ٹیکسلا یونیورسٹی ہندوستان کی قدیم ترین درس گاہ

ٹیکسلا یونیورسٹی ہندوستان کی قدیم ترین درس گاہ
تحریر؛ جبران عباسی

قرۃ العین حیدر کے ناول “آگ کا دریا” میں ایک تاریخی مکالمہ درج ہے ؛

” تم کیسے فلسفی ہو جو الفاظ میں یقین نہیں رکھتے۔”
پاننی نے گوتم سے پوچھا، ”
“پاننی، تمہارے تکشلا کے استاد نے کہا تھا، آواز الفاظ کا پراکرت گن ہے۔ اور مادہ ابدی ہے۔ وید زبان کی شکل میں برہما ہے اور مادہ برہما ہے۔” گوتم بدھ نے جواب دیا۔

پاننی اپنے عہد کے عظیم دانش ور تھے اور گوتم بدھ ” بدھ مت” کے پیغمبر تھے جو آج دنیا کا چوتھا عالمگیر مذہب ہے۔

تکشیلا سر جان مارشل کی عظیم دریافت

سر جان مارشل 1902 سے 1931 تک آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ رہے ہیں۔ آپ نے موہنجوڈاڑو اور ہڑپہ کے قدیم شہر دریافت کئے ہیں ۔ سر جان مارشل وادی سندھ کی تہذیب پر تحقیقی کام کر رہے تھے جب آپ کو ٹیکسلا کے علاقے سری کپ میں بدھ مت کے کھنڈرات اور جولیان سٹوپا ملا ، جب مزید کھدائی ہوئی تو وہاں سے دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی تکلشیلا دریافت ہوئی۔ یہ ان کا عظیم کارنامہ ہے۔

تکشیلا سے ٹیکسلا تک

ٹیکسلا جسے ماضی میں ٹکشاشلا یا تیکشیلا کہا جاتا تھا گندھارا تہذیب کا دارالخلافہ تھا جہاں دنیا کی اہم درس گاہ قائم تھی ۔
پانچویں صدی قبل مسیح سے 470 عیسوی تک یہاں دنیا کی سب سے بڑی پاٹ شالا ( درسگاہ) قائم رہی ہے۔
اس درس گاہ میں بیک وقت دس ہزار طلبہ زیر تعلیم رہتے تھے جو 65 مختلف مضامین کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس درس گاہ میں 16 ملکوں کے شہزادے علم حاصل کرنے آتے وہ یہاں فنون جنگ کی تعلیم پاتے، سیاست اور حکومت کے گر سیکھتے اور واپس اپنی مملکتوں میں جا کر راج کرتے تھے۔

تکلشیلا کی درس گاہ کا آغاز کب ہوا ؟

تکلشِیلا یونیورسٹی میں کون کون زیر تعلیم رہا؟ تکلشیلا یونیورسٹی کی بدولت بدھ مت کیسے دنیا کا چوتھا بڑا مذہب بنا؟ کون تھا چانکیہ؟ تکلشیلا کے کس طالب علم نے گریٹر انڈیا کا قیام کیا؟ یہ سب اور تاریخ کے کچھ اور خاموش رازوں کے بارے میں جانتے ہیں۔

ٹیکسلا کی تاریخ

تکلشیلا (ٹیکسلا) کا سب سے پہلا ذکر ہندو مت کی مذہبی کتاب رامائن میں ملتا ہے۔ رامائن کے مطابق یہ شہر ایودھیا کے بادشاہ بھارت نے آباد کیا تھا۔ بھارت رام چندر کا سوتیلا بھائی تھا۔ یہ وہی رام چندر ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کی بیوی سیتا کو لنکا کے بادشاہ راون نے اغوا کر لیا تھا اور رام نے بندروں کی فوج کی مدد سے راون کو قتل کر کے سیتا کو واپس حاصل کیا تھا۔

تاہم آرکیالوجیکل سروے کے مطابق تکلشیلا کے قدیم ترین کھنڈرات 1000 قبل مسیح سے شروع ہوتے ہیں۔ رام چندر کا افسانوی زمانہ 7 تا 8 ہزار قبل مسیح کا ہے۔

تکلشیلا کا محل و وقوع

تکلشیلا قدیم شاہراہ ریشم کے کنارے آباد تھا۔ شاہراہ ریشم ہندوستان ، چین اور سنٹرل ایشیا کے درمیان تجارت اور آمد و رفت کا واحد ذریعہ تھی۔
جب تکلشیلا بدھ مت کے پیروکاروں کا مرکز بنا تو اسی شہر سے بدھ پیروکار گلگت کے رستے چین پہنچے ، ہمالیہ کے پہاڑوں سے ویت نام اور کمبوڈیا اور وہاں سے جاپان کی طرف بڑھے اور بدھا کی تعلیمات کو جاپان ، چین ، ویت نام اور دیگر ایشیائی ریاستوں میں پھیلایا۔

گندھارا کا دارالخلافہ

تکلشیلا گندھارا تہذیب کا مرکز تھا۔ گندھارا تہذیب موجودہ افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ تہذیب تھی۔ یہ تہذیب کابل ، بامیان اور قندھار سے شروع ہوتی اور صوبہ خیبر پختونخوا ، ہزارہ پوٹھوہار اور اٹک وغیرہ کے علاقوں میں اختتام پذیر ہوتی تھی۔ یہ ایک سیاسی و ثقافتی اکائی تھی۔

تکلشیلا کی درس گاہ

قدیم روایات کے مطابق جب آریہ اقوام نے سنٹرل ایشیا سے ہجرت کی تو وہ ہندوستان کے ہمالیائی مغربی علاقوں گلگت ، سوات ، پشاور ، مردان ، ٹیکسلا وغیرہ میں سب سے پہلے آباد ہوئے۔
یہیں سے انھوں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں دراوڑوں کو جنگوں میں شکستیں دیں اور پورے ہندوستان پر قبضہ کیا۔
آریاؤں نے اپنے سماج میں چار ذاتیں برہمن ، کھتری ، ویش اور شودر تشکیل دیں۔ برہمنوں نے خود کو اعلی مذہبی تعلیم سے منسلک کر دیا اور ایسی درس گاہیں تعمیر کیں جہاں ان کے بچے ہندو مت کی مذہبی رسومات سیکھتے تھے۔ اسی مقصد کے تحت تکلشیلا کی درس گاہ قائم کی گئی جو بعد ازاں ایک یونیورسٹی جیسی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔

تکشیلا درس گاہ کی مختصر تاریخ

فارسی سلطنت کا حصہ

535 قںل مسیح میں ایران کے بادشاہ دارا اول نے تکلشیلا کی درس گاہ ، گندھارا اور وادی سندھ کے دوسرے خطوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ فارسی سلطنت نے ان علاقوں پر 326 قبل مسیح تک حکمرانی کی ہے ۔ فارسی عہد میں تکلشیلا کی درس گاہ میں مصر ، بابل ، شام اور نینوا تک کے طالب علم زیر تعلیم رہتے تھے۔

سکندر اعظم کی تکشیلا آمد

تیسری صدی قبل مسیح میں یونان کا حکمران سکندر اعظم دنیا فتح کرنے کی مہم پر نکلا۔ فارس کے دارا سوم کو شکست دینے کے بعد وہ افغانستان پہنچا اور وہاں سے درہ خیبر کے راستے تکشیلا میں نمودار ہوا۔
اس وقت تکلشیلا کا حکمران راجہ امبھی تھا۔ راجہ امبھی نے سکندر اعظم کی اطاعت قبول کر کے سکندر اعظم کی خوب آؤ بھگت کی۔ سکندر کے ساتھ آئے تاریخ دانوں نے تکلشیلا درس گاہ کا بھی دورہ کیا اور اپنے تاریخ ناموں میں اس کا ذکر عظیم الفاظ میں کیا ہے۔
راجہ امبھی جہلم کے راجہ پورس کا حریف تھا۔ راجہ پورس نے سکندر اعظم سے فیصلہ کن جنگ لڑی تاہم شکست کھائی۔ جنگ جیتنے کے بعد سکندر اعظم نے اس خطے میں ایک یونانی گورنر تعینات کیا اور یونانی سکوں کو رائج کیا۔ تاہم تکلشیلا کی درسگاہ کو کچھ نقصان نہ پہنچا۔

یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس نے تکلشیلا کے مفصل حالات لکھے تھے جو امتداد زمانہ کی وجہ سے اب نایاب ہیں۔
جب سکندر اعظم تکلشیلا میں وارد ہوا تو تکلشیلا کی درسگاہ میں شہزادہ چندر گپت موریا زیر تعلیم تھا۔ چندر گپت موریہ نے بعد ازاں یونانیوں کی حکومت کو گندھارا تہذیب سے نکالا اور موریہ سلطنت کا آغاز کیا۔

چنْدر گپت موریا و چانکیہ کا تکلشیلا

چندر گپت موریا موریہ سلطنت کا بانی تھا۔ اس نے 350 قبل مسیح سے 295 قبل مسیح تک ہندوستان پر راج کیا ہے۔ چندرگپت جب شہزادہ تھا تو اسے تکلشیلا کی درس گاہ میں تعلیم مکمل کرنے بھیج دیا گیا تھا۔ یہاں اسے کوٹلہ چانکیہ نے سیاست، جنگ جیتنے کے گر اور سفارت کاری کے اہم اطوار سیکھائے۔
چندر گپت موریا اگر قدیم ہندوستان کا طاقتور بادشاہ گزرا ہے تو وہیں کوٹلہ چانکیہ اس عہد کا سب سے بڑا سیاسی ماہر اور دانشور تھا۔
چانکیہ نہ صرف تکلشیلا میں پیدا ہوا تھا بلکہ وہ تکلشیلا کی درس گاہ کا مشہور استاد تھا۔ چا نکیہ کا طرز زندگی انتہائی سادہ مگر ذہانت و شاطرانہ چالوں میں وہ سب سے تیز تھا۔ چانکیہ نے 150 ابواب پر مشتمل سیاست کے موضوع پر کتاب ارتھ شاستر تحریر کی تھی۔ ارتھ شاستر کو ہیروڈوٹس کی تاریخ ، ابن خلدون کے مقدمہ اور میکاولی کی دی پرنس کی طرح اہم تاریخی اہمیت حاصل ہے۔
چانکیَہ کا مشہور قول تھا ” کہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھو۔ تم صرف اپنی خوبیوں کی بدولت زندہ نہیں رہ سکتے”.

اشوک اعظم: بدھ مت کا عظیم پیروکار

اشُوک اعظم چندر گپت موریا کا پوتا اور گریٹر انڈیا کا بانی ہے۔ اشوک اعظم بادشاہ بننے سے قبل تکشیلا اور گندھارا کا گورنر بھی رہ چکا ہے۔
جب اشوک اعظم نے اقتدار سنبھالا تو جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ کلنگ کی مشہور لڑائی میں اشوک کی فوج نے ایک لاکھ افراد کا قتل کیا۔ اشوک لاشیں دیکھ کر بےحد رنجیدہ ہوا اور آئندہ جنگیں نہ لڑنے کی قسم کھا کر خود کو بدھ مت کا پیروکار بنا دیا۔
اشُوک اعظم نے بدھ مت کے پیرکاروں کی بہت بڑی مجلس منعقد کی اور بدھا کے چودہ قوانین کو پتھروں پر کندہ کر کے سارے ملک میں نصب کروایا ایسا ہی ایک فرمان ہزارہ ڈویژن کے شہر مانسہرہ اور میانوالی کے علاقے ماڑی انڈس میں اب تک نصب ہے۔

اشوک اعظم نے تکلشیلا کے علاقے سری کپ (جہاں تکلشیلا کی عظیم درس گاہ موجود تھی) میں بدھا کی خاک دفن کر کے ایک بہت بڑا اسٹوپا تعمیر کروا دیا تھا ، جولیان کا یہ سٹوپا آج کھنڈرات کی صورت میں موجود ہے۔
اشوک سے پہلے تکلشیلا درس گاہ ہندو مت کی مذہبی تعلیم تک محدود تھی تاہم اشوک کے بدھ پیروکار بننے کے بعد اس درسگاہ میں بدھ تعلیمات کا آغاز ہوا۔ اس درسگاہ سے فارغ التحصیل بدھ طلباء چین ، تبت ، کمبوڈیا ، نیپال ، سیلون ( سری لنکا ) ، جاپان ، انڈونیشیا ، ویت نام تک پھیلتے تھے اور وہاں کے لوگوں کو بدھ مت کے تعلیمات دیتے تھے۔
آخری عمر میں اشوک خود بھی ایک بدھ بھکشو بن گیا تھا اور اسی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔

تکلشیلا یونیورسٹی میں داخلہ کیسے ملتا تھا ؟

تکلشیلا کی درس گاہ میں اگرچہ بیک وقت دس ہزار طالب علم علم حاصل کرتے تھے تاہم وہاں کا حصہ بننے کےلئے ایک پروٹوکول یا طریقہ کار تھا۔
جب لڑکا سولہ برس کی عمر کو پہنچ جاتا تو اسے کچھ سامان اور پیسے دے کر تکلشیلا شہر کی طرف کسی تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ کر دیا جاتا تھا۔
تکلشِیلا کی درسگاہ میں لڑکے کا ایک سخت امتحان لیا جاتا تھا۔ قابلیت کے جائزے کے اس امتحان میں دس میں سے صرف تین لڑکے ہی پاس ہو پاتے تھے۔
تکلشیلا درس گاہ میں داخلہ لینے کےلئے باقاعدہ فیس مقرر تھی تاہم یہ رعایت ضرور تھی کہ جو طلباء فیس ادائیگی کے قابل نہ ہوتے تھے وہ درس گاہ کے معلموں کے چیلے بن جاتے تھے اور ان کی سیوا ٹہل کر کے تعلیم سے فیض حاصل کرتے تھے۔

تکلشیْلا میں کیا کیا سکھایا جاتا تھا؟

تکلشیلا یونیورسٹی میں 60 مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی جن میں سائنس ، وید گیان ، طب ، سنسکرت، گرائمر ، حساب ، قانون ، سیاست ، سفارت کاری اہم مضامین تھے۔ اس کے علاؤہ 18 جسمانی ہنر بھی سکھائے جاتے تھے جن میں شکار، جنگ ، یوگا وغیرہ شامل تھا۔
تکلشیلا درسگاہ کے فارغ التحصیل طلبا شاہی ریاستوں میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے۔ بادشاہ انھیں اعلی انتظامی امور پر منتخب کرتے تھے۔

تکلشیلا درسگاہ کی عمارات

تکلشِیلا درسگاہ میں 300 کمرے بطور لیکچر ہال موجود تھے ، طب کے تجربات کےلئے لیبارٹری ، فلکیات گاہ ، ایک عظیم لائبریری ، مراقبہ کےلئے کمرے اور تین اہم عمارات رتنا ساگر ، رتنو داوی ، رتنا یانجک موجود تھیں۔ ایک خوبصورت ندی یونیورسٹی کے عین مرکز سے بہتی تھی۔

تکلشیلا درسگاہ سے منسلک عظیم لوگ

پاننی : پاننی پانچویں صدی قبل مسیح میں اٹک کے کسی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے ۔ انھیں سنسکرت کا عظیم گرائمر دان کہا جاتا ہے۔ انھوں نے سنسکرت گرائمر پر Aṣṭādhyāyī نامی کتاب لکھی ہے۔

چانکیہ: تکلشیلا درسگاہ کے استاد اور اشوک اعظم کے صلاح کار گزرے ہیں ۔ اپنی کتاب ارتھ شاستر کی وجہ سے افسانوی شہرت پائی ہے۔

کمار لتا: بدھ مت کے ایک فرقے Sautrāntika کے بانی ہیں۔ آپ کی پیدائش بھی ٹیکسلا میں ہوئی ہے اور تعلیم بھی تکلشیلا درس گاہ سے مکمل کی ہے۔ بدھ مت کا یہ فرقہ چائنہ میں پایا جاتا ہے کیونکہ آپ خود چائنہ تشریف چلے گئے تھے اور وہاں بدھا کی تعلیمات کا پرچار کیا ہے۔

بادشاہ کوشالہ : اڈیسہ کا یہ بادشاہ بدھا کا قریبی دوست تھا اور یہ تکلشیلا سے ہی فارغ التحصیل تھا۔

بندولا: یہ فارس کا باسی تھا جس نے تکلشیلا سے اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور فارس کی فوج کے سالار اعظم کے عہدے پر فائز رہا تھا۔ فارسی فوج اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی۔

انگلیمالا : گوتم بدھ کا دوست اور تکلشیلا کا طالب علم تھا۔ وہ تکلشیلا میں اپنے ایک استاد کا سب سے چہیتا شاگرد بن گیا تھا۔ دوسرے طالب علموں نے حسد میں آ کر استاد کو ورغلایا اور اسے نکال دیا گیا۔ اس کا سامنا بدھا سے ہوا اور یہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کا دوست اور پیروکار بن گیا تھا۔

جیواکا: یہ بدھا کا طبیب تھا اور ایک شاہی ریاست کا شاہی طبیب تھا۔

تکلشیلا درسگاہ کا اختتام

موریہ سلطنت کے خاتمے کے بعد گپتا سلطنت کا آغاز ہوا گپتا خاندان کے زوال کے بعد ہندوستان میں انارکی پھیل گئی۔
پانچویں صدی قبل مسیح سے لے کر چوتھی صدی عیسوی تک تکلشیلا کی درسگاہ اپنے عروج پر رہی ہے۔ تاہم جب جب تیسری صدی قبل مسیح میں بدھ مت کا زور ٹوٹا اور پھر سے ہندو مت کو عروج ملا تو اس درس گاہ کی اہمیت میں خاصی کمی آئی۔ تاہم یہ اس دور میں بھی دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔
470 عیسوی میں سینٹرل ایشیا کے حملہ آور سفید ہنوں نے تیکشیلا کی درسگاہ اور تکلشیلا شہر کو مکمل تباہ کر دیا تھا۔
سفید ہنوں کے بعد جب چھٹی صدی عیسوی میں ہیون سانگ ایک چینی سیاح یہاں آیا تو تکلشیلا کی بدھ درسگاہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ تقریباً چھٹی صدی کے لگ بھگ یہ درس گاہ بالکل ختم ہو کر رہ گئی تھی۔
آج تکلشیلا کی عظیم درس گاہ ماضی کا ایک کھنڈر ہے جو اپنے اندر ایک عظیم مگر درد ناک داستان رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے:

آکسفورڈ یونیورسٹی جدید یورپ کا معمار تعلیمی ادارہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top