ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
بنت اقبال احمد
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ان سے بڑھ کر کوئی عورت اپنے خاندان والوں کے لئے بابرکت نہیں دیکھی۔
یہ کون ہیں جن کے حق میں ام المؤمنین رضی اللہ عنہا یہ گواہی دے رہی ہیں، اور ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے ان کو بابرکت کہا گیا؟ جی ہاں یہ ہیں ام المؤمنین حضرت جویریہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہما۔
نام و نسب
آپ رضی اللہ عنہا کا نام جویریہ ہے نام ،پہلے آپ کانام برہ تھا، بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدل کر جویریہ رکھا ،قبیلہ بنو خزاعہ کے خاندان بنو مصطلق کے سردار حارث بن ابو ضرار کی بیٹی ہیں، سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:
جویریہ بنتِ حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عائذ بن مالک بن جزیمہ ۔
پہلا نکاح
جب نکاح کے قابل ہوئیں تو اپنے ہی قبیلہ کے ایک شخص مسافع بن صفوان کے حبالۂ عقد میں آئیں۔
غزوۂ مریسیع
سن 6 ہجری کو غزوۂ مریسیع (جسے غزوہ بنی مصطلق بھی کہتے ہیں) پیش آیا ،اس غزوہ میں مسلمانوں کے جوابی حملے میں بنو مصطلق کے گیارہ آدمی مارے گئے، جن میں مسافع بھی تھا۔اس غزوے میں بنو مصطلق کے چار سو افراد گرفتار ہوئے، دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ اسیرانِ جنگ میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ تمام قیدی لونڈی اور غلام بنا کر تقسیم کر دئے گئے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئیں، انہوں نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے کتابت کا معاملہ کر لیا، ( کتابت اسلام میں ایک مخصوص معاملے کا نام ہے، جس میں غلام اپنے آقا سے کہتا ہے کہ میں تمہیں اتنا مال دوں گا تو تم مجھے آزاد کردو گے) اور بدلِ کتابت نو اوقیہ سونا طے ہوا، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس مال تو تھا نہیں، انہوں نے چاہا کہ لوگوں سے مانگ کر یہ رقم ادا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئیں اور اپنے اسلام کا اظہار کرکے مدد کی درخواست کی۔
رسول اللہ سے نکاح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ میں تم کو اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ انہوں نے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری طرف سے رقم میں ادا کردیتا ہوں، اور تم سے نکاح کر لیتا ہوں۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے بخوشی منظور فرمالیا، اور اس طرح یہ نکاح ہوگیا۔
ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد کا قبول اسلام
ادھر یہ معاملہ چل رہا تھا، ادھر حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد حارث کو معلوم ہوا کہ بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئی ہے تو وہ اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لے کر فدیہ کے طور پر مال لے کر جس میں اونٹ بھی شامل تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہوا، راستے میں اس کو ان میں سے دو اونٹ بہت اچھے لگے، تو ان کو ایک گھاٹی میں چھپا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری بیٹی کنیز بن کر نہیں رہ سکتی، یہ میری شان سے بالا تر ہے، میں سردار ہوں، یہ میری بیٹی کے فدیہ کے طور پر مال حاضر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جویریہ سے خود پوچھ لو، جانا چاہیں تو لے جاؤ، باپ کے پوچھنے پر بیٹی نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول ہی کو اختیار کرلیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑ کر جانے پر تیار نہیں ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حارث سے فرمایا کہ وہ دو اونٹ کہاں ہیں جو تم نے گھاٹی میں چھپائے تھے؟ حارث یہ سن کر ششدر رہ گیا، اور کہا کہ ان کا علم تو میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہ تھا، اور اسلام قبول کر لیا، ساتھ ہی دونوں بیٹے بھی مسلمان ہوگئے۔
بنو مصطلق کی آزادی
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو جب معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمالیا ہے، تو انہوں نے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا، کہ جس خاندان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شادی کرلی وہ غلام نہیں ہو سکتا، (پھر بعد میں یہ لوگ مسلمان ہوگئے) حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہ تھا، مجھے قبیلے کی ایک عورت نے آکر اس بارے میں بتایا تو علم ہوا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کسی عورت کو جویریہ (رضی اللہ عنہا) سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا، ان کے سبب بنو مصطلق کے سینکڑوں گھرانے آزاد کر دئے گئے۔
وفات ام المؤمنین حضرت جویریہ
ربیع الاول ۵۰ھ میں پینسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ حاکم مدینہ مروان بن حکم نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اور جنت البقیع ان کی آخری آرام گاہ بنی۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کی روایات
ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعدد احادیث روایت کی ہیں، ان سے روایت کرنے والوں میں حضرت جابر، حضرت ابنِ عباس اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہم اجمعین اور عبد اللہ بن شداد اور کریب وغیرہ رحمہ اللہ عنہم شامل ہیں۔
زہد وتقویٰ
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری کنیز کو کسی نے صدقہ کا کچھ گوشت دیا تھا وہی رکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہی لے آؤ، چونکہ صدقہ جس کو دیا گیا تھا اس کو پہنچ چکا ہے۔
عبادت گزاری
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گذار تھیں، نماز کے بعد گھنٹوں ذکر میں مشغول رہتی تھیں، چنانچہ ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ان کے پاس سے باہر نکلے، وہ اپنے مصلے پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاشت کے وقت واپس تشریف لائے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا اسی طرح بیٹھی اپنے وظیفہ میں مشغول تھیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں جب تمہارے پاس سے گیا تھا کیا تم اس وقت سے برابر اسی حال میں اور اسی طرح پڑھ رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔(مسلم شریف)
ترمذی شریف کی روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم اس وقت سے اس وقت تک اسی حالت میں ہو؟ میں نے کہا جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں تم کو کچھ کلمات بتا دیتا ہوں، وہ پڑھ لیا کرو، وہ کلمات یہ ہیں:
سبحان اللّٰہ عدد خلقہ۔۔۔۔۔۳ بار
سبحان اللّٰہ رضا نفسہ۔۔۔۔۔۳ بار
سبحان اللّٰہ زنۃ عرشہ۔۔۔۔۔۳ بار
سبحان اللّٰہ مداد کلماتہ۔۔۔۔۔۳ بار
اور ابو داؤد شریف کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ میں نے تیرے بعد چار کلمے تین بار کہے ہیں، اگر ان کو تیری تمام تسبیحات کے ساتھ تولا جائے تو جو تو نے صبح سے اس وقت تک پڑھا ہے، تو وہ چار کلمات وزن میں بڑھ جائیں گے، وہ کلمات یہ ہیں:
سبحان اللہ و بحمدہ، عدد خلقہ، و رضا نفسہ، و زنۃ عرشہ، و مداد کلماتہ۔
ہم سب کی طرف سے اماں جان حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو سلام پہنچے!!