خدا کے بارے میں آج کل عوام وخواض میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ خدا کون ہے ؟اس نے یہ دنیا کیوں پیدا کی ؟خدا کون ہے اور وہ کیا چاہتا ہے ؟ خدا کیسا دکھتا ہے ؟یہ سب باتیں عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہی ہوتی ہیں۔ انسان جب انسان دنیا میں آیاتو وہ اپنے ساتھ خوف لے کر آیا اور یہی خوف تھا کہ جب اس نے دیکھا کہ پہاڑی تودے گرنے سے ہلاکتیں ہوئیں تو اس نے پتھر کو معبود ٹہرالیا اور لگا اس کی عبادت کرنے منت سماجت کرنے سانپ نے ڈسا تو مرگیا اب اس نے سانپ کی پوجا شروع کردی اسے ناگ دیوتا کہنے لگا آگ سے جلا تو اس کی پوجا شروع کردی تاکہ یہ اسے جلائے نہیں الغرض جو جو چیز اسے نقصان پہنچاتی گئی اس اس کو انسان نے معبود بنا لیا یہود ونصاری نے انبیاء کو نعوذباللہ بیٹا بنا ڈالا الغرض اپنی اپنی بساط کے مطابق لوگوں نے اپنا اپنا خدا بنالیا لیکن ایک بات ہے جو ان جھوٹے خداؤں کی نفی کرتی ہے اور وہ ہے ان سب باطل خداؤں کا فانی ہونا جبکہ اس کائنات کا خدا ایک ہے اور اسے فنا نہیں وہ باقی رہنے والا ہے خدا کے بارے میں مشرکین مکہ نے جب رسول ﷺ سے پوچھا تو اللہ تعالی نے قرآن میں اپنا تعارف باری تعالی نے کچھ یوں بیان کیا
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(1)اَللّٰهُ الصَّمَدُ(2)لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ(3)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ
ترجمہ: کنزالایما ں :(تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی)
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ: (تم فرماؤ: وہ اللّٰہ ایک ہے)
عرب میں کفار کی بہت سی قسمیں تھی، دہریہ، مشرک،اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کے منکر اور اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اولاد ماننے والے وغیرہ، اس سورۃ میں ان سب کی تردید ہے، ’’هُوَاللّٰهُ‘‘ فرمانے میں دہریوں کی تردید ہے۔ ’’اَحَدٌ‘‘ فرمانے میں مشرکین کا مکمل رد ہے اور اگلی آیات میں بقیہ کفار کا رد ہے۔ ارشادفرمایا کہ وہ اللّٰہ ایک ہے یعنی رَبُوبِیَّت اوراُ لُوہِیَّت میں عظمت و کمال کی صفات کے ساتھ موصوف ہے ۔ اس کی نہ کوئی مثل ہے، نہ نظیر اور نہ شبیہ ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔
اَللّٰهُ الصَّمَدُ: (اللّٰہ بے نیاز ہے)
ارشادفرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے ،نہ کھائے ،نہ پیئے ،ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔ کسی کام میں کسی کا حاجت مند نہیں ۔
لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ:(نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا)
اللّٰہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے کیونکہ اولاد باپ کی جنس سے ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اس سے پاک ہے یونہی وہ خود کسی سے پیدا نہیں ہوا کیونکہ وہ قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور پیدا ہونا اس چیز کی صفت ہے جو پہلے نہ ہو اور پھر وجود میں آئے۔ اس میں مشرکین اور یہودو نصاریٰ سب کی تردید ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کی لڑکیاں کہتے تھے، یہودی حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جبکہ عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔
وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ:( اور کوئی اس کے برابر نہیں )
یعنی نہ ذات میں نہ صفات میں ، کیونکہ وہ واجب ہے، خالق ہے، باقی سب ممکن ،مخلوق اور حادث ہیں ۔ اس کی صفات ذاتی قدیم، غیر محدودہیں جبکہ مخلوق کی صفات عطائی، حادث اور محدود ہیں ۔(تفسیر صراط الجنان)
تمام باطل خداؤں کی نفی اس سورہ مبارکہ میں کردی گئی تاکہ گمراہی کی راہیں مسدود ہو جائیں اور کوئی بھی ذیشعور جان سکے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فر ماتے ہیں کہ
وْ كَانَ فِیْهِمَا اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ
ترجمہ: کنزالایمان:(اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتےتو ضرور وہ تباہ ہوجاتے تو پاکی ہے اللہ عرش کے مالک کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں)
لَوْ كَانَ فِیْهِمَا اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا:(اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو ضرور آسمان و زمین تباہ ہوجاتے)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے واحد معبود ہونے کی ایک قطعی دلیل بیان کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آسمانوں یازمین پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو سارے عالَم کانظام درہم برہم ہوجاتا، کیونکہ اگر خدا سے وہ خدا مراد لئے جائیں جن کی خدائی کا بت پرست اعتقاد رکھتے ہیں تو عالَم کے فساد کا لازم ہونا ظاہر ہے کیونکہ بت پرستوں کے خدا جمادات ہیں اوروہ عالَم کا نظام چلانے پر اَصْلاً قدرت نہیں رکھتے ،تو جب قدرت ہی کچھ نہیں تو وہ کائنات کو کیسے چلاتے ؟ اور اگر خدا سے مُطْلَقاً وہ سارے خدا مراد ہوں جنہیں کوئی بھی مانتا ہے تو بھی جہان کی تباہی یقینی ہے ،کیونکہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں تو دو حال سے خالی نہیں ،
- وہ دونوںکسی شے پرمتفق ہوں گے
- وہ دونوںکسی شے پر مختلف ہوں گے۔
اگر ایک چیز پر متفق ہوئے تواس سے لازم آئے گا کہ ایک چیز دونوں کی قدرت میں ہو اور دونوں کی قدرت سے واقع ہو۔ یہ محال ہے، اور اگر مختلف ہوئے تو ایک چیز کے بارے میں دونوں کے ارادوں کی مختلف صورتیں ہوں گی۔دونوں کے ارادے ایک ساتھ واقع ہوں گے۔اس صورت میں ایک ہی وقت میں وہ چیز موجود اور معدوم دونوں ہوجائے گی ۔ دونوں کے ارادے واقع نہ ہوں ۔ اس صورت میں وہ چیز نہ موجود ہو گی نہ معدوم۔ ایک کا ارادہ واقع ہو اور دوسرے کا واقع نہ ہو۔ یہ تمام صورتیں محال ہیں کیونکہ جس کی بات پوری نہ ہوگی وہ خدا نہیں ہوسکتا حالانکہ جو صورت فرض کی گئی ہے وہ خدا فرض کرکے کی گئی ہے، تو ثابت ہوا کہ بہر صورت ایک سے زیادہ خدا ماننے میں نظامِ کائنات کی تباہی اورفساد لازم ہے۔ (تفسیرکبیر، الانبیاء)
فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ:(تو اللہ پاک ہے)
یعنی عرش کا مالک اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں لوگوں کی بنائی ہوئی ان تمام باتوں سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ،لہٰذا نہ ا س کی کوئی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے۔ٓ(تفسیر صراط الجنان )
تو اب باطل خداؤن کی نفی کر دی گئی کہ اللہ ایک اور بے نیاز ہے اس کا کوئی باپ یا بیٹا نہیں اور دلیل کے طور پر بتا دیا گیا کہاگر دو خدا ہوتے تو فساد برپا ہوجانا تھا یعنی اگر دو ہوتے تو دونوں کا ایک نقطے پر متفق ہونا بھی ضروری نہ ہو تا تو یوں ان میں اختلاف ہوتا اور کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتاہے۔
ایک مرتبہ ابو جہلایک بوسیدہ ہڈی ہاتھ میں لئے سرکار کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس ہڈی کو اپنی دونون ہتھیلیوں کے درمیان رکھ کرمسل ڈالااور جب وہ ہڈی پوڈر کی طرح ہوگئی تو اسے پھونک مار کر اڑا دیا اور کہنے لگا ارشاد باری تعالی ہے
قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
ترجمہ: (کہنے لگا جب ہڈیاں گل جائیں گی تو کون انہیں زندہ کرے گا)
اس کافر نے اپنے طور پر دلیل پکڑی تو اللہ تعالی نے بھی بڑی دلیل اورحکمت کے ساتھ کہا کہ
قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُ
ترجمہ:(آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلے پیدا کیا تھا اور وہ ہر شے کو تخلیق کرنا جانتا ہے)
اس کافر کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے اسے سمجھا دیا گیا کہ پہلی بار پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے جب اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ وہ دوبارہ بھی تمہیں پیدا کر سکتا ہے یعنی رب حقیقی وہ ہے جس نے تمام مخلوق جن وانس کو پیدا فرمایا کائنات کو پیدا فرمایا ہر شے کا خالق ومالک وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
کوئی تو جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے
وہی خدا ہے
تلاش اس کو نہ کر بتون میں
وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے
وہی خدا ہے
نظر بھئی رکھے سماعتیں بھی وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہ شعور میں جگمگا رہا ہے
وہی خدا ہے
چاہت خداوندی کیا ہے ؟
خدا کی ایک ہی چاہت ہے وہ یہ کہ اس کی عبادت کی جائے اسی لئے ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
ترجمہ: (اور میں نے جن اور انسان اسی لئے بنائے کہ وہ میری عبادت کریں )
خدا ہماری عبادت کا محتاج نہیں ہم عبادت نہ کریں تو بھی وہ خدا ہے اور ہم عبادت کریں تو بھی وہ خدا ہے ہم اسے خالق ومالک مان کر اس کی عبادت کریں یا نہ کریں اس کی ربوبیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اتنی بڑی ،عظیم اور بزرگ ہستی ہونے کی بنا ءپر وہ عبادت کے لائق ہے۔
حضرت علی فر ماتے ہیں کہ میں اپنے رب کی عبادت نہ تو جنت کے شوق میں کرتا ہوں اور نہ ہی جہنم کے خوف سے میں تو اس کی عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ وہ عبادت کے لائق ہے ۔
تو رب کی چاہت یہ ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں سوال ہوسکتا ہے کہ کیوں کریں ہم اس کی عبادت ؟تو اس کا جواب ہے کہ اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس کی عبادت کرنی چاہیئے حدیث قدسی ہے صحیح بخاری میں ہےکہ:
“عن أبي هريرة-رضي الله عنه-، قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: ” إنّ الله قال: من عادَى لي ولياً فقد آذنتُه بالحرب، وما تقرّب إليّ عبدي بشيءِ أحبّ إلي مما افترضتُ عليه، وما يزالُ عبدي يتقرّبُ إليّ بالنوافل حتى أُحِبُّه، فإذا أحببتُه كنتُ سمعَه الذي يسمعُ به، وبصرَه الذي يبصرُ به، ويدَه التي يبطشُ بها، ورجلَه التي يمشي بها، وإن سألني لأُعطينَّه، ولئن استعاذَني لأُعيذنّه، وما تردّدتُ عن شيءٍ أنا فاعلُه تردّدي عن نفس المؤمن، يَكرهُ الموتَ وأنا أكره مَساءتَه “.
(كتاب الرقاق، باب التواضع، ج:8، ص:105، رقم:6502)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: (جوشخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرتا ہے میری طرف سے اُس کو لڑائی کا اعلان ہے،اورمیرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرنا چاہتا ہےاُن میں سب سے زیادہ محبوب چیزیں میرے نزدیک وہ ہیں جو میں نے اُس پر فرض کی ہیں (یعنی فرائض ادا کرنے سے سب سے زیادہ مجھ سے قرب حاصل ہوتاہے)،اور نوافل کی وجہ سے بندہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہےیہاں تک کہ میں اُسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں،جب میں اُسے محبوب بنالیتاہوں توپھر میں اُس کا کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنے،اور اُس کی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھے،اور اُس کا ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ (کسی چیزکو) پکڑے،اور اُس کاپاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلے(یعنی اس کا دیکھنا ،سننا،چلنا،پھرنا،سب میری خوشی کے تابع بن جاتا ہےاور کوئی بات میری مرضی کے خلاف نہیں ہوتی) ،اگروہ مجھ سے کچھ مانگتا ہےتو میں اُسے ضرور عطا کرتاہوں،اور اگر وہ کسی چیز سے پناہ چاہتا ہےتو میں ضرور اُسے پناہ دیتاہوں،اورکسی چیزکے کرنے میں مجھے اِتنا تردد نہیں ہوتاجتنا ترددمومن کی روح قبض کرنے میں ہوتاہے،وہ موت کو ناپسند کرتا ہےاور مجھے اسے غمگین کرنا ناپسند ہوتاہے)۔
یعنی خدا کی چاہت یہ ہے کہ بندہ اس کی عبادت کے ذریعے سے اس کا قرب حاصل کرے اسی لئے اس نے اپنی عبادت کو فرض قرار دیا ہے اسلئے جو بندہ اس کی یاد یعنی( عبادت )سے غافل ہو گیا وہ اس کے قرب سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے خدا کی چاہت یہ ہے کہ انسان اس کے ساتھ جڑا رہے وہ خالق ومالک ہمارے ساتھ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے اور ہمارے لئے وہ اپنی جنت کو آراستہ کئے ہوئے ہے بس ہم نے اس کی عبادت سے غافل نہیں ہونا پھر وہ خدا ہم سے خوش بھی ہوگا اور اپنی رحمت کو ہم پر نچھاور بھی کرے گا ۔
یہ بھی پڑہیں : انسان کی زندگی سے موت تک کا سفر