پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا استحصال
تحریر؛نوید نقوی
پاکستان کی شرح خواندگی
پاکستان میں شرح خواندگی حکومت کی بھرپور کوشش کے باوجود 60فیصد سے نہیں بڑھ رہی ، پاکستان میں میعار تعلیم دنیا کے کئی ممالک سے بہت پست ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں ان وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے مافیاز نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ہے اور ان کا مقصد پیسہ کمانا ہے نہ کہ علم کی ترویج کرنا۔
پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کا تناسب
آج سے پانچ سال پہلے اکنامک سروے آف پاکستان میں (جو کہ وزارت خزانہ کی سرکاری دستاویز ہوتی ہے) میں لکھا گیا تھا کہ شہروں میں 60 فیصد اور دیہات میں 24 فیصد بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ 2020 کی اسی دستاویز کے مطابق پاکستان میں پرائمری، مڈل اور سیکنڈری سکولوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زیادہ ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی تنظیم آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 97 ہزار پرائیویٹ سکول کام کر رہے ہیں۔
صرف پنجاب کے نجی اسکولز کی تعداد 70 ہزار
آج صرف صوبہ پنجاب میں کم و بیش 70 ہزار کے قریب پرائیویٹ اسکول ہیں اور ان میں سے کتنوں کا وزٹ یا آڈٹ ہوتا ہے اس کا صحیح جواب ضلعی انتظامیہ دے سکتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے ہر گلی محلے میں قائم پرائیویٹ اسکولوں کا وزٹ ہو یا ان کو کسی قانون کا پابند کیا گیا ہو،گنجان شہروں میں ان سکولوں کے آگے ٹریفک دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے دوپہر کوجام رہتی ہے مگر مجال ہے کہ شہری انتظامیہ کا کوئی افسر یہاں آ کر یہ کہہ سکے کہ جب آپ کے پاس پارکنگ نہیں ہے تو یہاں سکول کھولا ہی کیوں تھا۔
بچوں کا اسکول بیگ کتنا وزنی ہونا چاہیے ؟
ماہرین صحت کے مطابق سکول کے بچے کا بیگ اس کے وزن کے مقابلے میں 15 فیصد سے زائد ہر گز نہیں ہونا چاہیے یعنی اگر بچے کا وزن 23 کلو ہے تو سکول بیگ ساڑھے تین کلو سے زائد نہ ہو۔ گذشتہ برس پشاور ہائی کورٹ میں ایک ڈاکٹر نے رٹ کر دی کہ اس کے پاس ایسے بچوں کے کیس بہت زیادہ آ رہے ہیں جن کی کمر کے مہرے ہل چکے ہیں، کئی ایسے ہیں جو سیدھا چل نہیں سکتے اور وہ ایک جانب جھک کر چلتے ہیں، اکثر کا قد ان کی عمر کے مقابلے میں بہت کم بڑھا ہے جس کی وجہ یہ بھاری بھرکم سکول بیگ ہیں۔ جس پر ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو باقاعدہ قانون بنانے کی سفارش کی لیکن یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر قانون بن بھی جائے تو اس مافیا سے قانون پر عملدرآمد کون کروائے گا؟
اسکول یا دکان داری ؟
آج صورتحال یہ ہے کہ ایک دکاندار ذہنیت کا حامل اسکول کو ایک دکان کی طرح چلا رہا ہے اور اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے ہم ان کو جدید دور کا ٹھگ کہہ سکتے ہیں یوں اس وقت گلی گلی کھلنے والے فرنچائز اسکول مافیا نے پرائیویٹ اسکولز میں اساتذہ کے لیے نوکریوں کا وسیلہ تو پیدا کیا ہے لیکن اساتذہ کی عزت و معاشی معیار کو ملازمتی سمجھوتوں پر وار دیا ہے۔
محمکہ تعلیم کی طرف سے اسکولوں پر چار پابندیاں
اکثر پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ جس استحصال کا شکار ہیں اس پر بات نہیں کی جاتی۔ستمبر کےدوسرے ہفتے میں پرائیویٹ اسکولز کے حوالے سے محکمہ تعلیم کا ایک اعلان سامنے آیا، جس کے مطابق تمام نجی اسکولز پر چار پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
پہلی پابندی یہ کہ کوئی بھی اسکول طلبہ کو مخصوص دکانوں سے کتب، یورنیفارم اور کاپیاں خریدنے پر مجبور نہیں کرے گا۔
دوسری پابندی یہ کہ مدرزڈے، فادرز ڈے، فلاور ڈے یا ان سے ملتی جلتی تقریبات کے لیے بچوں سے کھانے کی اشیاء یا رقم کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
تیسری پابندی، سہہ ماہی پیشگی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ فیس کی عدم ادائیگی پر نہ تو طالب علم کو سزا ملے گی نہ ہی اسکول سے نام خارج کیا جائے گا۔
چوتھی پابندی،کوئی بھی اسکول طلبہ کا یورنیفارم پانچ سال سے پہلے تبدیل نہیں کر سکے گا، تاخیر پر جرمانے کی وصولی ممنوع ہوگی۔
محکمہ تعلیم کی جانب سے یہ اعلان نہایت خوش آئند ہے کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ماہانہ فیس پہلے ہی زیادہ ہوتی ہے دوسری طرف اسکول کی برینڈنگ والی کاپیز بازار میں ملنے والی عام کاپیز سے دو گنا زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور اگر طلبا اسکول کے مونوگرام کے علاوہ کوئی کاپی لے کر جائیں تو ادارہ وہ کاپیاں وغیرہ قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح تعلیمی سال کے دوران یونیفارم اور سپورٹس کٹ کا بار بار تبدیل ہونا والدین کے لیے ایک اضافی بوجھ ہے۔
استحصال کا شکار اساتذہ
محکمہ تعلیم نے ان فنکشنز اور غیر ضروری پابندیوں سے والدین کو تو آزاد کروا دیا ہے لیکن پرائیویٹ اسکولز کا عملہ خصوصا اساتذہ جس استحصال کا شکار ہیں اس پر بات نہیں کی جاتی۔ اور ارباب اختیار کی نظر اس اہم ترین مسئلے کی طرف نہیں جاتی یا وہ جان بوجھ کر آنکھیں چرا لیتے ہیں تاکہ پرائیویٹ اسکولز مافیا ان کے پیچھے نہ پڑ جائے۔
تعلیم چونکہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ کامیاب کاروبار ہے تبھی والدین کی سنی بھی گئی ہے کیونکہ پیرنٹ باڈی کی حیثیت ایک کلائنٹ کی ہے، جہاں سے کاروبار کو منافع ملتا ہے اس لیے ان کی رائے اور مطالبے ہمیشہ غالب رہتے ہیں۔ جبکہ ٹیچرز کی حیثیت ایک مزدور کی ہے جو کہ اس کاروبار کا محتاج ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریوں کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی اس لیے اکثر کفالت کے بوجھ تلے دبے اساتذہ پرائیویٹ اسکولز کی ظالمانہ پالسیوں پر سمجھوتہ کر جاتے ہیں۔
گلی گلی کھلنے والے فرنچائز اسکول مافیا نے پرائیویٹ سکولز میں اساتذہ کے لیے نوکریوں کا وسیلہ تو پیدا کیا ہے لیکن اساتذہ کی عزت و معاشی معیار کوملازمتی سمجھوتوں پر وار دیا ہے۔
کچھ دن قبل ایک دوست نے رابطہ کیا جو گھر کے واحد کفیل ہیں اور اس کے بچوں کی فیس اس کی تنخواہ سے کٹتی ہے۔ اب اسکول کی گرمیوں کی چھٹیوں کے حوالے سے پالیسی ہے کہ جون کی فیس دیں گے، تو جون کا سمر پیک (چھٹیوں کا کام) ملے گا، جولائی کی فیس پر جولائی کا کام، لیکن اساتذہ کو تنخواہ ستمبر میں ملے گی۔
اساتذہ کی تنخواہیں روکنے کے حربے
کچھ فرنچائزز میں اساتذہ کو گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ سرے سے ملتی ہی نہیں یا اگلے جنوری اور فروری کی تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔ اس دوران اگر وہ ٹیچر ریزائن کرجائے تو تنخواہ پہ فاتحہ لازم ہے اور اس کو کسی قسم کے واجبات نہیں دیے جائیں گے اور اگر وہ منت سماجت سے اپنی تنخواہ وصول بھی کر لے تو اس کو اتنی پیشیاں بھگتنی پڑتی ہیں کہ آدھی سے زیادہ تنخواہ پٹرول یا کرائے کی مد میں ضایع ہو جاتی ہے اس دوست نے التجا کی کہ اس کے بچوں کے نام اسکول سے خارج کر دیے جائیں گے کیونکہ تنخواہ نہ ملنے کے سبب وہ اپنے بچوں کی چھٹیوں کی فیس کی ادائیگی نہیں کر پائے گا اور کسی نئے اسکول میں داخلے کی صورت وہ ایڈمیشن، یورنیفارم، کتابوں کا خرچ بالکل نہیں برداشت کر سکتا۔
صرف دو منٹ نکال کر سوچیں کہ ہمارے پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ، جو دوسروں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں انہیں اپنی اولاد کی فیس اور تعلیم کے لیے اوروں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑے تو کیسا لگے گا؟
تنخواہ بچانے کے لئے نوکری سے برخاست کرنے کی پالیسی
کچھ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کہ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے اپنے نان کنفرم ٹیچرز کو نوکری سے برخاست کر دیتے ہیں کہ تنخواہ نہ دینی پڑے اور چھٹیوں کے بعد نئے ٹیچرز ہائر کر لیتے ہیں اور یہ کام کووڈ کے بعد اچھے تعلیمی ادارے بھی کررہے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری کی وجہ سے نئے ٹیچر بھی ڈر کے مارے اسکول مالکان سے جاب کی کسی قسم کی سیکیورٹی کا مطالبہ نہیں کرتے اس طرح ان اسکولوں کی انتظامیہ کو ان ٹیچرز کے ساتھ من مانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
کنٹریکٹ لیٹر ودیگر پالیسیوں کا فقدان
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خاص طور پر بڑے شہروں کےبڑے تعلیمی اداروں میں ورک لوڈ زیادہ ہوتا ہوگا لیکن ان کی ایچ آر پالیسیز نہایت شفاف ہوتی ہیں۔ وہ کنٹریکٹ سائن کرواتے وقت آپ کو تمام باریکیاں سمجھا دیتے ہیں۔ نیز نئی ہائرنگ کے لیے باقاعدہ اورینٹیشن سیشن رکھا جاتا ہے، پروبیشن پیریڈ، ریزائن، کنفرمیشن اور بچوں کی فیس کے بارے میں پالیسی نہایت واضح ہوتی ہے۔ گنتی کے کچھ اسکولز ہیں، جو ورکنگ مددرز (ٹیچرز) کو معاوضے سمیت میٹرنٹی لیوز اور اسکول کالج میں ہی ڈے کیئر کی سہولت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہاں کام کرنے والے اساتدہ دہائیوں سے ان ناموں سے جڑے رہتے ہیں لیکن فرنچائز مافیا میں کانٹریکٹ لیٹر، اساتذہ کے بچوں کی فیس ڈسکاؤنٹ، تنخواہ سے سکیورٹی کی کٹوتی، ٹیچر ورک لوڈ وغیرہ کی کوئی پالیسی موجود ہی نہی۔
اس المیے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اکثر فرنچائز چلانے والے کاروباری لوگ ہیں، وافر پیسہ تھا نیا کاروبار کرنا تھا کسی نے مشورہ دیا کہ فلاں تعلیمی ادارے کی فرنچائز لے لو، اب چاہے بندہ پراپرٹی ڈیلر ہے یا گارمنٹس کے کاروبار سے وابستہ ہے (پراپرٹی ڈیلرز اور گارمنٹس کاروبار سے وابستہ لوگوں سے معذرت، یہ صرف مثال دینے کو لکھا) وہ فرنچائز لے کر اسکول ویسے ہی چلائے گا جیسے دکان چلائی جاتی ہے۔ چاہے اس کا اپنا تعلیمی ریکارڈ کچھ بھی نہ ہو۔
تعلیم سے نابلد لوگوں کا تعلیمی ادارے چلانا ایک تباہ کن رجحان
یہ تعلیمی نظام کی تباہی ہے کہ ہر مالدار بندہ جس کا شعبہ تعلیم سے دور دور تک کا تعلق نہ ہو وہ تعلیمی ادارے کا ہیڈ بن جاتا ہے۔ دوسری جانب اساتذہ کی اپنی کمزوریاں ہیں کہ نہ تو پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ کی کوئی یونین ہے نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے، جہاں اساتذہ کے حقوق کے لیے کوئی باقاعدہ حکمت عملی وضع کی جائے اور تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس پر عمل کرنے کے پابند بھی ہوں۔
کوئی اسکول ایک ٹیچر کو فائر کرتا ہے تو ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اس ایک نوکری کے لیے پچاس اور امیدوار سامنے آجائیں گے۔ جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے وہ آئس برگ کی ٹپ بھی نہیں۔ ان اداروں کے اندرونی تنظیمی ڈھانچے پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سفاکانہ حد تک ناقابل برداشت ہیں۔
فرنچائز کو پالیسیوں کا پابند بنانا ضروری کیوں ؟
پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ کے معاشی اور سماجی استحصال کو روکنے کے لیے ان فرنچائزز کو پالیسیوں کا پابند بنانا ضروری ہے تاکہ سماج کے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے والے ان معلموں کو اپنی اولاد کی تعلیم اور کفالت کے لیے کسی اور کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ یہ اساتذہ پر احسان نہیں ہے ان کا حق ہے جس سے مسلسل غفلت برتی جارہی ہے۔
ٹیچرز کی کم سے کم تنخواہ 30 ہزار ہونی چاہیئے
آج کے مہنگائی کے اس مشکل دور میں یہ سفید پوش پرائیویٹ اسکول ٹیچرز شدید ترین استحصال کا شکار ہیں نہ تو ان کی کوئی یونین ہے اور نہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے گورنمنٹ نے کوئی قانون بنانے کی ضرورت محسوس کی ہے ، ہمارے معاشرے کا یہ ایک مظلوم ترین طبقہ ہے جو نہ تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے اور نہ ہی یہ ملک پر بوجھ بننا گوارا کرتا ہے ،یہ طبقہ اپنی تنخواہ و نام نہاد مراعات سے کئی گنا زیادہ کام کرتا ہے اور ہمارے مستقبل کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے، گورنمنٹ کو چاہیئے کسی بھی پرائیویٹ اسکول یا فرنچائز کو اساتذہ کی کم از کم تنخواہ 30 ہزار طے کرکے اس پر سختی سے پابندی کروائے، ہمارے پرائیویٹ اسکول ٹیچرز کو بھی چاہیئے ان کی بھی ملکی لیول کی مضبوط ترین تنظیم سازی ہو تاکہ یہ مافیاز ان کے حق پر ڈاکا نہ مار سکیں۔