی بدلتی ہیں جب بچے انہیں سن کر یا پڑھ کر محسوس کرنے لگیں۔صرف سنانے کے بجائے ان کے اندرانٹریکٹیو انداز شامل کریں۔ آپ کے سنانے کا انداز اور الفاظ ایسے ہوں کہ بچہ اسے دل سے محسوس کرنے لگے اور خود کو تصوراتی طورپر اس کہانی کا حصہ سمجھنے لگے۔

  • کہانی کے بعد بچوں سے سوال پوچھیں مثلا:
    اگر تم یوسفؑ علیہ السلام  کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟
  • کردار کے احساسات پر بات کریں:
    جب حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کو قربان کرنے کا سوچا تو ان کے دل میں کیا آیا ہوگا؟
  • بچوں سے مکالمہ کروائیں:
    ہم اس کہانی سے آج کے دور میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟

یہ طریقہ بچے کے اندر تنقیدی سوچ   میں اضافے کے ساتھ واقعہ سے سبق حاصل کرنے کی صلاحیت دونوں کو بڑھاتا ہے۔

کہانی  سمجھانے کیلئے بچوں کودکھانے کیلئے تصاویر ویڈیوز وغیر ہ کی مدد لیں۔

قرآنی کہانیاں محض زبانی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ بصری انداز میں بھی بچوں کے دل میں اتاریں۔مثلا

  • اسٹوری کارڈز اور تصویری کتابیں استعمال کریں۔
  • گھر یا کلاس میں “قرآنی کہانی کا گوشہ ” بنائیں۔
  • کردار ادا کرنے (Role Play) کی سرگرمیاں کروائیں۔
  • حضرت یوسفؑ کا کنواں یا حضرت نوحؑ کی کشتی کا ماڈل بنوائیں۔

جب بچہ کسی چیز کو خود  دیکھتا، چھوتا اور عملی طورپر ادا کرتا ہے تو تربیت اس کے دل پر نقش ہو جاتی ہے۔

قرآنی قصص سے اخلاقی سبق اخذ کرنا سکھائیں

قرآنی قصص صرف دوسروں کو سنانے ، تفریح  یا تاریخ بتانے کا ہی ذریعہ  نہیں، بلکہ سبق حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔بچے کو تربیت دیں کہ وہ ہر قصے سے ایک اخلاقی اصول تلاش کرے۔مثلاً:

  • حضرت یوسفؑ کی کہانی →اگر ہم صبر کرلیں تو اللہ ضرور کامیاب کرے گا۔
  • اصحاب کہف کی کہانی → “برے لوگوں سے بچنا ایمان کی حفاظت ہے۔
  • حضرت ابراہیمؑ کی کہانی → “اللہ کی رضا کیلئے قربانی  سب سے بڑی چیز ہے۔”

والدین اور اساتذہ کا کردار: کہانی کے بعد گفتگو

قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت والدین کی فعال شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔کہانی سنانے کے بعد لازمی گفتگو کریں اور سوال پوچھیں:

  • یہ کہانی ہمیں آج کے زمانے میں کیسے فائدہ دیتی ہے؟
  • کیا ہم نے بھی کبھی یوسفؑ جیسا صبر دکھایا؟
  • اگر کوئی ہمیں نقصان پہنچائے تو ہم کیا کریں؟

یہ گفتگو بچے کے عملی رویوں کو شکل دیتی ہے۔یاد رکھیں، کہانی سنانے کے بعد سبق اخذ کرنے پر گفتگو تربیت کیلئے بہت ضروری  ہے۔

قرآنی قصص کے ذریعے اموشنل انٹیلی جنس کی تربیت

قرآن کی کہانیاں صرف عقیدے نہیں سکھاتیں بلکہ جذباتی توازن بھی بڑھاتی ہیں۔مثلاً:

  • حضرت یعقوبؑ کا غم پر صبر → بچے کو دکھ برداشت کرنا سکھاتا ہے۔
  • حضرت یوسفؑ کا بھائیوں کو معاف کرنا → اپنے غصہ  کوکنٹرول کرنا سکھاتا ہے۔

ایسی کہانیوں کو بچوں کے احساسات سے جوڑیں۔کہیں: “یوسفؑ نے جب بھائیوں کو معاف کیا تو انہیں کیسا لگا ہوگا؟ تم کبھی  اپنے بہن بھائیوں کو معاف کر سکتے ہو ؟

قرآنی قصص کو جدید دنیا کے تناظر میں پیش کریں۔

بچوں کو پرانی کہانیاں نہیں، زندہ پیغام چاہیے۔جب آپ قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیہ کرتے ہیں تو اسے موجودہ حالات سے جوڑیں:

  • حضرت یوسفؑ نے جھوٹ نہیں بولا، تو ہم بھی امتحان میں چیٹنگ کیوں کریں؟
  • حضرت نوحؑ نے پریشانیوں کے باوجود ہار نہیں مانی، تو تم اپنا ہوم ورک کیوں چھوڑ دیتے ہو؟
  • حضرت ابراہیمؑ نے باپ کو ادب سے سمجھایا، تو ہم والدین سے کیسے بات کریں؟

یہ ربط بچے کے لیے قرآن کو “زندہ کتاب” بنا دیتا ہے۔

تربیتی سرگرمیاں (Practical Activities)

بچوں کی تربیت صرف سننے سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتی ہے۔کہانیوں کو سرگرمی میں تبدیل کریں:

کہانی تربیتی سرگرمی
حضرت یوسفؑ صدقہ کا دن” منائیں اور کسی ضرورت مند کی مدد کریں۔
حضرت ابراہیمؑ قربانی اور شکرگزاری” پر ایک فیملی ڈسکشن رکھیں۔
حضرت موسیٰؑ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے” پر ڈرامہ یا رول پلے کروائیں۔
حضرت لقمانؑ بچوں سے “اپنی نصیحت” لکھوائیں جو وہ چھوٹے بہن بھائیوں کو دینا چاہیں۔

یہ سرگرمیاں قرآن کو عملی زندگی کا حصہ بنا دیتی ہیں۔

10۔ قرآنی کہانیوں کے ذریعے روحانی تعلق مضبوط کریں

قرآنی کہانیوں کا سب سے بڑا مقصد ہے کہ بچہ اللہ سے تعلق محسوس کرے۔جب وہ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی، حضرت یوسفؑ کی آزمائش یا حضرت نوحؑ کا صبر سنتا ہے، تو وہ سیکھتا ہے کہ:

اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ احساس ایمان کی جڑ بناتا ہے۔
بچوں سے بار بار یہ جملہ دہرائیں:اللہ نے یوسفؑ کو بچایا، اللہ تمہاری بھی مدد کرے گا اگر تم سچے رہو۔

11۔ والدین کے لیے تجاویز

قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت کے لیے والدین درج ذیل نکات یاد رکھیں:

  • ہر ہفتے ایک قرآنی کہانی منتخب کریں۔
  • کہانی کے آخر میں 3 سوال لازمی کریں۔
  • سبق کو روزمرہ زندگی سے جوڑیں۔
  • بچے کی تعریف کریں جب وہ کہانی پر عمل کرے۔
  • کہانی کے ساتھ دعا سکھائیں۔
  • رات کے وقت کہانی سنانے کی عادت ڈالیں۔
  • کہانیوں کو گھر میں گفتگو کا حصہ بنائیں۔

یہ چھوٹے قدم بچے کے دل میں ایمانی روشنی پیدا کرتے ہیں۔

12۔ اساتذہ کے لیے رہنمائی

اساتذہ کے لیے یہ موضوع ایک تربیتی خزانہ ہے۔قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیت اسکول کے نصاب کا حصہ بنائیں:

  • “Story Hour” میں ہر ہفتے ایک قرآنی کہانی سنائیں۔
  • سبق کے آخر میں “Moral of the Week” بورڈ پر لکھیں۔
  • بچوں سے کہانی کا ڈرامہ یا آرٹ ورک کروائیں۔
  • کہانیوں پر کوئز رکھیں تاکہ سیکھنے کا جذبہ بڑھے۔

قرآن کی تعلیم جب تخلیقی انداز میں دی جائے تو دل اور دماغ دونوں متاثر ہوتے ہیں۔

خلاصہ۔

آخر میں یاد رکھیں،قرآنی قصص اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کی تربیہ کا اصل مقصد صرف علم دینا نہیں بلکہ ایمان، عمل اور کردار کی تکمیل ہے۔جب بچے قرآنی کرداروں سے محبت کرنے لگیں، ان جیسا بننے کی خواہش کریں، تو یہی وہ لمحہ ہے جب تربیت کامیاب ہو جاتی ہے۔ بچوں کو قرآن کی کہانیاں سنائیے۔ انہیں زندگی میں زندہ کیجیے۔ اور اپنے بچوں کو قرآنی کرداروں کا وارث بنائیے ۔یہی اصل اسلامی تربیہ ہے۔

Check Also

Altaf

چترال کے قابل فخر فرزند ڈاکٹر الطاف الرحمن اخون

تحریر: محمد الیاس جیلانی الطاف الرحمان حافظ۔ قاری۔ فاضل درس نظامی  اور تخصص کے علمی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے