یہ اردگان کا ترکیہ ہے، کمال اتا ترک کا نہیں۔ جہاں حکومتی سطح پر نسلوں کی دینی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج کل گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔ اس دوران ترکیہ کی 90 ہزار سے زائد مساجد میں بچوں کیلئے خصوصی تربیتی کلاسز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جس میں بچوں کو قرآن کریم کا حفظ و ناظرہ، مسنون دعائیں، منتخب احادیث، اسلامی آداب زندگی سمیت بہت کچھ سکھایا جاتا ہے۔
ترکیہ بھر کے طلبہ اس کورس میں بڑی دلچسپی شرکت کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں استنبول کی تاریخی مسجد آیا صوفیا کی دوبارہ بحیثیت مسجد کی دوسری سالگرہ تھی۔ اس موقع پر مقامی حکومت نے شہر بھر کی مساجد میں تربیتی کورسز میں شریک بچوں کو مدعو کیا تھا۔ استنبول کی ڈیڑھ سو سے زائد مساجد و مکاتب کے بچے اس تقریب میں شریک تھے اور بڑا عجیب منظر تھا۔ پانچ ہزار سے زائد عثمانی بچے جامع آیا صوفیا میں اجتماعی درود شریف پڑھتے رہے۔ جس کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
چھٹیوں میں اسکول، کالجز کو فہم دین کورسز کرائے جاتے ہیں
استنبول کی ایک ہی مسجد میں 1500 سے زائد بچے روزانہ کلاس لیتے ہیں۔ ان کورسز میں حکومتی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ دوران کورس صوبائی گورنر جیسے اعلیٰ سرکاری عہدیدار مساجد آکر اساتذہ اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ جس میں گورنر کو ناظرہ و قاعدہ پڑھنے والے بچوں کے سامنے باادب دو زانو بیٹھا دیکھا جاسکتا ہے۔ ترک صوبے یوزگات کے انتظامی سربراہ اور گورنر ضیاءبولات نے بچوں سے سبق سن رہے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انہیں قیمتی نصائح سے نواز رہے ہیں۔
نسل نو کو اسلام سے جوڑے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ،اردگان
ترکی کے صدر صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ نئی نسل کو اپنی اصل (دین) کے ساتھ جوڑے بغیر تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس کے ساتھ ان دنوں ترکیہ بھر میں قرآن کریم حفظ کرنے کی حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی دستار بندی کا بھی سیزن چل رہا ہے۔ باتمان شہر میں 299 بچیوں نے قرآن کریم اپنے سینوں میں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ان حافظاتِ قرآن کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی۔ اس کے علاوہ استنبول میں تکبیرات تشریق کے ورد کے ساتھ 393 حفاظ کرام کی دستار بندی کی گئی۔ دلچسپ بات یہ کہ کلام الٰہی کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنے والوں میں بچوں کے ساتھ پختہ عمر کے افراد بلکہ کچھ بابے بھی شامل ہیں۔ طرابزون شہر میں 254 حفاظ کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی۔ حفاظ کا نورانی گروپ عثمانی بینڈ کے ساتھ مدرسے سے جلسہ گاہ کی طرف رواں دواں تھا۔
حفظ قرآن پر پابندی ختم ہونے کے بعد 13 ہزار اسلامی مراکز قائم ہو چکے
ایک وقت تھا روس نے طرابزون پر قبضہ کرکے تمام مساجد پر تالے لگا دیئے تھے۔ خدا کا نام لینا جرم تھا۔ یہی علاقہ شیخ محمود آفندیؒ کی جائے پیدائش ہے۔ ان تربیتی کورسز اور ان کی محنتوں کا ثمر ہے کہ اب یہاں کلام الٰہی کی بہاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ترک حکومت کی جانب سے تیزی سے قرآن کریم کی تعلیم کو عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیاہے۔ ترک صدر خود بھی حافظ قرآن ہیں۔ انہوں نے 2011ءمیں حفظِ قرآن سے سرکاری پابندی اٹھائی تھی، جس کے بعد حکومتی نگرانی میں 13 ہزار سے زائد اسلامی مراکز قائم کیے گئے، جہاں پر حفظِ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان 13ہزار مراکز دینیہ میں 40 ہزار اساتذہ مقرر کیے گئے ہیں، جنہیں خصوصی مراعات اور بہترین وظائف سے نوازا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر حفظِ قرآن کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ 2015ءتک پورے ترکی میں حفاظ کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تک جا پہنچی ہے۔
تعطیلات گرما میں سالانہ 60 ہزار طلباء حافظ بن رہے ہیں
گرما میں اسکول کے طلبہ کو حفظِ قرآن کی ترغیب دی جاتی ہے۔ والدین کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں حفظ کروائیں، پھر اس حفظ کو اگلے سال کی چھٹیوں تک محفوظ رکھنے میں ان کے معاون بنیں۔ اس کا نتیجہ بہت مثبت نکل رہا ہے، یعنی 2016ءمیں یہ تعداد گیارہ لاکھ 50 ہزار کو پہنچ گئی تھی۔ اب تو اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اب ہر سال محض گرمیوں کی چھٹیوں میں 60 ہزار نئے طلبہ حفظ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
سن 2000 تک ترکی میں حفظ قرآن پر پابندی تھی
یقین نہیں آتا کہ یہ اسی ترکی کے حفاظ ہیں جہاں 2000ءتک اسلام کا نام لینا جرم تھا۔ جہاں حفظ قرآن سمیت تمام اسلامی سرگرمیاں ممنوع تھیں ۔جہاں ایک باحجاب پارلیمنٹیرین اپنے پردے کی وجہ سے پارلیمنٹ سے نکال دی گئی۔ جہاں حفظ قرآن پر پابندی تھی۔ مدارس اصطبل میں تبدیل کردیئے گئے تھے۔ عربی رسم الخط تک ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ جہاں کا ایک وزیر اعظم اس جرم میں پھانسی چڑھا دیا گیا کہ وہ اسلام کا نام لیوا تھا۔ دنیا بدلی، حالات نے پلٹا کھایا اور آج وہی ترکی اپنے حفاظ قرآن کو عمرے پر بھیج رہا ہے۔ دینی تربیت سے آراستہ یہ نوجوان کل میدان عمل میں ہوں گے اور ملکی مستقبل کے خدوخال یہی طے کریں گے۔ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ ہمارے لیے اس میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ مکمل جائزہ کی بجائے چند ایک اشارے کافی ہیں۔ مشاہد ہ گواہ ہے کہ حفاظ بچے ہر میدان میں آگے ہوتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو صدر اردگان کو دیکھ لیجئے۔ حفاظ کی ذہنی صلاحیت عام طلبہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا حفظ قرآن کو نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔