بچوں کی تربیت کا درست انداز:جہاں غربت کے خوف سےاولاد کو قتل کرناگناہ کبیرہ ہے، وہاں اولاد کی درست تعلیم تربیت نہ کرنا بھی اسکے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ایک پڑھا لکھا باشعوراور تربیت یافتہ فرد نہ صرف یہ کہ خود اپنے اور اپنے خاندان کیلئے سود مند ہوتا ہے،بلکہ وہ معاشرے کیلئے بھی بہترین فرد ثابت ہوتا ہے-معاشرہ چونکہ افراد سے ملکر بنتا ہے اس لئے جس معاشرے کے افرادتعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ ہوں وہ معاشرہ بھی مثالی معاشرہ کہلاتا ہے-
آج جب ہم اپنے معاشرے پرنظر دالتے ہیں تو غربت، بے روزگاری، افلاس، بےحیائی، فحاشی اور عریانی جیسے سائے ہمارے اس معاشرے پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان تمام برائیوں کی جڑ تعلیم و تربیت کا نہ فقدان ہے۔ صالح معاشرے کی تشکیل کیلئے صرف تعلیم کافی نہیں بلکہ تربیت اور کردارس سازی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جتنا نقصان ہمارے ملک کوتعلیم یافتہ لیکن تربیت سے عاری طبقے نے پہنچایا اتنا نقصان شاید غیر تعلیم یا فتہ اور ان پڑھ طبقے نے نہیں پہنچایا ہوگا۔
وجہ ظا ہر ہے کہ ہماری درسگاہوں میں جتنی توجہ تعلیم کے حصول پر دی جا تی ہے،اسکا ایک فیصد بھی تر بیت پر نہیں دی جاتی۔ نتیجے کے بطور پر ایسے تعلیم یافتہ افراد وجود میں آتے ہیں جنکی نظر میں رشوت لینا کوئی برائی نہیں بلکہ حق تصور کیا جاتا ہے۔ جھوٹ لعنت نہیں بلکہ صفت بن جاتی ہےاور نتیجے کے طور پر معاشرہ زبوں حالی کاشکار ہوکر رہ جاتا ہے۔
تربیت کا درست انداز
تعلیم اداروں میں تربیت کی کمی
اپنے ارد گرد کے تعلیمی اداروں پرنگاہ ڈالیں تو شاید ہی کوئی ایسا ادارہ نظر آئےجو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیتی بنیادوں پر بھی کام کررہاہو-کسی بھی شخص کی تربیت میں والدین، اساتذہ اورجہاں وہ تعلیم حاصل کررہا ہے وہ ادارہ بڑ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب والدین یا اساتذہ میں سے کوئی اس بچے کی تربیت کے حوالے سےغفلت برتتا ہے تو اسکا برا اثر براہ راست بچے کی شخصیت پرپڑتا ہے-آج والدہ کے پاس گھرکےکام کاج والد کے پاس پیسہ کمانےاور استاد کے پاس سلیبس ختم کرانے کے علاوہ کوئی فرصت نھیں، کہ وہ بچے کی تربیت کی طرف بھی توجہ دے سکیں ۔نتیجے کے طور پر جب ہوش آتا ہےتو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے-
تربیت کا درست انداز
غلطی کے بعد ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانا
پھر ایسے بچے کی تربیت ماحول، موبائل یا ٹی وی کےزیر اثر ہوتی ہے۔اور پھرجب سب کچھ بگڑ جاتا ہےتو والدین ایک دوسرے کویا تعلیمی ادارے کو ذمہ دار ٹھہرارہے ہوتےییں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ یا پھراستاد نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہےتو یہ ناکامی ان تینوں کی ناکامی ہے۔تربیت کا عملی تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل اسوقت تک جاری رہنا چاہیے۔جب تک اس بات کا پختہ یقین ناہوجائے کہ وہ بچہ جوزیر تربیت ہےاسکی شخصیت میں وہ انقلاب برپا نہ ہوجائے جو کہ دور جدید کے چیلنجنزکا مقابلہ کرسکے۔ بقول میر
نہ سہل اسے جانوپھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انساں نکلتےہیں
مطلب یہ ہے کہ تربیت برسوں تک جاری رہنے کےبعدانسان کی شخصیت پر نکھار آجاتا ہے۔
تربیت کا درست انداز
تربیت بھی مرحلہ وار ہونی چاہیے۔
جس طرح نرسری سےمیٹرک تک بچے کی تعلیم کے مراحل درجہ بدرجہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ بلکل اسی طرح بچوں کی تربیت بھی انکی عمر، ذہنی سطح، سوچ اور نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہونی چاہئے۔ایک خودسر بچےکو اگرآپ تحکمانہ حکم دیں گے تو شاید وہ اپنےخود سری کی بناء پراسے رد کردے۔ لیکن یہی حکم اگرآپ اسے بڑے پیار سےدیں گے، اورآنے والے وقت میں اس کام کے ثمرات یا مضمرات سے اسے آگاہ کردیں گے تو آپ یقینا اس بچے میں تبدیلی پیدا ہوتے دیکھیں گے۔
تربیت پراثرانداز ہونے والی جہاں اور بہت سی چیزیں ہیں وہیں ایک چیز ماحول بھی ہے۔پانی کی مثال لیجئے جب ہم پانی کو ریفریجریٹر کے ایک خاص ماحول میں رکھتے ہیں جبکہ باہر کا ماحول اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تو وہ پانی ٹھوس شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جودوسروں کے لئے اپنے اندر ٹھنڈک اور فرحت کا احساس لئے ہوئے ہوتا ہے لیکن جب اسی پانی کوکسی برتن میں یونہی چھوڑدیا جائے تو اس پانی میں کائی ،تعفن، جراثیم اور کیڑے پیدا ہوجاتےہیں ،اسی طرح ماحول کا بھی تربیت پراچھا یا برا اثر ضرورہوتا ہے۔
تربیت کا درست انداز
محبت اور تعلق تربیت کی کلید
لہذا گھرکے ماحول کو بھی دوستانہ پیار اور محبت سے لبریز ہونا چاہیے۔ بچوں کے گھر سے دور رہنے اور باہر رہنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ گھر کے ماحول میں بچے کوکوفت محسوس ہوتی ہے۔ گھر میں باہمی پیار اور محبت کو فروغ دے کر کچھ وقت ماں باپ اور بچے ٹی وی اسکرین کے سامنے مل بیٹھ کر کسی اچھے پروگرام کو دیکھیں۔ یا پھر ماں باپ اور بچے گھر میں مل کر ان ڈور گیم کھیلیں ۔ اس سے بھی بچے کو ماں باپ کی قربت اور گھر میں خوش رہنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
اب اگر گھر کی حالت بقول غالب ایسی ہو :
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آرہا ہے۔
پھر بچہ گھر سے فرار رہنے کو ہی پسند کرتا ہے۔ شام کی چائےپر اگر گھر کے تمام افراد مل بیٹھیں اور کسی موضوع پر اظہار خیال یا دن کی کارگزاری کا تذکرہ اگر چل نکلے تو بہت سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے نفسیاتی مسائل جو کہ بعض دفعہ اتنے الجھ چکے ہوتے ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی ہوتی خود بخود سلجھنے لگتے ہیں۔ اور اس طرح بچوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے سے خو داعتمادی بھی پروان چڑھتی ہے۔
تربیت کا درست انداز
ٹین ایجر بچوں کا مسئلہ
بڑے بچوں خصوصا ٹین ایجر کایہ بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ ان میں ٹھہراو نہیں ہوتا ۔وہ دماغ کا استعمال کرکے بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے ۔ ایسے بچوں کی بات کو بغور سنا جائےاور ان کی بات کو اہمیت دی جائے۔ جو مسائل انہیں لاحق ہیں ان کا تدارک کیا جائے۔اس سے بچے کو اپنی اہمیت کا احساس ہوگا۔ اور اگر بچوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے تو صورت حال کچھ غالب کے اس شعر کی طرح ہوکر رہ جائے گی۔
پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں
لہذا بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول رکھیے۔ نہ تو انہیں خواہ مخواہ سرزنش کیجئے اور نہ ہی وقت بے وقت کی نصیحتیں کیجئے۔ بقول غالب ۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چار ہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا۔
تربیت کا درست انداز
پیار محبت اور خلوص تربیت کی بنیاد
پیارمحبت اور خلوص بہترین تربیت کی بنیادیں ہیں۔اگر ان کو مستحکم رکھا جائے تو تربیتی مراحل بخوبی انجام پانے لگتے ہیں۔ اور پھل آتے دیر نہیں لگتی۔ پیار ، محبت اور خلوص ایسے ہتھیار ہیں جو کبھی ناکام نہیں ہوتے اور ان کی پڑی ہوئی ضربیں نسلوں تک دیکھی جاسکتی ہیں۔ بقول محسن نقوی
مجھے یقین ہے محسن وہ پتھر ٹوٹ جائے گا میں اس کے سخت لہجے پر محبت مار آیا ہوں
اگر خدانخواستہ کہیں بچوں کے لہجے میں سختی ودرشتی ہے جو آج ہیں انہیں محبت دینا شروع کریں۔ پھر چند ہی روز میں آپ محبت کی مار کا اثر ہوتا ہوا دیکھیں گے۔
تربیت کا درست انداز
چھوٹے بچے نقل سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کی تربیت کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رہے کہ وہ بنیادی طور پر نقال ہوا کرتے ہیں۔ لہذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے پڑھائی پر توجہ دیں تو آپ خو دکچھ وقت مطالعہ کیا کریں۔ آپ کو دیکھتے ہوئے بچے خو د پڑھنے کی طرف مائل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ یہ طریقہ اس سے بہتر ہے کہ آپ بچے کو پڑھائی نہ کرنے پر سزا دیں یا پھر اسے باربار پڑھنے کو کہیں۔
اسی طرح اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ نمازی بنے تو پہلے پہل آ پ خود نماز کو باقاعدگی سے قائم کریں۔ پھرآہستہ آہستہ بچے کو مسجد لیجانا شروع کریں۔ اس طرح بچے کی شخصیت میں دین داری کے ساتھ ساتھ قرب الہی کا جذبہ بھی پیدا ہوجائےگا۔ یہ تو چھوٹے بچوں کی تربیت کے حوالے سے بات ہوئی اب تھوڑے بڑے بچے جو کہ ٹین ایجر ہیں ان تربیت کے پیمانے الگ ہیں ۔
تربیت کا درست انداز
تربیت کا خوبصورت واقعہ
امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ وضو صحیح طریقے سے کر نہیں رہا تھا تو انہوں نے اس سے کہا کہ ہم دونوں کو یہ اشکال ہے کہ ہم وضو صحیح طریقے سے نہیں کرپارہے۔ آپ ہمیں وضو کرتا دیکھیں اور بتائیں کہ کیا ہم صحیح وضو کررہے ہیں۔ اب ان دونوں حضرات نے بڑے اہتمام اورکامل طریقے سے وضو کیا تو وہ صاحب کہنے لگے کہ آپ دونوں بالکل صحیح وضو کررہے ہیں ہاں البتہ میں وضو میں بعض اوقات غلطیاں کرجاتاہوں۔
اسی طرح بڑی عمر کے بچوں کواگر کوئی غلطی کرتا دیکھیں تو اسی وقت ٹوکنے کے بجائے کسی مناسب وقت پر گزشتہ غلطی کا حوالہ دئے بغیراسے سمجھائیں۔ کہ یہ کام اس طرح ہوتا ہے اسطرح نہیں۔ جیسے کچھ لوگ کرتے ہیں۔ ایسا کرکے آپ بچے کو شرمندہ کیے بغیرجو پیغام اسکے گوشہ ذہن مین منتقل کرینگے اسکا گہرا اثر ہوگا اور آیندہ اس غلطی کو نہیں دہرائے گا ۔تربیت کے یہ مختلف اندازہیں انہیں ہم اپنا کر اپنے بچوں کو نہ صرف یہ کہ بہترین انسان بلکہ معاشرے کا بہترین فرد بنا سکتے ہیں-
یہ بھی پڑہیں: اولاد سے پہلے والدین کی تربیت