چھوٹی زبانیں اور قرآن کریم کا ترجمہ
عبدالخالق ہمدرد
اس میں کوئی شک نہیں کہ ترجمہ وہ واحد ذریعہ ہے جو مختلف تہذیبوں کے درمیان پل کا کام دیتا ہے اور اس کے ذریعے سے افکار کا تبادلہ ہوتا ہے جس سے نئی نئی اصطلاحات وجود پذیر ہوتی ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ایک زبان کو ہو بہو دوسری زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں
اس کے ساتھ ساتھ اس میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ کسی بھی ایک زبان کو ہو بہو دوسری زبان میں منتقل کرنا ناممکن ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب زبانوں کا اسلوب اور جملوں کی بناوٹ اور الفاظ کا سماجی پس منظر جیسے امور ہیں۔ اس لئے بہت دفعہ ترجمہ سو فیصد درست ہونے کے باوجود جملہ سو فیصد غلط ہوتا ہے۔
ترجمے کی یہ نزاکت اس وقت اور بھی اہمیت حاصل کر لیتی ہے جب کسی دینی عبارت کو دوسری زبان میں منتقل کیا جا رہا ہو کیونکہ اس وقت مترجم کو ترجمے کے دوسرے لوازمات کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے ترجمے میں کوئی اضافی بات شامل نہ کرے۔
اعلی ترجموں میں انجانی لغزشیں
اس لحاظ سے قرآن کریم کا ترجمہ بہت مشکل کام ہے اور ہر مترجم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس میں کوئی کوتاہی نہ ہو جائے لیکن اس کے باوجود بہت اعلیٰ ترجموں میں بھی انجانی لغزشیں پائی جاتی ہیں۔
دوسری جانب قرآن کریم کا ترجمہ کرنے والوں میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں طرح کے مترجم شامل ہیں۔ غیر مسلم مترجمین نے یہ ترجمے مختلف اغراض کے تحت کئے ہیں جبکہ مسلمان مترجمین کا ایک ہی مقصد رہا ہے کہ کتاب الٰہی کی کچھ خدمت کر کے اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کی جائے۔ اس لئے اب تک بے شمار ترجمے ہو چکے اور بے شمار اور ہوں گے۔
چھوٹی زبانوں کو لاحق خطرات
اس سلسلے میں چھوٹی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اگرچہ یہ زبانیں دوسری بڑی زبانوں کے سائے میں پھلنے پھولنے سے قاصر ہیں کیونکہ کہتے ہیں کہ برگد کے نیچے برگد نہیں اگتا۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ ذرائع ابلاغ کی تیزی کی وجہ سے چھوٹی زبانیں کچھ عرصے میں موت کی گھاٹ اتر جائیں گی۔ اس کی مثال دیکھ لیجئے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں تقریباً چھہتر زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن یہ سب زبانیں بولنے والے اردو کے ذریعے ایک دوسرے سے ہمکلام ہوتے ہیں۔
مادری زبان اور داغستان والوں کی عجیب بد دعا
اگرچہ ہمارے اس ماحول میں اردو ترجمے سے کسی حد تک قرآن فہمی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے لیکن مادری زبان کا لطف ہی الگ ہے کیونکہ وہ شیر مادر کے ساتھ آپ کے اندر جاتی ہے اور اس سے جو لگاؤ ہوتا ہے وہ کسی اور زبان سے نہیں ہو سکتا۔ رسول حمزہ توف نے لکھا ہے کہ داغستان میں لوگ کسی کو بد دعا دینا چاہیں تو اسے کہتے ہیں “جا تو اپنی ماں بولی بھول جائے”.
انجیل کے ہزاروں زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں
چھوٹی زبانوں کے حوالے سے ایک اور پہلو پر غور کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ وہ یہ کہ عیسائی مشنریاں اس میدان میں بہت سرگرم ہیں اور انجیلوں کے تراجم ہزاروں زبانوں میں ہو چکے اور جن زبانوں میں نہیں ہو سکے، ان پر کام جاری ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے ادارے ہیں جو بین الاقوامی مدد سے چھوٹی زبانوں کی ترویج کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض دوستوں کا مشاہدہ ہے کہ یہ ادارے کسی نہ کسی مرحلے میں مشنریوں کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کو مشنری مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ماہرین لسانیات کو ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا
ایسے میں اہل علم اور خصوصاً زبانوں پر کام کرنے والے ماہرین کو اپنی دینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس میدان میں سامنے آنا چاہئے تاکہ چھوٹی زبانوں میں اسلام کے بارے میں بنیادی دینی مواد اور خصوصاً قرآن مجید کا ترجمہ کر لیا جائے تاکہ یہ تشنگی ختم کی جا سکے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ جب رابطے کی بڑی زبانیں موجود ہیں تو چھوٹی زبانوں میں ترجمے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رابطے کی زبان سب لوگ نہیں جانتے اور دوم یہ کہ جس طرح کوئی بات مادری زبان میں سمجھائی جا سکتی ہے، وہ رابطے کی زبان میں نہیں سمجھائی جا سکتی۔ خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مادری زبان کی اہمیت کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ “وما أرسلنا من رسول الا بلسان قومہ” (ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ).
چھوٹی اور علاقائی زبانوں میں کام کرنے والوں کی اعانت کی ضرورت
اس سلسلے میں لوگ انفرادی کوششیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے اور جہاں افراد کام نہ کر سکتے ہوں، وہاں اجتماعی کوشش کی جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے جو لوگ فکر معاش کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے، ان کا دست وبازو بن کر انہیں اس کام کے لئے فارغ کیا جائے۔
اسی طرح ایسے ادارے بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے جو اس طرح کی کاوشوں کی طباعت اور نشر واشاعت کا بندوبست کریں کیونکہ قطرہ قطرہ دریا ہوتا ہے اور جو کام ایک آدمی نہیں کر سکتا وہ دس آدمی چٹکی بجاتے میں کر سکتے ہیں۔ میں پشاور میں چھوٹی زبانوں کی ایک کانفرنس میں شریک تھا۔ وہاں ایک صاحب نے ایک علاقائی زبان میں اپنے ترجمہء قرآن کریم کی تفصیل بیان کی اور آخر میں کہنے کہ لگے میں نے ترجمہ کر لیا ہے لیکن اسے چھاپنے اور شائع کرنے کے وسائل ناپید ہیں جن میں تکنیکی ضروریات بھی شامل ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ اس بات پر صدق دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ چھوٹی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کی نیو کیسے رکھی جائے اور ان لوگوں کی کمر کس طرح مضبوط کی جائے جو اس میدان میں کام کر رہے ہیں کیونکہ اگر ہم اپنے حصے کا کام نہیں کریں گے تو مشنریاں اس میدان میں اپنا کام کرتی رہیں گی۔ یہ ہے اصل سوچنے کی بات۔