ضیاء چترالی
قبلہ اول
یہودی قدامت پسند پارٹی اسرائیل میں برسر اقتدار
نیتھن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی انتہائی قدامت پسند حکومت نے حلف اٹھا لیا ہے۔ برسر اقتدار اتحاد چونسٹھ ارکان پر مشتمل ہے، جن میں بتیس یہودی ربائی (مذہبی رہنما) اور دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت مظلوم فلسطینیوں پر کیسا ہوگا۔ گو کہ اسرائیل کی لبرل کہلانے والی حکومتوں میں بھی اہل قدس پر مظالم میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ لیکن موجودہ حکومت کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس میں ایک ایسا شخص بھی کابینہ کا حصہ ہے اور داخلی سلامتی کی وزارت کا قلمدان اس کے سپرد ہے، جس پر خود اسرائیلی رہنمائوں کے قتل کا الزام ہے۔
عزم یہود نامی پارٹی کا سربراہ قومی سلامتی کا انچارج بنا دیا گیا ہے
اتمار بن گوو ایک انتہا پسند شخص ہے۔ جو حکومتی اتحاد میں شامل عزمِ یہود پارٹی کا سربراہ ہے۔ اس کے لئے خاص طور پر ایک نئی وزارت ’’قومی یا داخلی سلامتی‘‘ کے نام سے بنائی گئی۔ پولیس اور ملک کے خفیہ ادارے وزیرِ قومی سلامتی کے ماتحت کر دیئے گئے ہیں۔ نفرت انگیز تقریر کے الزام میں کئی بار اتمار کے خلاف پرچے کٹ چکے ہیں۔ اس نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی، جس کے ایک ہفتے بعد رابن قتل کردیئے گئے۔ اتمار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈ اسٹائین کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈ اسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے انتیس مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔
قبلہ اول
اتمار بن گوو انتہا پسند یہودی ہے، اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہونے کا قائل ہے
اتمار کھلے عام کہتا ہے کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔ اتمار مسجدِ اقصیٰ کو تمام مذاہب والوں کے لئے کھولنا چاہتا ہے، حالانکہ معاہدے کی رو سے الحرم الشریف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور حرمِ کعبہ اور مسجد نبویؐ کی طرح یہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع اور عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہے۔ اتمار ماضی میں انتہا پسندوں کے ان جلوسوں کی قیادت کر چکا ہے، جنہوں نے الحرم الشریف میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں وہاں خونریز تصادم ہوئے۔ پولیس اسے مسجد اقصیٰ کے گرد اشتعال انگیز مظاہروں کی سرپرستی پر کئی بار ملزم نامزد کر چکی ہے۔ اب حکومت سنبھالتے ہی اس نے اشتعال انگیزی کا آغاز کر دیا ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں اقوام متحدہ میں بیت المقدس کے احترام کی تحریری ضمانت جمع کرائی ہے
منگل کو وزیر موصوف نے مشرقی بیت المقدس کا دورہ کیا۔ یہی مسلمانوں کا قبلہ اول اور حرمین شریفین کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ بیت المقدس پر 1967 میں قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس کے احترام کی تحریری ضمانت القدس الشریف اوقاف اور اقوام متحدہ کو تحریری شکل میں جمع کرائی ہے، جس کے مطابق القدس الشریف میں غیر مسلموں کا داخلہ صرف مخصوص اوقات میں ہوگا۔ غیر مسلم زائرین کی تعداد دو درجن سے کم ہوگی اور یہ افراد محدود وقت تک کمپائونڈ میں رہیں گے۔ غیر مسلم زائرین کو کمپائونڈ میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی۔ القدس الشریف میں کسی قسم کا اسلحہ نہیں لایا جائے گا۔
قبلہ اول
متصعب یہودی وزیر نے منگل کو بیت المقدس کے دورے کے بعد زہر آلود ٹوئٹ کیا
بیت المقدس کا دیوار گریہ والا مغربی حصہ یہودیوں کے لئے مخصوص ہے۔ اگرچہ اس بار مذکورہ وزیر زائرین کے لیے مخصوص وقت کے دوران کمپائونڈ میں آیا اور اس کے ساتھ آنے والے محافظ بھی غیر مسلح تھے، لیکن واپسی میں اس نے ایک تکبر آمیز ٹویٹ میں کہا کہ ’’ٹیمپل ماؤنٹ یعنی القدس الشریف سب کے لیے کھلا ہے اور اگر فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دھمکی دے کر مجھے روک دیں گے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ وقت بدل چکا ہے۔‘‘ یہ ٹیوئٹ نہیں، بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ تھا۔ اس لئے مسلم ممالک پر مسلط نام نہاد حکمرانوں نے ’’سخت ترین‘‘ ردعمل کا اظہار کیا اور اسرائیلی وزیر کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی اس بے حرمتی کی شدید مذمت کی۔ ظاہر ہے غیرت و حمیت سے عاری یہ طبقہ ’’مذمت‘‘ کے علاوہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اس لئے کہ ان سب کو اسرائیل کے سرپرست امریکا نے ہی اقتدار پر بٹھایا ہے۔ اگر وہ نہ چاہے تو ان کا اقتدار چند منٹ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔
امت مسلمہ کے دلی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنے والا اس وقت دنیا میں ایک بھی ملک یا حکمراں نہیں ہے۔ یہ حقیقت اسرائیل کو بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ اس لئے ایک طرف وہ فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے تو دوسری طرف مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔
قبلہ اول
ہیکل سلیمانی کی تعمیر صہیونی خواب ہے جس کے لئے مسلمانوں کو جانچا جا رہا ہے
واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر صہیونیوں کا دیرینہ خواب ہے۔ وہ بے حرمتی کے پے درپے واقعات سے اہل اسلام کو جانچنا اور ان کے دلوں سے اس مقدس مسجد کا مقام کم کرنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی تنظیموں نے عرب اور مسلم اقوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ اور یروشلم کے تحفظ کے لیے مالی امداد سمیت ہر ممکنہ طریقے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ غزہ میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا گیا کہ قبلہ اول کی حفاظت کے لئے عوامی سطح پر بھی جذبات کا اظہار ہونا چاہئے۔ فلسطینی اسکالرز کی انجمن کے رکن اور ممبر پارلیمنٹ مشیر المصری نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے کسی بھی اقدام پر فلسطینی عوام اسرائیلی فوجیوں اور یہودی آباد کاروں کے قبرستان بسا دیں گے۔ ہم ایسے شیطانی منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب فلسطین کے نہتے مسلمان ہی قبلہ اول کے لئے پہلا اور آخری حصار ہیں۔ اس لئے صہیونی درندے انہیں دیوار سے لگانے میں مصروف ہیں۔ عملی طور پر دنیا کے تمام مسلمانوں نے اپنے قبلہ اول کو بھلا دیا ہے۔ کاش کہ امت مسلمہ میں کوئی اور صلاح الدین ایوبی پیدا ہوتا۔ مسجد اقصیٰ اسی کی راہ تک رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئیے
کلیسا مسجد میں تبدیل ، پادری نے بھی جمعہ ادا کیا