عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات کا اہم معرکہ سر کرلیا ہے، بیس حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو پندرہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ پنجاب اور وفاق میں حکومت کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن صرف چار نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ ایک حلقے میں آزاد امیدوار کامیاب ہوا ہے ۔
20 حلقوں کے نتائج پر ایک نظر
اب تک جو غیر سرکاری نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق پی پی 7 راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ صغیر نے کامیابی اپنے نام کی ہے،راجہ صغیر نے 79 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے ہیں ،اس حلقے میں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی جس کے امیدوار محمد شبیر اعوان کو 68 ہزار ووٹ پڑے۔
پی پی 83 خوشاب سے پی ٹی آئی کے امیدوار ملک حسن اسلم خان نے کامیابی حاصل کی ہے انہوں نے 49 ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ آزاد امیدوار محمد آصف ملک 42 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے ہیں ۔
پی پی 90بھکر کا معرکہ بھی پی ٹی آئی کے نام رہا ، یہاں سے عرفان اللہ خان نیازی نے 79 ہزار ووٹ لے کر نون لیگ کے سعید اکبر خان کو شکست سے دوچار کیا ، نون لیگی امیدوار 78 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا ۔
پی پی 97 فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے امیدوار علی افضل ساہی کامیاب ٹھہرے جنہوں نے 67 ہزار ووٹ لئے ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد اجمل نے 55 ہزار ووٹ حاصل کئے اور دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 125جھنگ کی بازی بھی تحریک انصاف نے جیت لی یہاں سے میاں محمد اعظم نے 83 ہزار ووٹ لئے اور بھاری مارجن سے کامیابی اپنے نام کی، نون لیگ کا امیدوار فیصل صالح حیات صرف 52 ہزار ووٹ لے سکا۔
جھنگ ہی کے پی پی 127 سے تحریک انصاف کے امیدوار مہر محمد نواز نے تقریباً 24 ہزار کے مارجن سے کامیابی حاصل کی ان کو پڑنے والے ووٹوں کی تعداد 72 ہزار رہی ان کے مقابلے میں نون لیگ کے مہر محمد اسلم 48ہزار ووٹ لینے میں کامیاب رہے ۔
پی پی 144 شیخو پورہ سے تحریک انصاف کے نامزد امیدوار خرم شہزاد نے 50 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں خالد محمود نے اس حلقے سے 33 ہزار ووٹ حاصل کئے اور دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 158 لاہور سے تحریک انصاف کے میاں محمد اکرم کامیاب ہوئے جنہوں نے 37 ہزار ووٹ حاصل کئے ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار رانا حسن 32 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 167 لاہور کا معرکہ بھی پی ٹی آئی نے سر کیا ،یہاں سے شبیر احمد گجر نے 40 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار نذیر احمد چوہان 27 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے۔
پی پی 168 لاہور سے مسلم لیگ ن فتح یاب رہی ،یہاں سے اس کے نامزد امیدوار ملک اسد علی کھوکر نے 26 ہزار ووٹ لے کر کامیابی اپنے نام کی جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار ملک نواز اعوان 16 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے ۔
۔پی پی 170 لاہور سے پی ٹی آئی کے ملک ظہیر عباس 24 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے جبکہ نون لیگ کے محمد امین ذوالقرنین 17 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ائے۔
پی پی 202 ساہیوال سے پی ٹی آئی کے میجر (ر) غلام سرور نے 62 ہزار ووٹ لئے اور کامیابی اپنے نام کی یہاں سے نون لیگ کے امیدوار ملک نعمان لنگڑیال 59 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 217 ملتان سے پی ٹی آئی کے زین قریشی نے 47 ہزار ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن کے سلمان نعیم 40 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 224 لودھراں سے تحریک انصاف کے امیدوار محمد عامر اقبال 70 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے جبکہ نون لیگ کے زوار حسین 56 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے ۔
پی پی 226 لودھراں سے آزاد امیدوار سید رفیع الدین کامیاب ہوئے جنہوں نے 45 ہزار ووٹ لئے جبک پی ٹی آئی کے عزت جاوید خان 38 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 237 بہاول نگر سے نون لیگ کے فدا حسین نے کامیابی اپنے نام کی جنہوں نے 75 ہزار ووٹ لئے جبکہ تحریک انصاف کے آفتاب رضا 30 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے ۔
پی پی 272 مظفر گڑھ سے تحریک انصاف کے معظم علی خان 46 ہزار ووٹوں کے ساتھ کامیاب ٹھہرے یہاں سے نون لیگ کی زہرا باسط بخاری 36 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہی ۔
پی پی 273 مظفر گڑھ سے نون لیگ کے محمد سبطین رضا نے 53 ہزار ووٹ لے کر کامیابی اپنے نام کی جبکہ تحریک انصاف کے یاسر عرفات خان 47 ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے ۔
نون لیگ کی شکست کے اسباب
ضمنی انتخابات میں نون لیگ کی شکست خلاف توقع ہے کیونکہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے پہلے مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے مقبول سیاسی جماعت تھی ، یہاں تک کہا جاتا تھا کہ عام انتخابات میں نون لیگ پنجاب سے کلین سوئپ کرے گی۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کو وفاق اور صوبے میں حکم ران ہونے کا فائدہ بھی ملنا چاہیے تھا کیونکہ حکم ران جماعت الیکشن کے موقع پر ووٹرز کو مختلف پیکجز کے ذریعے اپنی طرف مائل کرتی ہے لیکن یہاں سب کچھ الٹ ہوگیا ۔ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار نون لیگ کی اس شکست کے کچھ بنیادی اسباب بیان کر رہے ہیں ۔
عمران خان حکومت کی غلطیاں اپنے سر لینا
مسلم لیگ ن ایک ایسے وقت میں عمران خان کی حکومت گرانے کی مہم کا حصہ بنی جب وہ اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے عوام میں جانے کی قابل نہیں رہی تھی ملک میں مہنگائی کا طوفان تھا ،ترقیاتی کام کہیں نظر نہیں آ رہے تھے ، ملک بھر میں عوامی سہولیات ناپید تھیں ،ناقص طرزِ حکم رانی اور بزدار ماڈلز کے چرچے تھے، اس وقت پی ٹی آئی کے بہت سے حمایتی بھی عمران خان کے خلاف ہوچکے تھے ایسے میں نون لیگ نے فرنٹ سے اتحادی حکومت کو لیڈ کیا ،عوام پر پے در پے پٹرول بم گرائے ، تیل کی مصنوعات پر سبسڈیز واپس لے لیں ، اپنے تئیں ملک بچانے کے لئے ایسے سخت فیصلے کئے جن کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں اور عمران خان کو مہنگائی پر کوسنے والے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ان سے تو خان پھر بھی اچھا تھا ۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ ان سخت فیصلوں سے ملک کو معاشی طور پر فائدہ ہوا کہ نہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان فیصلوں نے عوام کو نون لیگ سے دور اور عمران خان سے پھر سے قریب کر دیا جس کا مظاہرہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بھی نظر آیا۔
حد سے زیادہ پر اعتمادی
نون لیگ کی ناکامی کی ایک وجہ اس کا حد سے زیادہ اعتماد بھی ہے ، نون لیگ کے لیڈر خوش فہمی میں تھے کہ وہ پنجاب میں بہت مقبول ہیں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بیس کی بیس سیٹیں جیتیں گے کچھ اس سے تھوڑا نیچے آکر سترہ اور پندرہ سیٹوں کی بات کر رہے تھے۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے نون لیگ کو سہی معنوں میں انتخابی مہم چلانے بھی نہیں دیا۔ نون لیگ کے چوٹی کے رہنما انتخابی مہم میں کہیں نظر نہیں آئے الیکشن کمپین کا سارا بوجھ مریم نواز کے زنانہ کندھوں پر تھا۔ الیکشن والے دن بھی تحریک انصاف کے چوٹی کے رہنما مختلف پولنگ بوتھز کا دورہ کرتے دکھائی دئے لیکن نون لیگ کا کوئی بڑا رہنما کہیں نظر نہیں آیا ۔
منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا
نون لیگ نے بیس نشستوں پر ضمنی انتخاب کے لئے ان لوگوں کو ٹکٹ دینے تھے جو پی ٹی آئی سے منحرف ہو کر نون لیگ میں آئے تھے ، پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر کروانے میں بھی انہی لوگوں کا ہاتھ تھا ۔ نون لیگ چونکہ ان لوگوں کے ساتھ معاہدہ کر چکی تھی کہ انہیں ٹکٹ دیا جائے گا اس لئے ان کو ٹکٹ دینا پڑا ۔اس فیصلے نے نون لیگ کو دو طرح کا نقصان پہنچایا ،ایک یہ کہ اس کے اپنے نظریاتی کارکن بد دل ہوگئے جو لوگ ٹکٹ کے اصل حق دار تھے انہوں نے اپنے حلقے میں دل چسپی اور محنت سے انتخابی مہم نہیں چلائی جس کے نتیجے میں نون لیگ کا اچھا خاصا ووٹر الیکشن والے ووٹ دینے گھروں سے نہیں نکلا ۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف اور اس کے ووٹرز نے منحرف ارکان کو سبق سکھانے کے لئے حد سے زیادہ محنت کی ان کے خلاف عوامی نفرت بھڑکائی جس کے نتیجے میں ووٹرز نے جوش اور ولولے کے ساتھ ووٹ ڈالا۔
بیانئے کی تبدیلی
نون لیگ کی شکست کا ایک اہم سبب بیانیہ بھی بنا، نون لیگ نے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کی وجہ سے پنجاب میں پہلے سے زیادہ مقبولیت حاصل کی تھی یہ اصل میں نواز شریف ،مریم نواز اور ہم خیال گروپ کا بیانیہ تھا ، مسلم لیگ کی اسٹبلشمنٹ سے غیر اعلانیہ اور غیر مشروط مصالحت کے بعد یہ بیانیہ تقریباً دم توڑ گیا ، نون لیگ کا یہ عوامی بیانیہ عمران خان نے ان سے گویا چھین لیا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ نون لیگ کا بیانیہ ہی تحریک انصاف کو منتقل نہیں ہوا بلکہ اس کا اچھا خاصا ووٹ بینک بھی پی ٹی آئی کو منتقل ہوا ۔
اسٹبلشمنٹ پر حد سے زیادہ اعتماد
ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن نے اسٹبلشمنٹ پر غیر ضروری انحصار کیا حالانکہ اسٹبلشمنٹ مستقل طور پر کسی کی نہیں ہوتی وہ صرف اپنی ترجیحات اور مفادات کو دیکھتی ہے جو اسٹبلشمنٹ 2018 کے ہنگامہ خیز حالات کے بعد دوبارہ نون لیگ سے پینگیں بڑھا سکتی ہے وہ عمران خان کے لئے کوئی دروازہ کیوں نہیں کھلا رکھ سکتی ۔نون لیگ کی حد سے زیادہ پر اعتمادی اور پھس پھسی الیکشن مہم کی ایک وجہ اسٹبلشمنٹ پر حد سے زیادہ بھروسا بھی تھا ۔
سازشی بیانیے کے خلاف کم زور حکمت عملی
نون لیگ اور پی ڈی ایم نے عمران خان کے سازشی بیانیے کو بے اثر کرنے کے لئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی پاکستان میں بھارت اور انڈیا مخالف بیانیہ سب مقبول بیانیہ ہوتا ہے اس بیانیے کو جو بھی لے کر اٹھے عوام اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔عمران خان نے حکومت سے اپنی بے دخلی کو امریکی سازش قرار دیا اپنے جلسوں اور سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کی جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے علاوہ عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد ان کی ہم نوا ہوگئی ۔ نون لیگ اور اس کے اتحادی اس بیانیے کے خلاف موثر حکمت عملی نہ بنا سکے ، صرف آئی ایس پی آر کی وضاحتوں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر بیانیے کو غلط اور جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ خان صاحب اس معاملے میں ان اداروں کو بھی عوام کی نظروں میں مشکوک بنا چکے تھے ۔ عمران خان کا سازشی بیانیہ عوامی حلقوں میں خوب بکا اور بلا روک ٹوک بکا جس کا خمیازہ نون لیگ اور اپوزیشن کو حالیہ ضمنی الیکشن میں بھگتنا پڑا ۔
بعض مبصرین کا خدشہ
بعض مبصرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا جس کا مقصد خان کو اگلے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت دلوانا اور ان کے ذریعے ملکی سیاسی نظام میں تبدیلی لانا ہے ۔ عمران خان کی پونے چار سالہ کارکردگی ایسی نہیں تھی جس کی بنیاد پر وہ اگلے انتخابات جیت سکتے اس لئے ان کی خراب کارکردگی کا طوق ایک منصوبہ بندی کے تحت نون لیگ کے گلے میں ڈال دیا گیا جو پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت تھی ،یہ حکمت عملی بہت کامیاب رہی چند ماہ قبل جو جماعت عوامی غیض و غضب کا نشانہ تھی وہ مظلوم بنا دی گئی عمران خان کو زیرو سے ہیرو بنا دیا گیا اور ان کے سیاسی مخالفین سے ایسے فیصلے کروائے گئے کہ وہ عوامی عتاب کی زد میں آگئے۔ شاید اسی وجہ سے مسلم لیگ ن کے کچھ رہنما یہ کہہ رہے ہیں ہم نے ریاست کے لئے اپنی سیاست قربان کر دی ، ہوسکتا ہے یہ قربانی ضمنی انتخابات تک ہی محدود نہ رہے بلکہ دہائیوں پر محیط ہو جائے ۔
زبردست تجزیہ و تحریر