امت مسلمہ
اس دور میں جبکہ پوری دنیا میں اسلامی شعائر کی کھلی توہین کی جارہی ہے ،فحاشی و عریانی ، حرام خوری و قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، ہر جگہ مسلمانوں کے مابین باہمی جنگ و جدال ، اختلاف اور تشتت کا ماحول ہے،ایسے وقت میں کچھ عناصر گڑے مردوں کو اکھاڑکر اور سوئے ہوئے فتنوں کو جگاکر اپنے تئیں دین کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔چنانچہ کہیں مشاجرات صحابہ پر گفتگو ہے تو کہیں فرقہ وارانہ مباحثے جاری ہیں ،کہیں مسلکی ترجحات زیر بحث ہیں تو کہیں شخصیات کی فکری غلطیوں پرتبصرے ہیں۔
غیر ضروری بحث ومباحثہ
کچھ زیر بحث موضوعات ایسے ہیں جو اگر مثبت انداز میں بیان کئے جائیں تو کسی حد تک قابل برداشت ہیں لیکن یہ مسلمانوں کے اصل مسائل ہر گز نہیں ہیں مسلم معاشرے کو درپیش حقیقی چیلنجز کچھ اور ہیں۔ جن لوگوں کو امت کی رہنمائی کرنی چاہیے وہ غیر ضروری بحث ومباحثہ میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔اس وقت مسلم کمیونٹی جس دینی انحطاط کا شکار ہے اس کی طرف کوئی سنجیدہ اور حکمت عملی پر مبنی توجہ نہیں ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت دین کی بنیادی تعلیمات تک سے کوسوں دور ہے، دنیا میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے کہ جس نے آج تک نہ قرآن کے پیغام کو سمجھا ہے اور نہ ہی کسی نے انہیں یہ پیغام پہنچانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ، مسلمانوں کی زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو کہ جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ یہاں اسلام اجتماعی طور پر بحیثیت دین زندہ ہے، انفرادی اور خاندانی زندگی میں بھی اسلامی تعلیمات کے اثرات خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
مسلکی،سیاسی،گروہی تعصبات
اس ساری صورتحال میں اگر ہم دینی خدمات سے وابستہ افراد کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں ایک عجیب کیفیت نظر آتی ہے، کہ ہمارے ہاں محنت اس بات پر زیادہ ہے کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے ہیں، لیکن بے نمازیوں کو نماز کی طرف کیسے بلا نا ہے اس پر کوئی محنت نہیں ہے ۔صحابہ کے مشاجرات پر تو ہم بڑے مباحثے کرنے کو تیار ہیں لیکن اپنے گناہوں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ ہی نہیں ۔ماضی کی اسلامی سلطنتوں کے امراء کی غلطیوں پر تبصرے کرنا ہمارے دانشوروں کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن اپنے معاشرہ کی برائیوں کو ختم کرنے کی کوئی مثبت سعی نظر نہیں آتی۔
مقابلہ اوصاف حمیدہ میں ہونا چاہیے
ہمارے ہاں آپس میں یہ تقابل تو بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے کہ کونسے بزرگ یا شیخ مرتبے اور علم و فضل میں بڑے ہیں لیکن آپس میں فضائل اور اوصاف حمیدہ میں سبقت نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس پر محنت کی جاتی ہے ۔ ہماری سیاسی ،اعتقادی، جماعتی, گروہی اور مسلکی وابستگیاں اس وقت اسلام سے وابستگی پر غالب آچکی ہیں۔دین کی دعوت اپنی جماعت ،تنظیم یا سلسلہ میں شمولیت کی دعوت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت پا چکی ہے۔
امت کو قرآن سے جوڑنے کی ضرورت ہے
اس وقت دین کے کئی شعبہ ایسے ہیں جو امت کے لئے گروہی،مسلکی ،سیاسی اور تنظیمی ترجیحات سے کہیں زیادہ اہم ہیں ،ان شعبوں میں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے ۔ مثال کے طور پر قرآن کا درست طریقہ سے پڑھنا اورپھر اس کو سمجھنا سر فہرست ہے، ہمارے ہاں عملی طور دیکھا جائے تو یہ کام دین سے وابستہ لوگوں کے لئے غیر اہم نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ روز مرہ کی زندگی سے متعلق بنیادی مسائل، معیشت اور معاشرت سے متعلق مسائل، ان سب کی ایک لمبی فہرست ہے جن پر کوئی سنجیدہ کام نظر نہیں آتا ۔
ایک درد مندانہ گزارش
اس وقت ان سطور کے ذریعہ ہم ان حضرات سے جوکہ کسی بھی طریقہ سے دین کی خدمت کر رہے ہیں یا دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا متعلقہ شعبہ جات سے وابستہ ہیں ان سے خصوصاً اور امت کا درد رکھنے والے ہر مسلمان سے عموماً یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں ہے کہ وہ اس طرف ضرور توجہ دیں،اور اپنی توانائیاں لوگوں کو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم پہنچانے، بڑے بڑے گناہوں سے بچانے، ان کے معاملات ٹھیک کروانے، اسلامی اخلاقیات کو عام کرنے، ان کی خار دار خاندانی زندگی کو شریعت و طریقت کے گلوں سے گلزار بنانے میں خرچ کریں!
ذرا سر اٹھاکر دیکھئے! یہ عالم اس وقت جل رہا ہے اس کی آگ کو مزید نہ بھڑکائیں، بلکہ اسے بجھانے کی کوشش کریں ،جتنا برس سکتے ہیں برسیں ،خوب برسیں ، مسلمانانِ عالم سیرابی کو ترس رہے ہیں ،ان کو سیراب کریں ان کی پیاس بجھائیں ان کو اس پیاس کا احساس دلائیں، یقین جانئے توانائیاں ختم ہو جائیں گی، وسائل کم پڑ جائیں گے لیکن یہ پیاس بجھتے نہیں بجھے گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی ،راہیں کھلتی چلی جائیں گی میدان وسیع تر ہوتا جائے گا اور اللہ کی مدد شامل حال ہوتی جائے گی ، صرف تھوڑی سی توجہ اور سوچ کی تبدیلی درکار ہے ۔
تحریر:فرحان فاروق