شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور سانحہ کربلا

محمد راشد حسین رضوی

دین اسلام کا دامن شہادتوں سے بھرا ہوا ہے جس میں سب سے بڑی شہادت  میدان کربلا میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کی شہادت ہے کربلا کے اس سانحہ نے دین  اسلام کے شیدائیوں میں شہادت کی نئی روح پھونک دی ان اسلام کے جانبازسپاہیوں نے  نے جب بھی اسلام پر کڑا وقت آیا اعلا کلمۃ الحق کی سر بلندی کے لیے اپنی شہادت کے نذرانے  پیش کئے۔  شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس سلسلےمیں تاریخ کی عظیم ترین شہادت  ہے۔ جب کربلا کا میدان سجاہوا تھا اور جانثاران امام حسین رضی اللہ عنہ ایک ایک کرکے پروانہ وار دین اسلام کی سربلندی کی خاطر شہادتوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔  ان میں زیادہ تر خاندان نبوت کے افراد  شامل تھے ۔ دین اسلام کی خاطر عظٰم شہادتوں اور قربانیوں کی لازوال داستان جس واقعہ نے زندہ رکھا وہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ ہے ۔

فضائل و مناقب امام حسین 

حضور ﷺ نے فرمایا کہ حسن و حسین  جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ اور مزید فرمایا کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں توبھی ان سے محبت فرما۔ اور  جوان سے محبت کرے ان سے بھی محبت فرما۔ ایک موقع پر فرمایا میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے۔ حضور ﷺ ا یک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں کہ حسن اور حسین میرے دو پھول ہیں ۔

کرے جو کوئی ہمسری کسی کی کیا مجال ہے

حسین ہر لحاظ سے جہاں میں بے مثال ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  میں نے کربلا والے روز خواب میں حضور ﷺ کی زیارت کی۔  حضور ﷺ کا چہرہ مبارک گرد آلود تھا  اور ہاتھ میں ایک شیشی تھی، میں نے جب پوچھا کہ یہ کیا ہے؟  تو فرمایا کہ میں صبح سے شہدائے کربلا اور حسین کا خون اکٹھا کر رہا ہوں۔

مسند احمد بن حنبل  میں حدیث  ہے کہ  حضور ﷺ  حضرت حسین کو ہاتھوں میں اٹھائے رورہے تھے،  حضرت  علی رضی اللہ عنہ آئےا ور رونے کا سبب پوچھا۔ تو حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امت میرے حسین کو دریائے فرآت کے کنارے کربلا میں بھوکا پیاسا شہید کرے گی۔  شہادت امام حسین کی یہ خبریں امام  حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں ہی دی چکی تھیں ۔

دین اسلام اور شہادت امام حسین

شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے دین اسلام کو سر بلندی اورحیات جادوانی عطا کی۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ نے حق و باطل  کے درمیان  فرق کو ساری دنیا کے سامنے واضح کردیا۔  شہادت امام حسین مثال بن گئی ہے رہتی دنیا تک کے ان فرزندان توحید کے لیے جو دشت و صحراؤں میں آج بھی  کلمتہ الحق کی سربلندی کے لیے باطل سے برسرپیکار ہیں آج باطل کے کے ایواں بھی لرز جاتے ہیں جب کہیں سے صدائے حسینی سنائی دے

شاہ است حسین بادشاہ است حسین

دین است حسین دین پناہ است حسین

سر داد نہ داد دست در دست یزید

حقا کی بنا لا الہ است حسین

شہادت حسین کا پیغام یہی ہے کہ  اگر امن چاہتے ہو تو باطل کو کچل دو۔ اسکے سامنے جھکنے کے بجائے اس سے لڑو۔ اورا پنا تن من دھن قربان کردو۔

مکے میں قیام اور کوفیوں کےخطوط

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پیشہ خیمہ کوفے سے آنے والے پے درپے آنےوالے وہ خطوط تھے۔  جن میں کوفیوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے تعاون کا مکمل یقین دلایا تھا۔  اور کوفیوں نے امام کو مخاطب کرکے لکھا تھا کہ اگر آج آپ نے ہماری مدد نہ کی تو ہم کل قیامت  کو رب اور حضور ﷺ سے آپ کی شکایت کرینگے ۔ایسے مضامین پر مشتمل لگ بھگ 900 خطوط امام حسین  کو موصول ہوئے۔ قیام مکہ کے دوران  درجنوں کوفی زعماء نے امام حسین رضیاللہ تعالی عنہ کیں اوراپنی وفاداری کا یقین دلایا ۔

جن کو دھوکے سے کوفہ بلایا  گیا

جن کو بیٹھے بٹھائے ستایا گیا

جن کی گردن پر خنجر چلایا گیا

اس حسین ابن حیدر پر لاکھوں سلام

کوفے کی طرف روانگی

امام  حسین کوفے کی جانب  بہتتر اصحاب کے ساتھ عازم سفر ہوتے ہیں جن میں بچے بوڑھے اورخواتین بھی شامل تھیں۔  امام حسین کو یقین ہے کہ  اب رب کے حضور وہ قربانی پیش کرنی ہے جس کی ابتداء حضرت اسماعیل ؑ سے ہوئ تھی۔ اور انتہاء شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر ہونی ہے۔

غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم

ابتداء ہے اس کی اسمعیل انتہا ہے حسین

اپنی جان اور کنبے کی پرواہ کیے بغیر  حضرت امام حسین کوفے کی جانب چلتے ہیں ۔تاکہ اپنے خالق کے حضور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنی جان کا نزرانہ پیش کرسکیں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا قافلہ کوفے کی جانب بڑھتا چلا جارہا ہے اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کییہ حالت ہے کہ

شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن

نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

یہی وجہ تھ ی کہ شہادت کی خاطر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے نہ صرف اپنی جان کی قربانی دی بلکہ اپنے چھہ ماہ کے چھوٹے علی اصغر کو بھی دین کی راہ میں قربان کردیاجواں سال بیٹے علی اکبر کو بھی دین کی راہ میں قربان کردیا  امام شہید کے مقام ومرتبے سے آگاہ تھےاسی لئے اپنے اہل وعیال کے ساتھ بڑی شان وشوکت سے شہادت کی جانب بڑھے چلے جارہے تھے

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

راستے میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر مل جاتی ہے کہ ان کےقاصد امام مسلم کو شہید کردیا گیا ہے اور کوفی عہد سے پھر چکے ہیں مگر شہادت کی تمنا ء امام حسین رضی اللہ عنہ کے دل میں مچلتی ہے اور وہ واپس لوٹنا گوارا نہیں کرتے۔ امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ جانتے ہیں کہ شہادت امام حسین ہی  بالاخر مرگ یزید کا پیش خیمہ بنے گی۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

شہادت امام حسین رضی اللہ کے لمحات قریب آتے جا رہے ہیں۔ کربلا میں  سات محرم کو ساقی  کؤثر کےخانوادے پر یزیدی فوجیں پانی کو بند کردیتی ہیں۔ میداں کربلا میں نصب کئے گئے خیام حسینی  سے خواتین اور بچوں کی العطش العطش کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ٹھاٹھیں مارتا ہو فرات اور ساقی کوثرکے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر پانی کی بندش! ارض و سماء انگشت بدندان ہو کر یہ کربناک منظر دیکھ رہے ہیں ۔

حاکم کا حکم یہ ہے کہ پانی بشر پییں

گھوڑے پییں سوار پییں اور شتر پییں

جوتشنہ لب جان ہیں سب آکر پییں

حیواں پیئیں  چرند پیئیں جانور پیئیں

کافر طلب کیے تو تو منع نہ کیجیو

بس فاطمہ کے لال کو پانی  نہ دیجیو

یزیدی سپاہ کے سامنے حضرت امام حسین کا خطبہ

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی آخری وقت تک یہی کوشش رہی کہ ان کے ہاتھ کسی کے خون سے نہ رنگ جائئں۔ اتمام حجت کے طور پرامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فوج یزید کے سامنے کئی خطبے دیے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟  میں نے کسی کو قتل کیا ہے یا میں نے کسی کو لوٹا ہے یا میں نے کسی کو زخم لگایا ہے؟

شہادت  حسین  سے قبل حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اتمام حجت کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کیں۔ یزیدی فوج کے سپہ سالاروں کو وہ خطوط بھی دکھائے جو انہی کی فوج میں موجود  سپاہیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو آنے کے لیے لکھے تھے۔ اور اپنی مد د کا یقین دلایا تھا اب منظر یہ تھا کہ وہ لوگ مکر چکے تھے ان کی نگاہیں شرم سے جھک چکیں تھی۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولتے تھے ۔

جو کربلا میں شاہ شہیداں سے پھر گئے

کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھر گئے

شہادت سے قبل دیے گئے امام حسین کے خطبوں نے حر کے دل کی دنیا تبدیل کردی۔ وہ  کربلا میں یزیدی لشکر سے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگاکر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے  لشکر میں شامل ہو جاتاہے۔ گویا دوزخ سے نکل کر جنت کے جانب آجاتا ہے۔ غضب الہی سے نکل کر رحمت حق کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے ۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے  میدان کربلا میں یزید کی فوج کے سامنے ایک خطبہ بلیغ ارشاد فرمایا۔ فاطمہ کے لال حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پکارکر کہنے لگے۔ اے یزیدیو! میں نواسہ  رسول ﷺ ہوں۔ میں فاطمہ کا لخت جگر ہوں۔ میں علی کا نور نظر ہوں۔ میں تمہارا وہ امام ہوں جس پر تم درود پڑھ کر اپنی نمازیں مقبول کراتے ہو۔

  دیکھو میری طرف دیکھو! میں رسول کے کاندھوں پر سوار ہوتا تھا۔ رسولﷺ مجھے اپنے پہلووں میں سلایا کرتے تھے۔ مجھے اپنی پشت پر سوار کرتے تھے۔ مجھے اپنی چادر میں لےلیا کرتے تھے۔ میرے لیے اپنے سجدوں کو طول دیتے  تھے۔  تم آخر کیونکر اپنے ہاتھوں کو میرے خون سے رنگین کرنا چاہتے ہو؟ اور آخر ت کا عذاب اکھٹا کرنا چاہتے ہو؟

سنو میں نے اپنے نانا جان سے سنا۔  امام الانبیاء فرماتے ہیں، کہ جس نے ظالم بادشاہ کا زمانہ پایا  جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال قرار دیتا ہو۔ کلمہ پڑھنے کے بعد جس نے اللہ سے کیے گئے عہدو پیمان کو توڑ دیا ہو۔  سنت رسولﷺ کی مخالفت کرتا ہو۔ رعایا میں ظلم و زیادتی اور گناہ کو رواج دے رہا ہو اس وقت جو آدمی بھ طاقت رکھتا ہو۔

اور وہ  اپنے ہاتھ اور زبان کے ذریعے اس کا راستہ نہ روکے اور خاموش تماشائی بنا رہے تو اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ وہ ظالم کے ساتھ خاموش رہنے والوں کو بھی عذاب دے۔

 

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میرے نانا کے دین کو پامال کیا جا رہا ہے۔ فرائض و سنت اور اسلام کے اقدار کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔  رسول اللہ ﷺ کے وارث ہونے کے ناطے میرا یہ فرض ہے۔ کہ میں ان خرافات کو روکوں۔  لیکن یزید ی فوج پر قتل حسین کا جنون ۔سوار تھا۔

انکے ہاتھوں سے لٹی باغ رسالت کی بہار

جو  نمازوں میں پڑھتے رہے صلی علی

سانحہ کربلا کی شروعات-

میدان کربلا میں جنگ کی شروعات ہوتی ہے یزیدی فوج سے عمر بن سعد پہلا تیر امام حسین کے لشکر کی جانب چلاتا ہے۔ اور  لشکریوں سے کہتا ہے کہ گواہ رہنا کہ لشکر امام حسین کی جانب  پہلا تیر میں نے چلایا تھا۔ جنگ شروع ہوتی ہے اور شہادت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھی ایک ایک کرکے شمع امامت پر پروانہ وار قربان ہورہے ہیں اور اپنی شہادت کے نزرانے پیش کررہے ہیں۔ اور خلد کی نعمتیں اکٹھی کر رہے ہیں۔

امام حسین  رضی اللہ تعلی عنہ کے بھائی  امام  حسن کے بیٹے حضرت قاسم میدان کربلا میں جاتے ہیں اور دا د شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ خاندان نبوت کے چشم وچراغ ایک ایک کرکے توحید اور رسالت کی سربلندی کے لیے اپنی جانیں پیش کرتے اور شہادت سے سرفرازہوتے  ہیں۔ امام حسین رضیاللہ تعالی عنہ کی  فوج کے علمدار حضرت عباس پانی لینے چلے جاتے ہیں تو ان کے دونوں بازوں  قلم کردیے جاتے ہیں۔ ایک تیر آکر مشک میں آکر لگتا ہے اور پانی گر جاتا ہے خیمے کے بچے پانی  سے محروم ہوجاتے ہیں

سجاد یہ کہتے تھے معصوم سکینہ سے

عباس کے لاشے سے چپ چاپ گزر جانا

حضرت عباس کو شہید کردیا گیا  خانوادہ رسولﷺ کی شہادتیں پے درپے ہوتی چلی گئیں۔ حضرت  امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر انیس  سال کے جوان بیٹے حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ نبی  اکرم ﷺ کے ہم شکل تھے وہ بھی شہادت حاصل کرچکے تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ آواز لگاتے ہیں ہل من ناصر؟  چھہ ماہ کا علی اصغر اپنے جھولے میں بےچین اور بے تاب ہوجاتا ہے۔ اور تڑپنے لگتا ہے۔

امام حسین  رضی اللہ تعالی عنہ اسےلیکر یزیدی فوج کےسامنے میدان کربلا میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو تمہاری دشمنی مجھ سے ہے اس چھہ ماہ کے بچے کا کوئی قصور نہیں ہے تم اپنے ہاتھ سے دو گھونٹ پانی اس کے حلق میں ڈال دو۔ اچانک ایک تیر آتا ہے اور چھہ ماہ کے علی اصغر کے حلق سے پار ہوجاتا ہے۔  چھہ ماہ کا علی اصغر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھوں پر شہید ہوجاتا ہے۔

اب میدان کربلا کے آخری شہید بلکہ سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں آتے ہیں۔ اور یزیدی فوج کو کاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ یزیدی فوج بھیڑبکریوں کی طرح آگے بھاگتی چلی جا رہی ہے اور امام  حسین رضی اللہ تعالی عنہ پیچھے سے انکی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آؤ تین دن کے بھوکے پیاسے کی جنگ دیکھو۔  فاطمہ کے لال اور علی کے پسر کی جنگ دیکھو ۔

میدان دشتہ نینوا  الٹ نے فوج اشقیاء

بڑھا جو شاہ کربلا اٹھا کے تیغ  لا فتح

لگی جو سر اتارنے کہا یہ ذوالفقار نے

غضب کا سورما حسین ہے

شام کا دھند لکا چھانے لگا نماز کا وقت قریب تھا آج حسین نے اپنے خون  سے وضو کیا تھا امام نے نیت نماز کی اور نماز پڑھنے لگے شمر ملعون موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے اور   امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شجات بہادری جوان مردی کو دیکھتے ہوئے چیخ چیخ کر کہنے لگا کہ یہ علی کاخون ہے تم اس کا اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتے یہ موقع اچھا ہے سارے مل کر ایک ساتھ اس پر حملہ کرو اچانک دھاوا بول دیا گیا سینکڑوں نیزے تیر تلوار اور خنجرامام  حسین  رضی اللہ تعالی عنہ کے جسم کی جانب بڑھے اور بلا آخر کربلا میں امام  حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو دس محرم کو بھوکا اور پیاسا شہید کردیا گیا (انا الاللہ وانا الہ  راجعون)

خوشبوئے خلد دب گئی خاک شفاء کے بعد

جنت کا نام آنے لگا کربلا کے بعد

بعد از حسین اور نہ کوئی حسین ہے

نہ اور کوئی کربلا اس کربلا کے بعد

ہوتا اگر حسین بھی دنیا میں دوسرا

پھر اور ہوتی کربلا اس کربلا کے بعد

ازخود غلط ہے حضرت جوہر کا یہ کہا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تسلیم روح جوہر مرحوم یہ کرے

اسلام زندہ ہو چکا بس کربلا کے بعد

سانحہ کربلا کے بعدکے واقعات

اس سانحہ کربلا کے بعد کے واقعات بتانے سے انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے خیام حسینی کو آگ لگا دی گئی اور یزیدی فوج کے بدمعاش غنڈے آگ لگا کر قہقہے لگاتے رہےتھے اور خیام حسینی میں موجود مستورات اور بچے اپنی جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے شمر ملعون نے امام عالی مقام کی زلفوں مین انگلیاں پھنسائیں اور پے درپے خنجر کے تیرہ وار کئے سر حسین جسد اقدس سے علیحدہ ہو گیا معصوم سکینہ پاس کھڑی یہ منظر دیکھتی اور چلاتی رہی نہ مار میرے با با کو نہ مار  نہ مار میرے با با کو نہ مار اس معصوم کو پتا ہی نہیں تھا کہ اس کا با با تو اسی دن مارا گیا تھا جب وہ کربلا کی جانب عازم سفر ہوا تھا  ۔ امام حسین جسد اقدس کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا گیا شہادت حسین کے بعد غریب حسین کی چیزیں لوٹنا شروع کیں کوئی امامہ لے گیا کسی نے ڈھاللے لی کوئی تلوار لے گیا ایک بدبخت نے انگلی سے انگوٹھی اتارنا چاہی وہ نہ اتری تو اس نے انگلی ایک پتھر پر رکھ کر اوپر خنجر رکھا اور دوسرے پتھر سے اوپر وار کرکے انگلی جسم مبارک سے علیحدہ کر کے لے گیا ۔مشرق کے گھوڑے مغرب اور مغرب کے مشرق کی جانب دوڑا دیئے گئے حسین ہل من ناصر کی صدائین لگاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے ۔گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندے گئے لاشے بے گور وکفن پڑے رہے نہ کسی نے صدائے آہ وزاری کی اور نہ ہی کوئی آنکھ اشک بار ہوئی سر اقدس کو نیزے پر چڑھا کر سانحہ کربلا کے بعد  دربار یزید میں پہنچایا گیا ہاتھ رسیوں سے بندھے مستورات خانوادہ رسولﷺ بھی شہداء کے نیزوں پر بلند سروں کے ساتھ درباریزید پہنچیں ۔فتح کے شادیانے بجائے گئے شام کے بازاروں سے جہاں لاکھوں اوباش اور بدمعاش تماشائیوں کا ہجوم موجود تھا وہاں سے خانوادہ رسول ﷺ کی ان مستورات کو جن کے سروں کو کبھی آسمان نے بھی نہ دیکھا تھا ننگے سر لے  جا کر گلیوں اور چوراہوں سے گھماتے پھراتے یزید کے دربار میں پہنچایا گیا ۔ شیخ الاسلام طاہر القادری لکھتے ہیں کہ شام کے بازاروں میں ذینب عالیہ نہیں محمد ﷺ کی پگ رل رہی تھی ۔جب سانحہ کربلا کے بعد شہداء کا یہ مختصر سا قافلہ یزید کے دربار پہنچا تو ایک کہرام مچ گیا باغی آگئے باغی آگئے نقارے بجائے گئے خوشی کے جشن منائے گئے  لوگوں کو بتایا گیا کے چند باغی تھے جنہوں نے حکومت وقت سے بغاوت کی تو ان کے سر کچل دیئے گئے ۔دربار یزید میں جب سر اقدس یزید کے سامنے پہنچا تو اس ملعوں کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جسے اس نے امام عالی مقام کے ہونٹوں پر مار کر کہا کہ کاش آج اگر میرے آباء واجداد زندہ ہوتے تو دیکھتے ہ مین نے کیسا بدر کا بدلہ لیا ایک صحابی رسولﷺ دربار میں موجود تھے انہوں نے یزید کو ڈانٹ کر کہا کہ او ملعوں چھڑی کو حسین کے ہونٹوں سے دور کر میں نے بارہا دیکھا کہ رسولﷺ ان مقدس ہونٹوں کو چوما کرتے تھے سانحہ کربلا کے بعد یہ واحد صحابی تھے جنہوں نے یزید کو لعن وطعن کیا باقی تو زبانوں پر تالے پڑ چکے تھے

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

کوئی رکا ہی نہیں حادثہ دیکھ کر

خانوادہ رسول ﷺ پر ثلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے گءے کہ الامان الحفیظ بے پالان کے اونٹوں پر بٹھا کر خانوادہ رسول پاک کی معصوم مستورات اور معصوم بچوں کو ہاتھ رسیوں سے باندھ کر یزید کے دربار میں پیش کیا گیا جہان ان پر مزید ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے دربار یزید میں رسیوں میں جکڑے خانوادہ اہل بیت کے افراد کو پیش کیا گیا سرعام امام حسین کے سر اقدس کو دربار یزید میں رکھ کر اس کی بے حرمتی کی گئی نبیﷺ کے اہل بیت جب یزید کے دربار میں پہنچے تو مستورات کے سر چادروں سے خالی تھے خانوادہ رسول ﷺ کے ان لوگوں کو قید کردیا گیا

البدایہ والنہایہ میں سانحہ کربلا کے حوالے سے  لکھا ہے کہ جس دن امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کربلا میں شہید کیا گیا اس دن آسمان پر خون سے یہ تحریر لکھی ہوئی تھی۔  کیا یہ وہ طبقہ جس نے حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا؟ اب بھی وہ  امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ  کے نانا کی شفاعت کی امید رکھتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں خدا کی قسم ان کی کوئی شفاعت کرنے والا نہ ہوگا۔ اور وہ عذاب میں داخل کیے جائنگے البدایہ والنہایہ۔

پیغام شہادت حسین

سانحہ کربلا میں شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ ثابت کیا کہ ہمیشہ حق کی سربلندی کے لیے لڑنا چاہیے۔ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام یہ ہے کہ باطل سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور حق ہمیشہ باطل پر غالب آکررہے گا۔سانحہ کربلا سے یہ واضح ہو گیا کہ اگر عالم کفر اپنا تمام زور بھی لگا لے تو وہ دین اسلام کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتا کیونکہ اس دیں کی سربلندی کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ہے اب وہ یہ کام اپنے برگزیدہ بندوں سے صبح قیامت تک لیتا رہے گا جب جب یزیدیت اپنے پر پھیلائے گی تب تک حسینی لشکر سامنے آتے رہیں گے اور پھر جان مال عزت وآبروکسی بھی چیز کی پرواہ کئے بغیر باطل کی قوتون سے ٹکرا کر انہیں پاش پاش کر ڈالیں گے  شہادت امام حسین کا پیغام یہی ہے کہ جب بات ہو دین اسلام کی سربلندی کی تو پھر کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرنی رب کی راہ میں قربان ہوجانا ہے اور پرچم اسلام کو سر بلند رکھنا ہے اور یہ سنت حسینی ہے

قربان ہوکے فاطمہ زہرا کے چین نے

دین خدا کی شان بڑھائی حسین نے

شہادت حسین کا پیغام ہے کہ ظلم کے مقابلے میں کبھی خاموش  نہ رہنا بلکہ ہمیشہ ظلم کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ دنیا کے امن کو تباہ نہ ہونے دو اور باطل کے سامنے کبھی نہ جھکو خواہ تمہاری تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو باطل کے مقابلے میں ہمیشہ نعرہ تکبیر بلند کرتے رہو ظلم پر خاموشی بھی ظلم ہے لہذا ظلم سے سمجھوتہ نہ کرنا

مرشد میں لڑ نہ سکا مگر چیختا رہا

خاموش رہ کے ظلم کا حامی نہیں بنا

مختصر واقعہ کربلا کو بھی پڑھیں

امام حسین کا مومنانہ کردار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top