پاکستان میں سی سیکشن ضرورت یا آپشن ؟
نوید نقوی
جن ممالک میں کرپشن عام ہو احتساب کا عمل ناقص اور سیاست زدہ ہو وہاں ہر جگہ نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے اور ہر بندہ ہاتھ میں چھری لیے پھرتا ہے، اس کو جہاں موقع ملتا ہے اپنے ایک روپے کی خاطر اگلے کا ہزار کا نقصان کر دیتا ہے اور بے فکر ہو کر زندگی گزارتا ہے کیونکہ جب پکڑے جانے کا خوف نہ ہو تب جرائم اور کرپشن بڑھتی ہے اور ہر انسان اختیار سے تجاوز کرتا ہے۔
پاکستان میں محکمہ صحت کی زبوں حالی
یوں تو وطن عزیز میں ہر محکمے کا برا حال ہے لیکن محکمہ صحت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ڈاکٹر ہوں یا عملہ، اپنی جگہ ہر کوئی فرعون بنا ہوا ہے یہ اپنی مرضی سے پرائیویٹ کلینک کھول کر مرضی کی فیس لیتے ہیں اور ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہے۔ آئے روز ڈاکٹرز کی بے حسی کے واقعات میڈیا کے ذریعے سننے کو ملتے ہیں ، کبھی یہ آؤٹ ڈور بند کر دیتے ہیں اور کبھی یہ غیر معینہ مدت تک ہڑتال پر چلے جاتے ہیں کبھی ان کی غفلت سے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں لیکن ان کو پرواہ نہیں ہوتی۔
ڈاکٹروں اور وکیلوں کا منظم پیشہ
پاکستان میں سب سے زیادہ کمائی جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے وکیلوں کی ہے یا پھر ڈاکٹروں کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں پیششے منظم ہیں اور ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہے، اگر کوئی بہادر آفیسر ان کو قانون سکھانے کی کوشش بھی کر لے تو یہ اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔
میرے ایک دوست کے گھر ڈیلیوری کیس تھا نزدیکی شہر کے نامور پرائیویٹ کلینک پر لے گیا تو ڈاکٹر کے نمائندے نے کہا ایمرجنسی کیس ہے 3 بوتلیں خون کی اور پچاس ہزار روپے بھی تیار کرو نہیں تو زچہ و بچہ کی جان خطرے میں ہے، مجھ سے اس نے یہ بات شئیر کی تو میں نے کہا احتیاطاً کسی اور ڈاکٹر کو بھی چیک کروا لو، اللہ بھلا کرے جب وہ ڈاکٹر خالدہ ناصر کے پاس گیا تو انہوں نے کہا آپریشن کی تو کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن تو حقیقی ایمرجنسی میں کیا جاتا ہےاور سی سیکشن یعنی آپریشن کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت مستقبل میں زیادہ کمزور ثابت ہوتے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ اور ہالینڈ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کسی ویکسین کے جواب میں ہمارے مدافعتی نظام کے ردعمل کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہماری پیدائش کیسے ہوئی تھی، یعنی نارمل ڈیلیوری یا آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے۔اس تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ نارمل ڈیلیوری یا قدرتی طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں میں ویکسین لگانے کے بعد پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی مقدار آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دگنا ہوتی ہے۔
سی سیکشن کیا ہے ؟
آخر یہ سی سیکشن یا آپریشن ہے کیا چیز ؟سی سیکشن بچے کو جنم دینے کے عمل کا ایک طریقہ ہے جو سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بعد نگہداشت ویسے ہی کرنی چاہیے جیسے عام سرجری کے بعد کی جاتی ہے۔
عام طور پر سی سیکشن میں 10 سینٹی میٹر لمبا کٹ لگتا ہے لیکن کٹ کی لمبائی اور اس کی گہرائی جسامت اور ضرورت پر منحصر ہوتی ہے۔سی سیکشن بچے کی پیدائش کا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے بچے کو آپریشن کے ذریعے پیٹ سے نکالا جاتا ہے۔ اس عمل میں حاملہ خاتون کے پیٹ کے نچلے حصے اور بچہ دانی میں کٹ لگا کر بغیر کسی درد یا تکلیف کے بچے کو باہر نکال لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں 1990 سے2013 کے درمیان سی سیکشن کی شرح 2.7 سے بڑھ کر7.8 ہوگئی
یہ عمل دراصل ایسے کیسز کے لیے بنایا گیا تھا جن میں حمل کا وقت مکمل ہو چکا ہو اور اسے آگے بڑھانا ماں یا بچے یا دونوں کی زندگی کے لیے خطرناک ہو۔ پاکستان میں موجودہ سال میں ہونے والے سی سیکشن کے اعداد و شمار تو میرے پاس دستیاب نہیں ہیں کیونکہ ہر ہسپتال کے مختلف اعدادو شمار ہیں جن کو ایک جگہ کسی سروے کے ذریعے ابھی تک اکٹھا نہیں کیا گیا ہے۔لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں کا ڈیٹا موجود ہےپاکستان ڈیمو گرافکس اور ہیلتھ سرویز کے مطابق سنہ 2013-1990 کے دوران سی سیکشن کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 91-1990 کے دوران سی سیکشن کے ذریعے ڈلیوری کی شرح 2.7 فیصد سے بڑھ کر 13-2012 میں 15.8 فیصد تک پہنچ گئی۔ سروے کے مطابق دیہی خواتین کی 11.5 فیصد کے مقابلے 25.6 شہری خواتین سی سیکشن کے ذریعے بچے کو جنم دیتی ہیں۔
صحت کے بارے میں عدم آگاہی اور کاروباری ذہنیت رجحان میں اضافے کی وجہ
پاکستان میں گذشتہ 20 برسوں میں سی سیکشن کے بڑھتے ہوئے اس رحجان کی وجہ صحت کے حوالے سے کم علمی، ملک میں پیشہ ورانہ میڈیکل اسٹاف کی کمی اور طب کے شعبے کی نگرانی کے لیے کسی مؤثر نظام کی عدم موجودگی ہے۔پاکستان میں اکثر خواتین نارمل ڈلیوری میں ہونے والے درد کے خوف اور لوگوں کی سنی سنائی باتوں میں آکر سی سیکشن کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب کچھ ڈاکٹر بھی پیسوں کے لالچ میں آکر مریض کا سی سیکشن کردیتے ہیں۔دراصل یہ ایک مافیا ہے جو سی سیکشن کو کاروبار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
سی سیکشن ضرورت یا آپشن ؟
اس حوالے سے بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کلینکس کھول کر اور سی سیکشن کی تمام ترپیچیدگیوں کو نظر انداز کر کے یہ عمل سرانجام دیا جاتا ہے۔کیا سی سیکشن ایک ضرورت ہے یا آپشن ؟ اس سوال پر دو مختلف رائے پائی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر ڈاکٹروں کی رائے اور تجربے میں سی سیکشن ایک آپشن سے زیادہ کچھ نہیں اور سی سیکشن شدید ضرورت کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔یہ اُن صورتوں میں ضروری ہے اگر بچہ دانی کا راستہ چھوٹا اور بچہ بڑا ہو، چار گھنٹے تک بچہ باہر نہیں آ رہا ہو، ایمنیوٹک سیک یعنی بچے کے گرد تھیلی نما جلد کا پانی ہرا ہو جائے یا ماں کو ڈیلیوری کے دوران تیز بخار ہوجائے۔ ماں کو دورانِ زچگی یا اُس سے پہلے شُوگر ہونے کی صورت میں بھی سی سیکشن کیا جاتا ہے۔
ان وجوہات کے علاوہ عورت کا جسم نارمل ڈیلیوری کے لیے بالکل صحیح ہے۔ دورانِ زچگی ہر درد کے ساتھ بچہ دانی سکڑتی اور صحیح ہوتی ہے۔ ایک گھنٹے میں ایک سینٹی میٹر بچہ دانی کُھلتی ہے۔ اس میں چالیس سیکنڈ کے وقفے کے بعد بچے کو آگے دھکا ملتا ہے۔لیکن اگر بچے کے لیے راستہ نا بن رہا ہو تو اس صورت میں سی سیکشن کرنا پڑتا ہے۔جن خواتین کا پہلے دو بار آپریشن ہو چکا ہو اُن کو تیسری بار سی سیکشن کرنے کے بجائے ڈیلیوری ڈیٹ دے کر درد اٹھنے سے پہلے ہی آپریشن کیا جاتا ہے۔مختلف ڈاکٹرز کے مطابق پہلی بار سی سیکشن ہونے کے باوجود بھی دوسری ڈیلیوری نارمل ہو سکتی ہے۔لیکن اس میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ پہلے سی سیکشن کا زخم نہ پھٹے۔ اس لیے زخم اور ٹانکوں کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر دوسری بار ڈیلیوری سے پہلے اس زخم کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔
فیصلے کا اختیار مریض کے پاس ہونا چاہئے یا ڈاکٹر کے؟
برطانیہ میں حکومت کی طرف سے خواتین کو یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر سی سیکشن کرنے یا نا کرنے کا فیصلہ کر سکیں جبکہ پاکستان میں کسی خاتون کو سی سیکشن کرانا چاہیے یا نہیں، یہ حق ڈاکٹر کے پاس ہوتا ہے یا لڑکی کے سُسرال کے پاس۔ یا پھر اگر داماد پیسوں والا ہو تو لڑکی کی ماں بھی یہ مطالبہ کر دیتی ہے تاکہ اس کی بیٹی کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو حالانکہ مستقبل میں یہی پچھتا بھی رہی ہوتی ہیں جب ان پیچیدگیوں کا پتا چلتا ہے۔
پاکستان میں یہ کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے اور ڈاکٹرز دھڑا دھڑ سی سیکشن کر رہے ہیں تاکہ ان کے منافع میں کسی قسم کی کمی نہ ہو۔ وہ مریض دیکھ کر ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ پارٹی منافع دے گی یا غریب ہیں۔اس وقت پاکستان کے زیادہ تر ڈاکٹرز ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھاگتے نظر آتے ہیں۔ اس دوڑ میں مریض کو ’آسان عمل‘ بتانے کے چکر میں سی سیکشن تجویز کی جاتی ہے۔ جو لوگ اپنی جان آسانی کے لیے کر لیتے ہیں مگر بعد میں پچھتاتے ہیں۔
ملک میں نارمل ڈیلیوری اور آپریشن کی فیسوں کی شرح
اس وقت پاکستان کے ہر ہسپتال میں نارمل ڈیلیوری اور سی سیکشن کی قیمت مختلف ہے۔ جہاں نجی ہسپتالوں میں جانے والے مریض 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک دیتے ہیں وہیں سرکاری ہسپتالوں میں نارمل ڈیلیوری چند ہزاروں میں کی جاتی ہے۔پاکستان میں اس پر تو بحث جاری ہے کہ سی سیکشن ہونا چاہیے یا نہیں لیکن سی سیکشن ہونے کے بعد زیادہ تر خواتین کو آرام نہیں کرنے دیا جاتا۔ اس لیے زیادہ تر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد اپنی ماں کے گھر جائیں جہاں ان کا زیادہ خیال رکھا جا سکے۔
پچھلے سال مارچ میں برطانوی سائنسی جریدے لینسٹ کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہر سال تقریباً تین لاکھ خواتین سی سیکشن کے نتیجے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔لینسٹ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لیے کم اور درمیانی آمدن والے 67 ممالک سے ایک کروڑ بیس لاکھ حاملہ خواتین کے ڈیٹا کی جانچ کی گئی جس کے مطابق ہر ایک ہزار سی سیکشنز میں تقریبا آٹھ خواتین ہلاک ہو جاتی ہیں۔
صحرائے افریقہ میں زچگی کے دوران ہلاکتوں کی شرح دوسرے ممالک سے سو فیصد زیادہ
اس تحقیق کے مطابق صحرائے افریقہ کے زیریں علاقوں میں زچگی کے دوران خواتین کی ہلاکت کی تعداد امیر ممالک کے مقابلے میں سو فیصد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ زچگی کے دوران میسر وسائل میں کمی اور اس میں ہو جانے والی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔اس خطے میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد برطانیہ جیسے امیر ممالک سے سو گنا زیادہ ہے۔ اور 10 فیصد بچے سی سیکشن کے دوران یا اس کے فوراً بعد ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
موثر قانون سازی کے ذریعے کاروباری رحجان اور انسانی زندگیوں سے کھلواڑ روکنا ہوگا
میں بھی اس آپریشن کے بعد کافی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگ پچھتاتے رہتے ہیں لیکن مؤثر قانون سازی نہ ہونے اور اس بارے میں کم علمی کے باعث وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کاروبار کو سختی سے بند کیا جائے اور حقیقی ایمرجنسی کی صورت میں سی سیکشن کیا جائے اور ڈاکٹرز کے خود ان کی تنظیموں کو چاہیئے کہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس پر عملدرآمد بھی کروائیں تاکہ غریب عوام کی زندگیوں سے کھلواڑ رک سکے، مہنگائی سے پسے عوام کو مزید پسنے سے بچانے کے لیے عوامی نمائندوں کو بھی اپنے ایوانوں میں مؤثر قانون سازی کرنی چاہیئے۔ نوٹ: آج کل یہ رواج بن گیا ہے مائیں اپنا دودھ پلانے کی بجائے ڈبے والے دودھ کو ترجیح دے رہی ہیں ہمارے علماء اور معاشرے کے بزرگوں کو چاہیئے اس بارے میں بھی آگاہی مہم چلائیں تاکہ معصوم جانوں کا حق ان تک پہنچ سکے۔