دین اسلام میں عورت کا مقام

دین اسلام دین فطرت ہے جس نے عورت کو معاشرے میں جو عزت مقام  ومرتبہ دیا اس کی نظیرکسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی دین اسلام نہ صرف اپنے ماننے والوں بلکہ تمام  عالم کے انسانوں کے لئے باعث  رحمت ہے اسلام انسانوں  کو  دوسروں کے حقوق دینے کی بات کرتا ہے دین اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص نے دوسرے کا حق اسے دینا ہے شوہر نے عورت کا حق دینا ہے عورت نے شوہر کا حق دینا ہے۔

اولاد نے ماں باپ کا کو ان کا صحیح مقام اور حق دینا ہے ماں باپ نے اولاد کا حق دینا ہے اس طرح جب ہر کوئی حق دینے والا بن جائے گا تو کسی کو دوسرے سے اپنا حق لینے کے لئے تگ ودونہیں کرنی پڑے گی دین اسلام نے ہر شخص کے مقام کو واضح کر کے اسے اس کا مقام اور حق دینے کی بات کی لبکہ آج انسانی حقوق کے چیمپین یہ درس دے رہے ہیں کہ

تاریخ نے سکھایا ہے قوموں کو یہ سبق

حق مانگنا توہین ہے حق چھین لینا چاہیئے

دین اسلام کی یہ خوبی ہے کہ یہ صرف اپنے ماننے والوں کی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی با کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم ذکر حکیم نے پکار کر کہا

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ٘-ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(32)

ترجمہ: کنزالایمان

اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جِلالیا اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بے شک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں۔

اب اس سے بڑی انسانی حقوق کی بات کیا ہوسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے جو مقام عورت کو اس دنیا میں عطا فرمایا دنیا کا کوئی دوسرا مذہب اس کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا قبل از اسلام عورت کی تاریخ بڑی بھیانک اور وحشت ناک تھی 600سال قبل مسیح چائنا میں کنفیوشس مذہب کا فلسفہ ہے۔

وہ مذہب جو جا نوروں کو بھی  مشکلات اور پریشانی کا شکار ہوتا دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اس کی عورت کے بارے میں تعلیمات یہ ہیں کہ وہ ایام مخصوص میں نجس اور پلید ہو جاتی ہے وہ عورت کو ان ایام میں باورچی خانے جانے کی اجازت نہیں دیتا اس کی یہ تعلیم ہے کہ ان ایام میں عورت جو بھی کچھ بنائے وہ حرام اور نجس ہے ہندوستان کی سرزمیں جہاں سے اسلام پر یہ الزام لگایا جاتا ہے۔

کہ یہ نعوذباللہ وحشی مذہب ہے جس میں جانوروں کو بے دردی سے ذبح کردیا جاتا ہے وہیں عورت کو اس کے صحیح  مقام سے محروم کردیا گیا مر جانے والے شوہر کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی ستی بنا کر جلا دیا جاتا   اور سارے کھیل کو نام دیا جاتا پتی پتنی کی محبت کا نہ جانے یہ کوں سی محبت تھی۔

جس میں لاکھوں ستی تو ہو گئیں لیکن ستا آج تک کوئی نہ ہوا ہندوستان میں لاکھوں حوا کی بیٹیاں اس زمانے کی بنائی ہوئی ستی کی رسم کا شکار ہوتی رہیں لیکن جانوروں کے لئیے ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے ہندو پنڈتوں کو عورت کی اس بے بسی کا خیال نہ آیا وہاں بیوہ ہوجانے والی عورت کو بناؤ سنگھار کی اجازت نہ تھی اسے منحوس تصور کیا جاتا وہ کسی دوسرے کے بچے کو اپنی گود میں نہ اٹھا سکتی تھی۔

اور اسی طرح کی کئی دوسری خرافات تھیں جو ہندوستان کی اس  تہذیب کا حصہ تھیں اس روز روز کے جلنے سے بچنے کے لئے بے بس عورت ایک ہی روز جل کر مرجانے کو ترجیح دیتی اور شوہر کی میت کے جل کرستی ہو جاتی اور  موت کو گلے لگا لیتی یوں

وہ شوہر کی محبت میں زمانے کے دستور کے مطابق قربان ہوجاتی اس زبردستی کی محبت میں نہ جانے کتنی معصوم جانیں جل کر خاکستر ہوگئیں کچھ معلوم نہیں تہذیب نے اس  ستی ہو کر جل جانے کو کو محبت کانام دیا جبکہ یہ سراسر ظلم تھا بنت حوا پر تہذیب اور معاشرے کا جس ظلم پر کوئی آواز بلند نہ ہوئی ایران میں مذہب کمیونزم موجود تھا۔

مزدک وہ پہلا انسان تھا جس جے کمیونزم کی بنیاد ڈالی اس کا یہ فلسفہ تھا کہ دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں جو سارے بگاڑ اور مصیبتوں کا باعث ہیں اور وہ دو چیزیں ہیں عورت اور دولت یعنی زر اور زن ان دونوں کو آپس میں باہم برابر تقسیم کرلیا جائے تو دنیا کا بگاڑ اور مشکلات ومصیبتیں ختم ہو جائیں گی۔

بس اسی نظریئے کے تحت شہنشاہ نے اپنے حرم سے بھی پہرے اٹھوادیئے تاکہ جو چاہے حرم سے لطف واندوز اور آسودہ ہوتا پھرے کوئی پابندی یا قدغن نہٰیں تھی عورت کو اس کا صحیح مقام یہاں بھی نہ مل سکا بلکہ اس کی تذلیل کے نئے نئے پہلو تلاش کر لئے گئےپھر اس ننگ وعار تہذیب نے عورت کو بیچ چوراہے کھڑا کر کے اسے برہنہ کردیا اور فلسفہ یہ دیا گیا اس بہتی گنگا میں ہر کوئی ہاتھ دھو سکتا ہے۔

بلا کسی روک ٹوک کے اس تہذیب اور معاشرے نے یہ مقام دیا تھا عورت کو ایران کے پہلو میں عرب کا وہ خطہ ارض ہے جہاں صدیوں تک باپ اپنی زندہ بچیوں کو درگور کرکے اپنی خودساختہ غیرت وحمیت کا ثبوت دیتا رہا بیٹی کی پیدائش پر باپ منہ چھپاتا پھرتا معاشرے میں بیٹی کا باپ ہونا ایک گالی بن چکا تھا بیٹی کے باپ کو طعنے دیئے جاتے آتے جاتے۔

اس پر آوازے کسے جاتے وہ جارہا ہے بیٹی والا یہانتک کہ وہ بندہ اس بیٹی کو زندہ دفن کرکے معاشرے میں اپنی مردانگی کا ثبوت دیتا تو اس کو مرد تصور کیا جاتا آج بھی عرب میں دور جاہلیت میں دفن کی جانے والی معصوم بچیوں کے آثار نشان زد کرکے رکھے ہوئے ہیں۔

اسی عرب کی تہذیب تھی کہ باپ کے بعد اس کی چھوڑی ہوئی بیوہ سے بیٹے شادی کرلیاکرتے اور اس میں کوئی عار نہ تھا عرب کے برابر ہی شام میں ظرابلس کا وہ علاقہ تھا جہاں عورتٰیں جہاں عورتیں شاہراؤں اور سڑکوں پر بیٹھ جاتیں اور آنے جانے والے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرتیں۔

اور ان کو راحت وآسودگی کے اسباب فراہم کیا کرتیں شام میں موجود دیوتاؤں لو لو واشترو کے مجسموں کو کنواری لڑکیوں کے خون سے غسل دیا جاتا ان کاکہنا تھا کہ اس طرح کرنے سے دیوتا ان سے خوش ہونگے اور ان کی مرادیں بر آئیں گی اس طرح ہزاروں معصوم بچیاں لو لو واشترو کو راضی رکھنے کی خاطر ان پر بطور چڑھاوا چڑھادی گئیں طرابلس کے بازاروں میں عورت کو وحشی درندوں کی طرح دیکھا جاتا اور عورت کی خرید وفروخت کھلے عام ہوا کرتی اور ان کے ساتھ لونڈیوں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔

مصر میں اگر دریائے نیل کی طغیانی کم ہوجاتی تو ایک جوان کنواری لڑکی کو دلہن کی مانند سجا کر نیل کے کنارے ذبح کردیاجاتا ان کاکہنا تھا کہ ایسا کرنے سے دیوتا نیل ان سے راضی ہوجائے گا اور ان کی کھیتیاں اور کھلیان سر سبز وشاداب رہیں گے نہ جانے کتنے ہی عرصے تک دیوتاؤں کو راضی کرنے کا بھیانک کھیل جاری رہا اور نیل کا پانی سرخ رہا اور انبے بیاہی دلہنوں کے کے بے گناہ قتل ہونے کی گواہی دیتا رہا۔

یونان دنیا کی تہذیب کا پہلا فلسفی ملک تھا ایک عجیب وغریب فلسفہ ہیاں بھی عورت  کی تذلیل کے لئے تراش لیا گیا تھا کہچاند میں ایک عورت رہتی ہے پینڈورا دنیا پر جتنی بھی پریشانیاں مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں وہ اسی عورت پینڈورا کے سبب ہی آتی ہیں سیلاب زلزلے طوفان اموات غرض یہ کہ تمام زمینی آفتوں کا باعث یہی پینڈورا ہے۔

پھر جب بھی کوئی آفت وہان آتی تو وہان عورتون کو تازیانوں اور ڈنڈوں سے مارا پیٹا جاتا فلسفہ یہ اختیار کیا جاتا کہ کہ اس طرح ہم پینڈورا سے بدلہ لیتے ہیں  یہاں بھی عورت کے حصے میں سوائے تذلیل کے کچھ نہ آیا اور عورت کا وہ حقیقی مقام جو کہ اسے ملنا چاہیئے تھا اس سے وہ محروم رہی رومن امپائر ایک وقت میں دنیا کی بڑی طاقت رہ چکی ایک عجیب وغریب تصور تھا

کہ آسمان پر ایک عورت رہتی ہے ایفروڈائٹ اس کا تعلق آسمان عوالوں سے بھی ہے اور زمیں والوں سے بھی پھر ہر برے تصور کو ایفروڈائٹ کے ساتھ جوڑ کر تسلیم کرلیا گیا ملکہ قلوپطرہ جس کے حسن کی مثالیں دی جاتی ہیں اس کا عقیدہ ومسلک ہی حسن آفرینی تھا یہ تھا۔

اس عورت کو معاشرے اور مختلف تہذیبوں کی جانب سے ملنے والا وہ مقام جس کامختصر ذکرکیا گیا اس کے بعد جب دین اسلام کی چھایا میسر ہوئی تو زمانے کو معلوم ہوا کہ عورت تو قابل ستائش ہے اس کا ہر ہر روپ سراہے جانے کے لائق ہے کاش آج کی عورت نے اگر عورت کی تاریخ کو پڑھا ہوتا تو وہ یوں نہ سڑکوں پر اپنے حقوق کی خاطر یوں نہ نکل پڑتی دین اسلام نے عورت کو  ماں بہن بیٹی اور بیوی جیسا  منصب جلیل عطا فرمایا۔

فرمان رسولﷺ ہے ماں کے پاؤں تلے جنت ہے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی انہیں اچھا انسان بنایا میں اور وہ شخص جنت میں اتنے قریب ہونگے جتنی کہ میرے ہاتھ کی دو انگلیاں حضور کی رضاعی بہن تشریف لاتی ہیں حضور ان کے لئے اپنے کاندھوں سے چادر اتار کر فرماتے ہیں کہ آؤ اس پر بیٹھ جاؤ ایک جنگ میں ایک عورت قید ہو کر آئی۔

تو اس کے سر پر سرکار ﷺنے اپنی چادر ڈال دی صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ یہ کافر کی بیٹی ہے نبی ﷺ نے کہا اے میرے صحابہ بیٹی بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو عورت کو جو مقام دین اسلام نے دیا وہ مقام اس کو کائنات کا کوئی دوسرا مذہب نہ دے سکا۔

امریکہ جیسے حقوق عالمی کے علمبردار کے ہاں عورت ظلم کی چکی میں پس رہی ہے وہ مرد کے ساتھ مل کر کماتی بھی ہے بچے پیدا کرنے کے تکلیف دہ مراحل سے بھی گزرتی ہے اور پھر ان بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری بھی اسی عورت کے ناتواں کاندھوں پر ہے ایک شور مچایا گیا۔

  اس مہذب دنیا میں کہ عورت پر ظلم ہورہا ہے اسے گھر کی چار دیواری میں قید کردیا گیا ہے ہم نے اسے آزادی دلانی ہے اور پھر یہ ہوا کہ جب عورت کو آزادی دی گئی تو پھر معاشرہ برباد ی کی طرف چل نکلا پھر دیکھتی آنکھوں  نے دیکھا کہ ہمیں یورپ کے معاشرے میں سب کچھ نظر آیا لیکن عورت نام کی کوئی دیوی کہیں نہ نظر آئی مامتا کہین نہ ملی۔

عورتیں ناجائز بچوں کو پیدا کرنےکے بعد انہیں میٹرنٹی ہومز میں چھوڑ کر بھاگ جاتیں عورت کو کوئی اپنانے کو تیار نہیں اس ظالم معاشرے کا ہر مرد عورت کو اپنے سفلی جذبات کی تسکین وتکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے اور استعمال کے بعد اسے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔

اس کی زندگی کا ساتھی بننے کو کوئی تیار نہیں اس کے ساتھ چلنے کو کوئی تیار نہیں یہ آزادی نہیں بلکہ ایک ایسی قید ہے جس سے خلاصی کاواحد حل دین اسلام کے دامن اقدس میں پناہ لینا ہے آج پورا یورپ عورت کو تشہیر کا ذریعہ بنا کر ایک طرف تو اپنے سفلی جذبات کی تسکین حاصل کر رہا ہے۔

تو دوسری طرف عورت تذلیل کا شکار بنی اپنے مقام ومرتبے سے گر گئی نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ کو دیکھا کہ بوٹی چبارہی ہیں تو فرمایا کہ عائشہ اپنے سے بچا کر ہمیں بھی دینا ایک مرتبہ حضرت عائشہ پانی پی رہی تھیں نبی ﷺ نے فرمایا عائشہ تھوڑا بچا کر ہمیں بھی دینا  اور جب حضرت عائشہ نے بچا کر دیا تو نبی ﷺ نے پو چھا کہ عائشہ تم نے کہاں سے ہونٹ لگا کر پیا پھر نبی ﷺ نے اپنے ہونٹ مبارک وہیں پر لگا کر پانی نوش فرمایا۔

جب نبی ﷺ وضو فرماتے تو صحابہ کرام وضو سے گرنے والے پانی کو ہاتھوں میں لے لیتے اور چہرے پر مل لیتے ساری عرب نبی ﷺ کے بچے ہوئے پانی کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور حضور فرمائیں کہ عائشہ تھوڑا بچا کر ہمیں بھی دینا عورت کو جو مقام ومرتبہ جو قدر ومنزلت جو عزت ورفعت دین اسلام نے عطا فرمائی دوسرے مذاہب اس کا ایک فیصد بھی عورت کو مہیا نہ کرسکے۔

آج کی عورت اگر ماضی میں اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو جان لے تو اسے پتہ چل جائے کہ جو آزادی عورت کو دین اسلام نے دی ہے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوسکتا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top