اصحاب منبر و محراب حکمت سے کام لیں ،لوگوں کو دین سے مت بدکائیں!
عبدالخالق ہمدرد
رمضانُ المبارک کی برکات
رمضان شریف کا مہینہ چل رہا ہے۔ اس مہینے کی برکات ایسی ہیں کہ اس گئے گزرے دور میں بھی مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں، نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، لوگوں میں خوف خدا، رحمدلی اور باہم محبت کے آثار نظر آتے ہیں، معمولات بدل جاتے ہیں۔ سونے جاگنے اور کھانے پینے سے لے کر بولنے چالنے تک میں فرق آ جاتا ہے۔
درس قرآن دیتے ہوئے لوگوں کی سہولت کو دیکھیں
اس لئے سارے سال میں عوام سے دین کی بات کرنے کا اس سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا لیکن بہت سے اصحاب منبر و محراب کی بے اعتدالی یا سارا دین چند گھنٹوں میں عوام کو گھول کر پلا دینے کی خواہش (اگرچہ اپنی جگہ یہ کوشش پورے اخلاص کے ساتھ ہوتی ہے) بہت سے لوگوں کو دین سے بدکا دیتی ہے۔ مثلاً اگر ایک دن درس گھنٹے کا ہو گیا اور اس میں بیس لوگ بیٹھے تھے تو اگلے دن اس میں شاید تعداد آدھی ہو جائے گی۔
اسی طرح معمول کی اطلاع اور اعلان کے بعد مسجد سے جانے والے حضرات کو روکنے کی کوشش ایک بار تو شاید بار آور ہو جائے گی لیکن اگلے دن شاید وہ لوگ نماز کے لئے گھر یا کسی دوسری مسجد کا انتخاب کر لیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کے پاس مسجد نہ آنے کے ایسے ایسے “دلائل” ہیں کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جائے۔
اس لئے اگر آپ درس دینا چاہتے ہیں تو لوگوں کی سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیں تاکہ جو آدمی ایک بار آپ کے درس میں بیٹھ جائے، اگلی بار اس سے اٹھ کر نہ جا سکے کیونکہ “حکمت اور موعظہ حسنہ” دعوت کا بنیادی اصول ہے۔
کسی کا نام لے کر تنقید سے گریز کیجئے
ایسے ہی درس میں کسی کا نام لے کر تنقید کر کے دل کی بھڑاس نکالنے کی بجائے، نام لئے بغیر ضرورت ہو تو مسئلہ بیان کریں۔ اس طرح آپ کسی کو غصہ دلائے بغیر لوگوں کے دلوں میں اترتے چلے جائیں گے جس سے ان کا فائدہ ہوگا۔
درس میں وقت کی پابندی کا خیال رکھیں
میں کسی مسجد کا باقاعدہ امام اور خطیب تو کبھی نہیں رہا لیکن الحمد للہ جس محلے میں بھی رہا، اس کی مسجد سے تعلق رہا ہے اور مختلف اوقات میں درس بھی دیتا رہا ہوں لیکن ہمیشہ اس بات کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ایک تو درس چھاپے کی طرح اچانک شروع نہ کیا جائے بلکہ نمازیوں کو نماز سے سکون کے ساتھ فارغ ہونے دیا جائے اور دوسرے درس کے وقت کا پہلے سے بتایا جائے اور پھر اس کی پابندی بھی کی جائے۔
ان دو باتوں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ درس میں بیٹھنے والوں کی تعداد برقرار رہتی ہے۔ رمضان شریف میں مسلسل درس قران کی بجائے بنیادی مسائل کا درس ہوتا ہے جس سے خود بھی طہارت اور نماز وغیرہ کے فرائض واجبات کا تکرار کر لیتے ہیں۔
ابھی بھی وقت باقی ہے۔ جن دوستوں کے پاس موقع ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور عوام تک بنیادی مسائل کا علم پہنچائیں کیونکہ یہ آپ کے پاس دین کی امانت ہے لیکن بار دگر عرض کروں گا کہ اس امانت کی منتقلی اعتدال سے کیجئے کیونکہ کوئی بھی طبیب مریض کو ساری دوا یکبارگی نہیں دے دیتا بلکہ وقفے وقفے سے گھونٹ گھونٹ کر کے دیتا ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی کا امریکا کا عجیب واقعہ
اس وقت معاشرہ واقعی مرض کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ سو اس کی حالت کا خیال رکھنا از بس ضروری ہے۔ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ امریکا کے پہلے سفر کے دوران ایک کانفرنس میں شریک ہوئے جس میں مرد وزن ایک ساتھ موجود تھے۔ اس پر طبیعت بوجھل ہو گئی مگر کانفرنس کے بعد کھانے کا اعلان کریلہ اور نیم چڑھا تھا کہ کہا گیا کہ جو لوگ حلال کھانا کھانا چاہتے ہیں، وہ صرف سبزی پر گزارہ کریں۔
حضرت فرماتے ہیں کہ ہمیں اس پر شدید تعجب ہوا کہ اسلامی کانفرنس ہے اور پہلے تو اختلاط کی بات تھی اب کھانا بھی حلال نہیں۔ چنانچہ منتظمین سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب شرکاء مسلمانوں کی اولاد ہیں لیکن دینی تربیت نہ ہونے کی وجہ ان میں کسی چیز کی تمیز باقی نہیں رہی اور ہماری کوشش یہ ہے کہ وہ کسی طرح واپس آ جائیں۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ سن کر ہمیں رونا آ گیا۔
کسی کی تحقیر اور الزام تراشی سے بچئے
اس لئے وہ بھائی جن کو اللہ تعالیٰ نے منبر ومحراب جیسا اونچا مقام عطا فرمایا ہے، وہ اس کی قدر کرتے ہوئے اخلاق نبوی کا نمونہ پیش فرمانے کی کوشش کریں اور کسی کی تحقیر، کسی کی تذلیل اور کسی بھی طرح کی طعنہ زنی اور الزام تراشی کی بجائے ٹھوس مسائل حکمت کے ساتھ بیان فرمائیں تاکہ نئی نسل مسجد سے کچھ لے کر جائے۔
میرا خیال ہے (جو غلط بھی ہو سکتا ہے) کہ اس وقت منبر ومحراب دقیق علمی بحثوں کے متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ معاشرے سے فرائض و واجبات اور حلال حرام کا بنیادی علم بھی اٹھتا جا رہا ہے۔ اس لئے رمضان کی ان مبارک ساعتوں میں لوگوں کو بدکانے کی بجائے ان کو بنیادی مسائل سے آگاہ کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے تو سب کا فائدہ ہوگا۔ واللہ ولی التوفیق۔