جین پیاجے کا نظریہ اور اسلامی تربیہ کے تناظر میں اس کی اہمیت

جین پیاجے کا ذہنی نشوونما کا نظریہ اور اسلامی تربیہ کے تناظر میں اس کی اہمیت

ڈاکٹرمحمدیونس خالد

 

تعلیم اور تربیت انسانی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر انسان بچپن سے ہی سیکھنے اور سمجھنے کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ ان مراحل کو سمجھنا والدین، اساتذہ اور تربیت کاروں کے لیے نہایت ضروری ہے تاکہ وہ بچے کی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کے مطابق تربیتی حکمتِ عملی اختیار کر سکیں۔
اسی میدان میں جین پیاجے (Jean Piaget) کا شمار اُن ممتاز مفکرین میں ہوتا ہے جنہوں نے بچوں کی ذہنی نشوونما (Cognitive Development) کے بارے میں دنیا کو ایک نیا زاویہ دیا۔

 

جین پیاجے کا مختصر تعارف

جین پیاجے 1896ء میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ماہرِ نفسیات، فلسفی اور تعلیمی مفکر تھے۔ اُن کی سب سے بڑی خدمت بچوں کی علمی و ذہنی ترقی کے مراحل کو سائنسی بنیادوں پر واضح کرنا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بچے محض معلومات کے ذخیرہ اندوز نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنے تجربات، مشاہدات اور سوالات کے ذریعے خود علم کی تعمیر (construct) کرتے ہیں۔

 

پیاجے کے نظریے کے چار مراحل

پیاجے نے ذہنی نشوونما کو چار بنیادی مراحل میں تقسیم کیا:

  • حسی و حرکی مرحلہ (پیدائش سے 2 سال تک)

    بچہ اپنی حسیات (دیکھنے، چھونے، سننے) اور جسمانی حرکتوں کے ذریعے دنیا کو پہچانتا ہے۔
    اسلامی تربیہ میں: اسی عمر میں بچہ ماحول سے اثر لیتا ہے۔ اس لیے والدین کو محبت، صفائی، اور سکون کا ماحول دینا چاہیے تاکہ اُس کی فطرت متوازن رہے۔

  • پری آپریشنل مرحلہ ( 2 تا 7 سال)

    بچہ علامتوں، الفاظ، اور زبان کے ذریعے سوچنا سیکھتا ہے مگر اس کی سوچ خودمرکوز (egocentric) ہوتی ہے۔
    اسلامی تربیہ میں: یہ عمر کردار سازی کی بنیاد ہے۔ بچے کو نماز، ادب، سلام، سچائی، اور شکر گزاری جیسے اخلاقی تصورات کہانیوں اور مثالوں کے ذریعے سکھائے جائیں۔

  • کنکریٹ آپریشنل مرحلہ ( 7 تا 11 سال)

    بچہ منطقی سوچنے لگتا ہے، مگر وہ صرف ان چیزوں کو سمجھتا ہے جو سامنے موجود ہوں۔
    اسلامی تربیہ میں: یہی عمر عقل اور شعور کے پختہ ہونے کا آغاز ہے۔ بچوں کو قرآن کی کہانیاں، سیرت النبی ﷺ، اور اخلاقی فیصلوں میں شامل کیا جائے تاکہ وہ دین کو عقلاً سمجھ سکیں۔

  • فارمل آپریشنل مرحلہ ( 11 سال کے بعد)

    بچہ تجریدی اور نظریاتی سوچ پیدا کرتا ہے۔ وہ ایمان، مقصدِ زندگی، اور ذمہ داریوں جیسے بڑے تصورات پر غور کر سکتا ہے۔
    اسلامی تربیہ میں: اس مرحلے میں ایمان کی پختگی، نیت کی درستگی، اور زندگی کے مقاصد کی وضاحت پر کام کیا جائے۔ نوجوان کو “عبداللہ” اور “خلیفۃ اللہ” کے تصور سے روشناس کرایا جائے۔

 

پیاجے کے اہم اصول

  • Assimilation (جذب کرنا): نئی معلومات کو پرانے تجربات کے سانچے میں فٹ کرنا۔
  • Accommodation (تبدیلی): جب پرانے سانچے ناکافی ہوں تو ان میں تبدیلی لانا۔
  • Equilibration (توازن): ذہن میں پرانے اور نئے تصورات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا۔

\اسلامی تربیہ میں ان اصولوں کی جھلک:
قرآن میں “تدبر” اور “تفکر” کی دعوت اسی ذہنی عمل کی نمائندگی کرتی ہے — یعنی انسان علم کو صرف یاد نہ کرے بلکہ اس پر غور و فکر کے ذریعے اپنی فہم کو بہتر بنائے۔ یہی علم کو نور بناتا ہے۔

 

اسلامی تربیہ کے تناظر میں اہمیت

اسلامی نقطۂ نظر سے تربیت کا مقصد صرف علمی ترقی نہیں بلکہ عقیدہ، عبادت، اخلاق اور عمل میں توازن پیدا کرنا ہے۔ پیاجے کا نظریہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ تربیت ہمیشہ بچے کی ذہنی سطح کے مطابق ہونی چاہیے۔
اگر ہم قرآن و سنت کے اصولوں کو بچوں کی ذہنی نشوونما کے مراحل سے ہم آہنگ کر لیں تو تربیت کا عمل زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہو جاتا ہے۔

مثلاً:

  • ابتدائی عمر میں مشاہداتی اور عملی تربیت (role modeling)
  • درمیانی عمر میں کہانیوں اور مثالوں کے ذریعے اخلاقی تربیت
  • بلوغت کے بعد عقلی، فکری اور ایمانی تربیت
    یہی تدریجی نظام تربیہ بالحکمہ (حکمت کے ساتھ تربیت) کہلاتا ہے۔

 

نتیجہ

جین پیاجے کا نظریہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہر بچے کی ذہنی، جذباتی اور فکری دنیا الگ ہوتی ہے۔ اسلام اسی انفرادیت کا احترام کرتا ہے اور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بچوں کی تربیت ان کی فطرت، صلاحیت اور مرحلہِ عمر کے مطابق کریں۔
یوں پیاجے کا نظریہ اور اسلامی تربیہ کا اصول ایک ہی سمت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں — فہم، حکمت اور تدریجی تربیت کی سمت۔

 

Check Also

خودکشی

خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان-موثر حل کیاہے؟

ضلع چترال کے دل دہلا دینے والے خودکشی کے واقعات نے پوری قوم کو ایک …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے