Tuesday, November 19, 2024
HomeEducational Challengesتعلیم وتربیت کی اہمیت اور ضرورت

تعلیم وتربیت کی اہمیت اور ضرورت

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے اور ان دونوں کی ضرورت واہمیت سے کسے طور پر انکار ممکن نہیں تعلیم بغیر تربیت کے وہ زہر قاتل ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیں تعلیم کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور مناسب تربیت کے بغیر تعلیم کسی کام کی نہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بچے پیدا کرنا، ان کو کھلانے پلانے کا کام تو جانور اور پرندے بھی ضرورت کے تحت کر لیتے ہیں کمال تو یہ ہے کہ ان کی کردار سازی کی جائے ۔ یعنی بچوں کی ایسی تعلیم و تربیت کی جائے کہ وہ دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں باعثِ نجات بنیں۔ اس کے لیے درست تعلیم وتربیت ہی بنیادی کردار ادار کرتے ہیں، جس کے لیے والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ فی زمانہ اس کی بڑی ضرورت ہے لیکن بہت سے والدین اس کا ذمہ دار اسکول کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہونے بلکہ بعض تو جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت تربیت کا پہلا سینٹر ماں کی گود اور باپ کا ساتھ ہے۔جہان سے وقت اور ضرورت کے مطابق بچے کو تربیت دی جاتی ہے
تعلیم کے ساتھ تربیت لازم وملزوم ہے بلکہ تربیت کو ایک درجہ زیادہ اہمیت حاصل ہے کیوں کہ تعلیم کی کمی کو تربیت پورا کر سکتی ہے مگر تربیت کی کمی کا خلا تعلیم ہرگز پورا نہیں کر سکتی۔ تعلیم وتربیت کی اہمیت اور باہم تعلق کو ہم اس طرح سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تعلیم کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے کہ میدان جنگ میں فوج کو اسلحے کی فراہمی اور تربیت کی افادیت ایسے ہے جیسے اس فوج کو اسلحے کا درست استعمال سکھانا۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ تعلیم سے درست طور پر مستفید ہونے اور عملی زندگی میں زیادہ سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے۔

:تعلیم وتربیت کی اہمیت سے غفلت

یہ بہت اہم امر ہے۔ کیوں کہ اچھی تعلیم وتربیت سے جہاں اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنتی ہے وہیں اس سے بے توجہی اولاد میں فساد اور بگاڑ کا باعث ہوتی ہے۔ یہ غفلت نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کی بربادی کا بھی سبب ہے کیوں کہ جس طرح نیک اولاد کے اعمال کا بدلہ والدین کو ملتا رہتا ہے لامحالہ تربیت سے بہرہ مند نہ کرنے والے والدین کو ان کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آج کل کے مادی دور میں ایک ہی گھر کے افراد کے درمیان رونما ہونے والے ہولناک قسم کے واقعات ہمارے لیے تازیانۂ عبرت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس کا بنیادی سبب ہی تعلیم خاص کر درست خطوط پر تربیت سے دوری ہےاور ان دونوں کی ضرورت واہمیت سے انکار یا چشم پوشی ہے ۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب تک پانی سر سے نہ گزر جائے اس وقت تک تدبیر کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ تعلیم وتربیت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس کی جانب پہلے پہل تو والدین کا خیال ہی نہیں جاتا کیوں کہ وہ اپنے لاڈلے بچوں کی ضروریات بلکہ اس سے بڑھ کر خواہشات اور تعیشات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ جس کے باعث ہر طرح لاڈ پیار اٹھاتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ والدین میں سے ہر کوئی اپنے بچوں کو کامیاب بنانا چاہتا ہے مگر کامیابی کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو کماحقہ تیار نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بڑے عہدوں پر فائز ہونے کے باجود وہ رویہ پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ ناخواندہ بھی شرما جائے۔ چناں چہ آئے روز مختلف واقعات سوشل میڈیا کا حصہ بنتے دکھائی دیتے رہتے ہیں۔

:تعلیم وتربیت کا باہم ربط وتعلق

جہاں ایک بچے کی تعلیمی کارکردگی کاغذوں نمبروں، گریڈ، جی پی کی صورت میں سامنے آتی ہے جو کہ تعلیمی میدان میں اس کا اچھا تعارف کرواتی ہیں تو دوسری جانب تربیت ایسا ٹول ہے جو اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کو متعارف کرواتا ہے۔
تعلیم معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ سکھاتی ہے تو تربیت اس ڈھنگ کو برقرار رکھنے کا سلیقہ، تعلیم شعور دیتی ہے تو تربیت اس شعور کو بروئے کار لانے کا طریقہ۔ تعلیم تہذیب سکھاتی ہے تو تربیت اسے سانچے میں ڈھالنے کا طریقہ۔ تعلیم راستہ دکھاتی ہے تو تربیت اس راستے پر چلنے کا طریقہ۔

:تعلیم و تربیت کی اہمیت قدیم زمانے میں

بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ پہلے زمانے میں تعلیم سے قبل بچوں کو باقاعدہ ادب سکھایا جاتا تھا۔ اس کے لیے سال بھر وقف کیا جاتا۔ پھر جب بچہ چال ڈھال، اٹھنے بیٹھنے، کے آداب سے روشناس ہو جاتا تو اس کے بعد دیگر علوم وفنون پڑھائے جاتے۔ فقہہ مالکیہ کے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میری والدہ مجھے عمامہ باندھ کر استاذ ربیع رائی کے پاس چھوڑنے آئیں تو کہنے لگیں: اپنے استاد سے علم سے پہلے ادب سیکھنا۔ ب حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے 30 برس تک ادب سیکھااور 20 برس تک علم حاصل کیا۔

تعلیم اور تربیت کا فرق کہاں واضح ہوتا ہے؟

تعلیم وتربیت کے حصول کے فائدے اور نہ ہونے کے نقصان کو ہم سادہ مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھر میں اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کچن میں ہمارے کھانے پینے کی فلاں فلاں اشیا رکھی ہیں۔ جیسے کہ نمک سے ذائقہ آتا ہے، مرچ سے کھانے میں لذت پیدا ہوتی ہے وغیرہ۔ یہ سب تعلیم ہے۔ تربیت یہ ہے کہ آپ نے باقاعدہ بچوں کو سکھایا کہ یہ اجزا اتنی اتنی مقدار میں ملتے ہیں تو کھانا معیاری بنتا ہے اور پھر آپ نے بچوں کو سکھا بھی دیا کہ اس طرح اجزا ملنے سے اچھا کھانا بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی بتایا کہ اگر پھر بھی کوئی نقص پیدا ہو جائے تو اس نقص کو کس طریقے سے دور کیا جاتا ہے، یہ تربیت ہے۔

تعلیم وتربیت کی اہمیت مگر ماحول کا کیا ہوگا؟

یہ بہت دلچسپ سوال ہے کہ کیا اور اس کا جواب اس سے بھی زیادہ دلچسپی کا حامل۔ آئیے! ایک واقعے سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بادشاہ کے دربار میں اس وقت بہت دلچسپ صورت پیدا ہوگئی تھی۔ جب بادشاہ نے اپنے 2 وزیروں سے پوچھا کہ بتایا جائے کامیاب کردار میں تربیت زیادہ اہم ہوتی ہے یا ماحول۔ ایک وزیر نے دعوی کیاکہ تربیت زیادہ اہم ہے جب کہ ایک اور وزیر نے دعوی کیا کہ ماحول زیادہ مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تم دونوں کو 1 مہینے کے اندر اپنی بات کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا۔ جو یہ ثابت نہ کر سکا اسے پھانسی دے دی جائے گی۔
ایک وزیر نے چند دن بعد ہی بادشاہ سے عملی نمونہ پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ اس نے بھرے دربار میں اشارہ کیا تو ایک طرف سے 10 بلیاں اس حال میں نکلیں کہ ان میں سے ہر ایک کے منہ میں پلیٹ تھی اور اس پلیٹ میں موم بتی رکھی تھی۔ مزے کی بات بلیاں آرام سے خراماں خراماں کرتے دوسرے دروازے سے نکل گئیں۔ سارا دربار اش اش کر اٹھا۔

تعلیم وتربیت کی اہمیت

اب دوسرا وزیر بڑا پریشان ہوا۔ اس نے بہت سوچا مگر اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیا جس کے ذریعے وہ اپنی بات کو عملی طور پر ثابت کر سکے۔ پریشانی کے عالم میں وہ دور جنگل بیابان کی طرف نکل گیا جہاں ایک درویش کی جھونپڑی پر نظر پڑی۔ وزیر نے اپنا مدعا ان کے سامنے رکھا۔ درویش نے اسے دلاسا دیا اور کہا کہ مقررہ دن میں خود دربار میں پہنچ کر عملی نمونہ پیش کروں گا۔
بالآخر وہ دن بھی آپہنچا۔ دربار کھچا کھچ بھرا تھا اور وہ وزیر بڑی شدت سے درویش کا منتظر تھا۔ بالآخر درویش ایک تھیلے کے ساتھ دربار میں آئے اور آکر بادشاہ سے کہا کہ پہلے والے وزیر اپنے دعوے کا عملی مظاہرہ کریں کہ کردار کی تعمیر میں تربیت زیادہ اہم ہے۔ چناں چہ اس وزیر نے پچھلی بار کی طرح اشارہ کیا تو بلیاں اسی حالت میں ایک دروازے سے نکلیں کہ ان کے منہ میں پلیٹ اور اس پر موم بتی رکھی تھی۔ جیسے ہی وہ بلیاں دربار کے درمیان میں پہنچیں تو درویش نے اپنے تھیلے کا منہ زمین کی طرف کھول دیا جس میں سے بہت سارے چوہے نکلے اور ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ جیسے ہی بلیوں کی نظر چوہوں پر پڑی۔ انھوں نے پلیٹوں کو دور پھینکا اور چوہوں کے پیچھے بھاگنے لگیں۔ پورے دربار میں ہربونگ مچ گئی۔ خاصی دیر بعد جب صورت حال کنٹرول میں آئی تو درویش نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور کہا: آپ کسی کی جتنی بھی عمدہ تربیت کر لیں، لیکن اگر اسے اچھا ماحول فراہم نہیں کریں گے تو تعلیم اور تربیت رائیگاں چلی جائے گی۔

کیا تعلیم وتربیت کے علاہ ہ ماحول الگ کوئی چیز ہے؟

تعلیم وتربیت کی اہمیت

اس واقعے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم، تربیت کی اہمیت ساتھ ساتھ ماحول بھی علیحدہ سے کوئی چیز ہے۔ درحقیقت گھر کا رہن سہن، رشتے داروں کے ہاں آنا جانا، گلی محلے میں رکھ رکھاؤ ہی ماحول کا دوسرا نام ہے۔ چناں چہ بچے کی گھریلو تربیت اس طرح ہو جائے کہ وہ جہاں بھی جائے باہر کے ماحول سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی شخصیت اور اقدار پر جما رہے اور دوسروں کے رنگ سے اثر پکڑنے کے بجائے دوسروں پر اپنا اثر چھوڑے۔ یہ اگر چہ مشکل ضرور ہے مگر درست تعلیم وتربیت کی بدولت ناممکن نہیں۔ چناں چہ یہ جملہ کئی بار سننے کو ملتا ہے جب کسی اچھی شخصیت کے بچے یا نوجوان کو راستے میں آتے جاتے دیکھ کر لوگ رشک سے کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے بڑی اچھی تربیت کی ہے۔

یہ بھی پڑہیں: قوموں کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی