Saturday, December 21, 2024
Homeاسلامی معلوماتقربانی کے احکام ومسائل

قربانی کے احکام ومسائل

قربانی کا وقت

ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق سے لے کر بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک قربانی کرنے کا وقت ہے، چاہے جس دن قربانی کریں، لیکن قربانی کا سب سے افضل دن بقر عید کا دن ہے، پھر گیارہویں تاریخ، پھر بارہویں تاریخ۔ (عالمگیری)

نماز عید سے پہلے قربانی کا حکم

عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے، جب نماز عید پڑھ چکیں تب قربانی کریں، البتہ اگر کوئی ایسے دیہات یا گاؤں میں رہتا ہو، جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی، تو وہاں فجر کی نماز کے بعد قربانی کردینا درست ہے۔

رات کو قربانی کرنا درست ہے؟

دسویں تاریخ سے بارہویں تاریخ تک جب جی چاہے قربانی کریں، دن اور رات دونوں میں کر سکتے ہیں، لیکن دن میں کرنا بہتر ہے، کیونکہ مغرب کے بعد جانوروں کے آرام کا وقت ہوجاتا ہے۔

بعض کتابوں میں جو رات کو قربانی کرنا مکروہ لکھا ہوا ہے، وہ اس وجہ سے کہ اندھیرے میں کوئی رگ کٹنے سے نہ رہ جائے، لہٰذا، اگر روشنی کا انتظام ہو تو رات کو بھی ذبح کر سکتے ہیں، جیساکہ آجکل عام طور پر شہروں میں ہوتا ہے۔

کب صاحب نصاب ہونا معتبر ہے؟

قربانی میں صاحبِ نصاب بننے کے لیے دس ذوالحجہ کی صبح سے لے کر بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب سے پہلے تک کا وقت معتبر ہے، اس وقت میں جو بھی قربانی کا اہل ہوگیا، یا اہل تو تھا، لیکن صاحبِ نصا ب بن گیا، تواس پر قربانی واجب ہوجائے گی، مثلاً ایک شخص مسافر تھا، لیکن بارہ ذوالحجہ کی صبح کو وہ اپنے گھر پہنچ گیا، اور وہ صاحبِ نصاب بھی ہے، تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔

عید کے دن بالغ ہونے والے کا حکم

اسی طرح جو بچہ دس ذوالحجہ کی صبح سے لے کر بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب سے پہلے تک کسی وقت میں بالغ ہوگیا، اور وہ صاحبِ نصاب بھی ہے، تو اس پر بھی قربانی واجب ہوگی۔

یا کسی کے پاس بارہ کے غروب سے پہلے پہلے تک نصاب کے بقدرمال آگیا، تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔ بہرحال قربانی واجب ہونے کے لیے زکوٰۃ کی طرح نصاب کا مالک ہونے کے بعد سال گزرنا ضروری نہیں ہے۔

نصاب قربانی کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں

اسی طرح قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گذرنا بھی ضروری نہیں ہے، مثلاً اگر کسی کے پاس ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو عصر کے وقت ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے، اور دس تاریخ میں بھی اس کے پاس موجود رہا تو اس پر کل کو قربانی واجب ہوجائے گی۔ اور یہی حکم قربانی ساقط ہونے کا بھی ہے، کہ اگر بارہ ذوالحجہ کے غروب سے پہلے پہلے کوئی شخص قربانی کا اہل نہیں رہا، یا صاحبِ نصاب نہیں رہا، تو اس پر سے قربانی ساقط ہوجائے گی۔

قربانی کے لئے گھر کے افراد کی الگ الگ ملکیت معتبر ہے

قربانی واجب ہونے کے لیے گھر کے ہر شخص کی ملکیت علیحدہ دیکھی جائے گی، اگر کسی گھر میں باپ، ماں اور بیٹے بیٹیوں کی ملکیت میں سے ہر ایک کی ملکیت میں اتنا مال ہو، جس پر قربانی واجب ہوتی ہے، تو ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہوگی۔پوری فیملی کی طرف سے ایک قربانی کافی نہیں

۔قربانی کس پر واجب ہے؟

قربانی ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو عاقل ہو، بالغ ہو، مقیم ہو، اور صاحبِ نصاب ہو ۔

قربانی کرنے سے قبل کوئی فوت ہوجائے

قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر کسی شخص کا انتقال ہوگیا کہ جس پر قربانی واجب تھی، تو قربانی معاف ہے، اس کے ورثاء پر اس کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں۔

استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے کی تلافی کیا ہے؟

اگر قربانی کے دن گذر گئے، نا واقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہ کر سکا، تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے، لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانور کی قیمت صدقہ کر دینے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا، ہمیشہ گناہگار رہے گا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے، جیسے نماز پڑھنے سے روزہ، اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکوۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا، ایسے ہی صدقہ و خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی۔

بالغ اولاد،والدین اور بیوی کی طرف سے قربانی کا حکم

جو اولاد عاقل بالغ اور مالدار ہو، تو اس پر اپنی قربانی خود کرنا واجب ہے۔ اسی طرح اگر بیوی یا والدین مالدار ہیں، تو ان پر پر بھی اپنی قربانی خود کرنا واجب ہے۔ البتہ ماں باپ اپنی اولاد کی طرف سے، یا اولاد اپنے والدین کی طرف سے، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کی طرف سے اپنے مال سے بھی قربانی کرسکتا ہے۔ اس صورت میں نیابت کے مسائل لاگو ہوں گے۔

قربانی کا نصاب

جس شخص کے پاس درجِ ذیل اشیاء میں سے کسی ایک چیز یا ان میں سے بعض یا تمام چیزوں کا مجموعہ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو وہ قربانی کے لیے صاحبِ نصاب ہے۔ وہ پانچ اشیاء درجِ ذیل ہیں۔

پانچ صورتوں میں قربانی واجب ہے

جن پانچ اشیاء کے موجود ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے وہ یہ ہیں۔
(1)نقد رقم: خواہ کسی بھی کرنسی کی شکل میں ہو (2)سونا (3)چاندی:کسی بھی شکل میں ہو، خواہ زیورات کی شکل میں ہو، ڈلی کی شکل میں، خواہ استعمال میں ہوں یا نہ ہوں
(4) مالِ تجارت: یعنی وہ سامان یا جائیداد جو کہ بیچنے کی نیت سے خریدی ہو۔
(5) ضرورت سے زائد سامان: جیسے آرائشی اور نمائشی اشیاء غیر رہائشی پلاٹ، مکان، ٹی وی، وی سی آر وغیرہ۔
البتہ اگر کسی کے پاس ان پانچ چیزوں میں سے صرف اور صرف سونا ہے، تو اگر یہ سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زائد ہے تو قربانی واجب ہے، اور اگر ساڑھے سات تولہ سے کم ہے تو قربانی واجب نہیں۔ لیکن یہ صورت بہت کم ہوتی ہے، کیونکہ انسان کے پاس کچھ نہ کچھ نقد رقم موجود ہی ہوتی ہے۔

قربانی اور زکات کے نصاب میں فرق

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی بھی اسی شخص پر فرض ہے، جس پر زکوٰۃ فرض ہے، تو یہ غلط ہے، کیونکہ زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے چار چیزوں کا اعتبار ہے، جبکہ قربانی واجب ہونے کے لیے پانچ چیزوں کا اعتبارِ ہے۔

کن جانوروں کی قربانی کی جاسکتی ہے؟

قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، بھیڑا، دنبا، دنبی کی قربانی ہوسکتی ہے۔ ان کے علاوہ اور کسی جانور کی قربانی درست نہیں، اگرچہ کتنا ہی زیادہ قیمتی ہو، اور کھانے میں جس قدر بھی مرغوب ہو، لہٰذا ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی، اسی طرح دوسرے حلال جنگلی جانور بھی قربانی میں ذبح نہیں کیے جاسکتے۔

مخلوط النسل جانوروں کی قربانی کا حکم

مختلف الجنس جانوروں کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہو، تو وہ ماں کے تابع ہے، پس اگر ماں کی جنس قربانی کے جانوروں میں سے ہے، تو اس کی قربانی درست ہے، جیساکہ نر ہرن اور بکری کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی درست ہے۔

قربانی کے جانور کی عمریں

: گائے، بیل، بھینس، بھینسا کی عمر کم از کم دو سال، اور اونٹ اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال، اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر بھیڑ یا دنبہ سال بھر سے کم کا ہو، لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال بھر والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو، تو اس کی قربانی بھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ چھ (6) مہینے سے کم کا نہ ہو۔

اگر جانور کا فروخت کرنے والا پوری عمر بتلاتا ہے، اور ظاہری حالات سے اس کی تکذیب نہیں ہوتی، تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ (جواہر الفقہ)

قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہیے؟

چونکہ قربانی کا جانور بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جاتاہے، اس لیے بہت عمدہ، موٹا تازہ، صحیح سالم، عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب قربانی کا ارادہ فرمایا، تودوبڑے عمدہ، فربہ، سینگوں والے، سیاہ و سفیدی مائل رنگ کے خصی دنبے خریدے۔

اس حدیث میں ان مینڈھوں کی پانچ صفات بیان کی گئیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کے اعلیٰ ترین اور عمدہ نسل کے مینڈھے تھے ۔

خصی جانور کی قربانی

خصی جانور کی قربانی نہ صرف یہ کہ درست ہے بلکہ افضل ہے، کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ایسے جانور کی قربانی کی ہے، جیسا کہ مسند احمدکی درج بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔

وہ عیوب کہ جن کی وجہ سے قربانی جائز نہیں ہوتی

ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، اس طرح کہ وہ جانور تین پاؤں پر چلتا ہو، اور اپنا چوتھا پاؤں زمین پر رکھتا ہی نہیں، یا چوتھا پاؤں رکھتا تو ہے، مگر اس سے چلتا نہیں نہی سہارا لیتا ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ۔
جو جانور بالکل اندھا ہو، یا بالکل کانا ہو، یا ایک آنکھ کی تہائی سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو، اس کی قربانی درست نہیں۔

پیدائشی کانا جانور کی قربانی

کسی جانور کے پیدائش ہی سے کان نہیں تو اس کی قربانی درست نہیں، اسی طرح جس جانور کا ایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو، یا اس کے کان میں کوئی سوراخ یا چیرہ ہو، اور وہ اتنا بڑا ہو کہ وہ تہائی کان سے زیادہ ہو، تو اس کی بھی قربانی درست نہیں۔ جس جانور کی دم کٹ گئی ہو، یا اس کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹ گیا ہو، اس کی بھی قربانی درست نہیں۔

بیمار اور لاغر جانور کی قربانی

ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو، یعنی ایسا دبلا، مریل جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو یا جانور اتنا لاغر ہو کہ قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں سے نہ جاسکے تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔

جس جانور کے بالکل دانت نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں، اور اگر کچھ دانت گرگئے ہیں، یا گھس گئے ہیں، اور کچھ باقی ہیں، لیکن گھاس نہیں کھاسکتا تو اسکی قربانی درست نہیں
جس جانور کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے، تو اس کی قربانی درست نہیں۔

زخمی جانور کا حکم

جس جانور کے جسم پر زخم ہو، جیسے بعض جانوروں کو علاج کے طور پر لوہے سے داغ دیا جاتاہے، یا پیٹھ پر مارنے سے زخم بن گیا ہو،یا کسی عضو میں زخم ہوکر کیڑے پڑ جائیں، اور اس کی وجہ سے وہ اس قدر دبلا ہو جائے کہ اس کی ہڈی میں مغز نہ رہے تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

پاگل جانور کی قربانی

اگر جانور پاگل ہے، اور اس کا پاگل پن اتنا زیادہ ہے کہ وہ اس کی وجہ سے کچھ کھاتاپیتا نہیں تو اس کی قربانی جائز نہیں۔
اگر گائے، اونٹنی یا بھینس کے دونوں تھن خراب ہو گئے ہوں، یا موجود نہ ہوں تو اس کی قربانی جائز نہیں، اور بکری کا ایک بھی تھن اگر خراب ہو یا موجود ہی نہ ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔

مادہ جانور کے پیٹ سے بچہ نکلے

اگر مادہ جانور کی قربانی کی، اور اس کے پیٹ میں بچہ نکل آیاتب بھی قربانی ہو گئی، اگر وہ بچہ زندہ ہے، تو اس کو بھی ذبح کردیں۔

وہ عیوب جن کے ہوتے ہوئے قربانی درست ہے

وہ چند عیوب کہ جن کے باوجود قربانی جائز ہوجاتی ہے
بعض عیب ایسے ہیں جن کے ہوتے ہوئے بھی قربانی درست ہوجاتی ہے، لیکن پھر بھی افضل یہ ہے کہ جانور ہر قسم کے ظاہری عیب سے پاک ہو۔
اگر جانور ظاہری طور پر عیب سے پاک تھا، لیکن قربانی کے بعد گوشت خراب نکلا یا کوئی اندرونی بیماری یا عیب کا پتہ چلا تو قربانی درست ہوگئی۔ (مرقاۃ ؍ مبسوط)

اگر قربانی کے لیے جانور کو گراتے وقت کوئی عیب پیدا ہوگیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس کی قربانی درست ہے۔

بھینگے جانور کی قربانی

جس جانور کے کھر نہ ہوں، لیکن اس کو چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو، تواس کی قربانی بھی درست ہے۔
اگر جانور صرف بھینگا ہو تو اس کی قربانی درست ہے۔
اگرجانور کے دونوں کان ہیں، اور صحیح سالم ہیں، لیکن ذرا چھوٹے چھوٹے ہیں، تو اس کی قربانی ہوسکتی ہے۔ (عالمگیری)

اگر جانور کے دانت نہ ہوں

گر جانور کے دانت کھس گئے یا کچھ توٹ گئے لیکن وہ گھاس کھا سکتا ہے، تو اس کی قربانی درست ہے، اور اگر گھاس نہیں کھا سکتا تو درست نہیں۔ (رد المحتار ؍ بدائع ؍ احسن الفتاویٰ )
کسی جانور کے پیدائش ہی سے سینگ نہیں، لیکن عمر اتنی ہوچکی ہے جتنی عمر قربانی کے جانور کی ہونی لازمی ہے تو اس کی قربانی درست ہے، اور اگر سینگ نکل آئے تھے، اور ان میں سے ایک یا دونوں کچھ ٹوٹ گئے، یا صرف سینگ کا خول اتر گیا ہو، تو ان کی قربانی ہوسکتی ہے۔ ہاں اگر(شامی؍ احسن الفتاویٰ)

جانور کو بے سینگ کرنے کا حکم

آجکل قربانی کے جانوروں میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے ان کے سینگ ختم کر دئے جاتے ہیں، جس کے مختلف طریقہ آجکل استعمال ہوتے ہیں۔ چونکہ وہاں پر مقصود جانور میں خوبصورتی پیدا کرنا ہوتا ہے، اور یہ عیب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے لہٰذا، اگر کوئی زخم یا عیب نہ ہو تو ان جانوروں کی قربانی بھی جائز ہے۔

علاج کے لئے جانور کا جسم داغا گیا ہو

جس جانور کے جسم پر زخم ہو، جیسے بعض جانوروں کو علاج کے طور پر لوہے سے داغ دیا جاتاہے، یا پیٹھ پر مارنے سے زخم بن گیا ہو، تو اگر زخم یا داغ سے صرف کھا ل متأثر ہے، تو اس کی قربانی درست ہے۔ اسی طرح اگر کسی عضو میں زخم ہوکر کیڑے پڑ جائیں، اور اس کی وجہ سے وہ اس قدر دبلا ہو جائے کہ اس کی ہڈی میں مغز نہ رہے تو اس کی قربانی جائز نہیں، ورنہ جائز ہے۔

اگر جانور پاگل ہے،لیکن اس کا پاگل پن اس کے کھانے پینے میں رکاوٹ نہیں بنتا، تو اس کی قربانی جائز ہے۔
اگر گائے، اونٹنی یا بھینس کا ایک صرف تھن خراب ہوگیا ہو، یا سرے سے موجود ہی نہ ہو تو اس کی قربانی درست ہے۔

ذبح کے مسائل و شرائط

ذبح سے جانور کے حلال ہونے کی شرط یہ ہے کہ کوئی مسلمان ذبح کرنے والا ذبح کرتے وقت زبان سے اللہ کا نام لے کر ذبح کرے اور جانور کی مطلوبہ رگیں کاٹ دے ۔ ذبح کے متعلقہ مسائل درج ذیل ہیں :

1۔ بہتر یہ ہے کہ عربی میں ”بسم اﷲ اﷲ اکبر ” یا ”بسم اﷲ واﷲ اکبر” کہیں، لیکن اگر صرف بسم اﷲکہا ، یا اللہ پاک کاکوئی سا بھی نام لیا تو بھی جانور حلال ہوجائے گا، اور عربی زبان میں کہنا ضروری نہیں، کسی بھی زبان میں کہہ سکتے ہیں۔ (محمودیہ۱۷؍۲۳۹،۲۴۱)

چھری پھیرنے والا خود بسم اللہ پڑھے

2۔ چھری پھیرنے والے کاخود بسم اللّٰہ پڑھنا ضروری ہے، کسی اور کا بسم اللّٰہ پڑھنا کافی نہیں۔ اور اگر کسی اور نے، مثلاًپاؤں پکڑنے والے نے بسم اﷲ پڑھی تویہ کافی نہیں ہوگی۔
3 اگر کوئی شخص یا قصاب جو چھری پھیرنے والے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے یا چھری پھیرنے میں اس کی مدد کرے اس کا بھی بسم اﷲپڑھنا ضروری ہے۔

اگر دو افراد مل کر چھری پھیریں

4اگر دو شخص ملکر اس طرح چھری پھیریں کہ کچھ گردن ایک نے کاٹی اور کچھ دوسرے نے تو بھی دونوں کا بسم اللّٰہ پڑھنا ضروری ہے۔
5 بسم اﷲ بالکل ذبح کے وقت پہلی رگ کے کٹنے سے پہلے پہلے پڑھی جائے۔
6 ا گر کوئی رگ کٹنے سے رہ گئی تو اسکو کاٹتے وقت دوبارہ وبسم اللّٰہ دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ (عالمگیری)

بسم اللہ بھولنے کا حکم

7 اگر بسم اﷲ پڑھنی بھول گئے تو جانور حلال ہے، رگیں کٹنے سے پہلے یاد آگیا تو بسم اﷲ پڑھنا ضروری ہے، بعد میں یاد آیا تو ضروری نہیں۔ ( احسن الفتاوی: ۷؍۴۰۳ )

کتنی رگیں کاٹنا ضروری ہے؟

کسی تیز دھار آلہ مثلاً چھری یا چاقو سے گردن کی چار رگیں کاٹنا ضروری ہے ۔ وہ چار رگیں یہ ہیں: ! نرخرہ یعنی سانس لینے کی وہ نالی جس سے کھاناپینا اندر جاتا ہے۔ اور خون کی وہ دو رگیں جو نرخرہ کے دائیں بائیں ہوتی ہیں،ان چاروں رگوں کو کاٹناہے،

 اگر ان میں سے کوئی سی بھی تین رگیں کاٹ دیں تو بھی حلال ہے،لیکن اگرصرف دو ہی رگیں کٹیں تو حلال نہیں۔

عشرۃ ذوالحجہ کے پڑھنا تو اس لنک پر کلک کیجئے۔

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی