مہمانی اور مہمان:مہمان نوازی انسانی اقدار میں سے ایک بہترین قدر اور اعلیٰ صفت ہے۔مہمان نواز ہونا دراصل آپ کے مہذب اور دین دار ہونے کا آئینہ دار ہے ۔ اس مادی اور جدید دور میں مہمان اور میزبان دونوں کی مشترکہ کاوش ہی اس روایت اور ثقافت کو زندہ رکھ سکتی ہے ۔
مہمانی اور مہمان
ایک دفعہ میرے ایک بڑے وضع دار مرحوم دوست محمد سعید چشتی صاحب اپنے بڑے صاحبزادے کے ہمراہ میرے مہمان بنے، ان کے بیٹےکے لیے کسی دوسرے کے گھر رہنے اور مہمان نوازی سے لطف اُٹھانے کا یہ پہلا موقع تھا ۔میزبان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مہمان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔
اس لیے میں نے اور میری بیوی نے ان کے رہنے اور تواضع کا خاص خیال رکھا ۔یہ لوگ پہلی دفعہ ہمارے ہاں قیام کر رہے تھے۔ اس لیے میزبانی کے فرائض نبھانا بے حد ضروری تھا ۔ یہ دیکھ کر ان کے بچے نے کہا “انکل آپ لوگ اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں؟ ہم دونوں باپ بیٹا اپنا خیال خود ہی رکھ لیں گے۔
میں نے اسے بتایا کہ کاشف میاں ! میزبان کے بےشمار فرائض ہمارے دین اور ہماری روایات نے متعین کر دئیے ہیں۔ اور ہمارے دین اسلام میں مہمان نوازی کا اجر اور ثواب اتنا بڑا ہے، کہ جس کو بیان کرنے کے لیے بڑا وقت درکار ہے ۔ ہر میزبان اپنے وسائل اور دائرہ اختیار میں رہتے ہوے اخلاقی اور مذہبی طور پر مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو اس پر فرض ہے ۔ ہمارا مذہب مہمان نوازی کو عبادت اور مہمان کو اللہ کی رحمت قرار دیتا ہے ۔
یہ سن کرنوجوان کاشف نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پوچھنے لگا : کیا میزبان کی طرح مہمانوں کے بھی کوئی فرائض ہوتے ہیں؟ ہمیں بطور مہمان کن کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟اور کیا اس بارے میں ہمارا دین اسلام اور ہماری روایات ہمیں کچھ ہدایات دیتی ہیں؟
تو ہمارے مرحوم دوست نے اس پر اپنے بیٹے کو مہمانوں کے فرائض سے آگاہ کر نے کے لیے ایک طویل ہدایت دی۔ جو اتنی متاثر کن تھی کہ مجھے خود بھی ان چیزوں کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہونے لگا ۔کہ یہ سب حقوق میری نظر وں سے کیوں اوجھل تھے ؟یہ میرے مطالعہ میں کیوں نہ آسکے ؟
ہماری نصابی کتب ،جریدوں ،اور اخلاقی کتابوں میں ہمیں میزبان اور مہمان کے آداب اور حقوق کیوں پڑھائےنہیں جاتے ؟ جس سے ہم سب میں ایک اچھا میزبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا مہمان بننے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ اور بطور مہمان اور میزبان ہمار وقار بھی بلند ہو سکے ؟
مہمانی اور مہمان
میرا دوست پھر اپنے بیٹے کو بتانے لگا کہ میزبان کے حقوق کا خیال رکھنا بھی دراصل مہمانوں کے فرائض میں شامل ہے ۔پھر انہوں نے مہمان کے چند اہم فرائض بیان کئے ،جن کا جانناجدید دور میں اصلاح معاشرہ کے لیےبے حد ضروری ہے ۔آج ڈیجیٹل دور ہے اور دنیا میں ہر چیز میں جدت پیدا ہو رہی ہے۔
جہاں میزبانی مشکل ہوتی جارہی ہے، وہیں آج وقت و حالات کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی کے حقوق و فرائض بھی دن بدن بدلتے جا رہے ہیں ۔ بدلتی روایات کے ساتھ مہمان کے فرائض رفتہ رفتہ میزبان سے بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ موجود حالات کے تقاضوں اور مشکلات کے مد نظر انہیں سمجھنا اور ان پر عمل کرنا آج وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔
مہمانی اور مہمان
مہمان کی کچھ ذمے داریاں
دور جدید میں مہمان کا پہلا اور اولین فرض ہے، کہ وہ جہاں جائےباقاعدہ اجازت لےکر اور اطلاع دے کر جائے۔ میزبان کو اسکی آمد کے بارے میں علم ہو نا چاہیے۔ ایسانہ ہو کہ آپ اس کےگھر پہنچیں تو وہ موجود ہی نہ ہو ۔ شہر سے باہر ہو ، یا بیمار ہو ،یا اس کے گھر میں کوئی پریشا نی یا مسائل ہوں ۔
ہمیشہ خیر سگا لی اور اظہار محبت کے لیے اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا تحفہ اپنی حیثیت اور مالی استطاعت کے مطابق ضرور لیکر جائیں ۔ بہتر ہے کہ بن سنور کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور ہوسکے تو ہلکی پھلکی خوشبو لگا کر جائیں۔ تاکہ میزبان آپ کو دیکھ کر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار مہک محسوس کرے ۔
ہمارے ہر گھر کے آداب اور روایات الگ الگ ہوتی ہیں۔ میزبان کے گھر کی روایات کا احترام کریں، اور کوشش کریں کہ ان کی روایات کے مطابق وقت گزاریں ۔ بسا اوقات کچھ لوگ جلد سونے یا دیر سے اُٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اور بعض صبح تہجد کے وقت اُٹھ جاتے ہیں۔ آپکی وجہ سے ان کے معمولات میں فرق نہیں پڑنا چاہیے ۔
اگر باقاعدہ پروگرام کے تحت جارہے ہیں تو اپنی ضروریات کی اشیا ء ساتھ رکھیں ۔موبا ئل چارجر، تولیہ اور زائد کپڑے، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو ،شیونگ بکس وغیرہ ساتھ لے کر جائیں۔ انہیں بار بار تنگ نہ کریں بلکہ ان کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں ۔
آج کل بجلی کی مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔اس کے استعمال میں احتیاط برتیں، کمرے سے نکلتے وقت پنکھے اور لائٹ ضرور بند کردیں۔ نکلنے سےقبل کمرہ صاف رکھیں، اور اپنی چیزیں ادھر اُدھر نہ پھیلائیں۔ اپنے جوتے مناسب جگہ پر اتاریں۔ اور ایسے ہی کہیں نہ پھینک دیں، جو دیکھنے والے کو برے محسوس ہوں۔
مہمانی اور مہمان
خیال رہے کہ گھر میں مختلف عمر اور مختلف مزاج کے لوگ رہتے ہیں۔ ان سب میزبانوں کے مزاج کا خیال رکھیں ۔اور ان کے مزاج کے خلاف گفتگو سے پرہیز کریں ۔ خاص طور پر مذہبی اور سیاسی بحث سے اجتناب کریں ۔ کوشش کریں آپ کی بات سے کسی کی دلآزاری نہ ہو ۔ ہمیشہ اپنا موبائل تنہائی میں استعمال کریں۔
جب میزبان پاس بیٹھےہوں تو ان سے گفتگو کریں، ناکہ اپنے موبائل میں مشغول رہیں۔کھانے کی میز پرتوہرگز موبائل استعمال نہ کریں۔ مہمان خانے کے علاوہ دیگر کمروں میں جانے سے پرہیز کریں۔ کسی کے بیڈروم میں بغیراجازت نہ جائیں۔ بلااجازت و بغیر ضرورت ہرگز کچن میں مت جائیں، اور نہ ہی فریج کھول کھول کردیکھیں،نہ ہی دراز وغیرہ ٹٹولیں۔
یاد رکھیں آپ مہمان ہیں مالک نہیں ہیں۔ کھانا پیش کرنے کا انتظارکریں۔ جب میزبان کہے تب شروع ہوں خود ہی شروع نہ ہوجائیں ۔ کھانے کی تعریف کریں، الحمداللہ اور ماشااللہ کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ جو بھی پکا ہے پسند نہ بھی ہو ہلکا پھلکا ضرور لیں۔ نخرےکرنے کی اصل جگہ آپکا اپنا گھر ہے۔ وہاں آپکو گھروالی نخرہ کرنے نہ دےتو دوسروں کےگھروں کا انتخاب کیوں ؟
مہمانی اور مہمان
میز پر یا کرسی پرپاوں رکھ کر یا پھیلا کر مت بیٹھیں ۔ ۔اپنے کپڑے اتارکر نہ پھریں ۔ اگر آپکو قمیض وغیرہ اتار کرسونے کی عادت ہے تو جب تنہاہوجائیں، پھر کپڑے اتاریں۔ ہمیشہ ٹوائلٹ کو خوب پانی بہاکر اٹھیں۔ اور یاد رکھیں اس کی صفائی میں آپکی شخصیت چھپی ہے ۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں اور کھانے کے بعد پھر سے دھو کر تولیے سے صاف کریں ۔ میزبان کے اوقات کار کا خیال رکھیں۔ اگر انہیں اپنی ملازمت پر یا بزنس کیلیےجانا ہے،تو ان کےلیے سہولت پیدا کریں رکاوٹ نہ بنیں۔
سگریٹ نوشی سے مکمل پرہیز کریں۔ اگر بہت ضروری ہو تو گھر سے باہر جا کر شوق پورا کر یں ۔ خدانخواستہ میزبان اگر نماز وغیرہ کی پابندی نہیں کرتے، تو ان کے لیے دعاکریں۔ ناکہ انہیں لیکچر دینا یا مجبور کرنا شروع کردیں۔ سب سے بہترین تبلیغ کا طریقہ یہ ہے جیسے ہی نماز کا وقت ہو آپ کہیں” نماز کا وقت ہوگیاہے“ اور اٹھ کر چل دیں۔
کسی بھی قسم کی غیر ضروری فرمائیشوں سے اجتناب کریں ۔ میزبان سے چپک کر نہ رہ جائیں۔ اسے دیگر امور کا موقع دیں ۔ اسے آزاد رکھیں، تاکہ وہ اپنے کام کاج ملازمت وغیرہ پر جاسکے ۔ زیادہ دن مت رہیں۔ ویسے بھی تین دن کے بعد شرعا” آپ مہمان نوازی کے حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔
میزبان گھمانے لے جائے تو بل آفرکریں۔ جب بازاروغیرہ جائیں تو میزبان کی جگہ خود بل دینے کی کوشش کریں۔ ٹکٹ وغیرہ بھی خود خریدیں۔ گھر سے باہر شرعا” میزبان پرمہمانداری واجب نہیں رہتی ۔ گھر سے جاتے ہوئے باقاعدہ اجازت طلب کریں ۔اور کوئی نہ کوئی تحفہ دے کرجائیں ۔ خاص کر چھوٹے بچوں کو کچھ گفٹ یا پیسے ضرور دے کر جائیں۔
اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور جاتے ہوئے اہل خانہ کی زندگی ،روزی اور مال میں برکت کے لیے دعا ضرور کریں۔ کیونکہ میزبان کے گھر سے ناگہانی آفات اور بلائیں ہمیشہ مہمان کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتی ہیں ۔
ان کے علاوہ بھی ہماری بہت سی اعلیٰ عادات اور روایات ہیں ،جو اصلاح معاشرہ کے لیے اپنانی چاہیں۔ لیکن میرے دوست سعید چشتی مرحوم کے یہ چند آداب ہی اگر اختیار کرلیےجائیں، تویقین کریں آپ بہترین اور پسندیدہ مہمان بن جائیں گے۔ اور گھر کےبچے اور بڑے آپ کے دوبارہ آنے کے منتطر رہیں گے ۔ ورنہ یہی لوگ آپ کے جانے کے بعد پھر کبھی نہ آنے کی دعاکریں گے۔ذرا سوچیں کیا ہم اچھے مہمان ہوتے ہیں ؟