قاری حبیب الرحمن ،اسلاف کا ایک نمونہ
تحریر ؛ مولانا سجاد الرحمن چترالی
کچھ نفوس قدسیہ ایسے بھی روئے زمین پر ہوتے ہیں جن پر فلک رشک کرتا ہے ،زمین ان پر ناز کرتی ہے، ان کی تگ و دو کا محور اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتی ہے۔وہ معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں ،انسانیت جن سے راحت پاتی ہے۔ دینی خدمت کا جذبہ ان کی رگ وپے میں سرایت کر جاتی ہے ، وہ سوچتے ہیں تو دین کے بارے میں سوچتے ہیں، فکر کرتے ہیں تو دین کی نشر و اشاعت اور سربلندی کی کرتے ہیں ایسے لوگ ہزاروں میں سو اور سینکڑوں میں گنے چنے ہوتے ہیں، مولانا قاری حبیب الرحمن چترالی کا شمار بھی انہی چند چنیدہ لوگوں میں ہوتا ہے۔
پیدائش اور آبائی تعلق
مولانا قاری حبیب الرحمان چترالی 1951 عیسوی کو ضلع چترال کے ایک پسماندہ مگر مردم خیز علاقہ ” کشم” میں پیدا ہوئے۔جو زمانہ قدیم سے علماء اور صلحاء کا مسکن رہا ہے ۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں ہی حاصل کی ۔قاری صاحب کے اندر شروع سے ہی دینی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ تھا ، اپنے اس جذبے کی تکمیل کے لئے کم سنی ہی میں کراچی کا رخ کیا اور حفظ قرآن کریم میں داخلہ لیا، کراچی میں بہت مختصر وقت کے اندر حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی ۔
حفظ کی تکمیل کے بعد درس نظامی کی تعلیم کے لئے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا انتخاب کیا۔ ابتدائی درجے سے دورہ حدیث تک کی تعلیم یہیں سے حاصل کی اور 1974 کو فارغ التحصیل ہوئے۔
درس و تدریس
دستار کی فضیلت حاصل کرنے کے بعد حضرت بنوری کی خصوصی شفقت و کرم سے انہی ہی کے ادارے میں شعبہ حفظ میں بطور مُدرس تقرری ہوئی ۔ قاری صاحب کو قرآن سے حد درجہ اور والہانہ لگاؤ تھا اور اپنے استاذ حضرت بنوری رحمہ اللہ سے بھی انہیں غایت درجے کی محبت و عقیدت تھی ان دو محبتوں نے قاری صاحب کو اپنے مشن میں وہ استقامت عطا کی کہ اج تک ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی وہ اب بھی اسی جذبے کے ساتھ قرآن کی تعلیم میں مصروف ہیں جس جذبے سے لگ بھگ نصف صدی قبل شروع کیا تھا، اس وقت قاری صاحب ضعیف العمر ہیں اس کے باوجود پابندی کے ساتھ کلاس آتے ہیں اور طلباء کو سبق پڑھاتے ہیں۔
شاگردوں کا حلقہ
قاری حبیب الرحمن چترالی کے شاگردوں کی تعداد بلا مبالغہ ہزاروں میں ہے جن کا تعلق نہ صرف پورے پاکستان سے ہے بلکہ بیرون ملک سے بھی ہے ، آپ کے تلامذہ میں علماء، مفتیان کرام، ،اسکلول کے اساتذہ، کالجز کے لیکچرز، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور زندگی کے دیگر شعبوں میں خدمات انجام دینے والے لوگ شامل ہیں ۔
بنوری ٹاؤن کے موجوہ مہہتمم بھی شاگرد ہیں
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے موجودہ مہتمم اور علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا سید سلیمان بنوری بھی آپ کے شاگر ہیں۔ بنوری ٹاؤن کے بڑے چھوٹے سب آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ قاری حبیب الرحمن چترالی کی علامہ بنوری ٹاؤن میں قدر و منزلت کا اندازہ ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے ۔
جب مولانا فضل الرحمان آپ کی کلاس میں آئے
ایک مرتبہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ناظم تعلیمات مولانا امداد اللہ کے بیٹے نے قاری حبیب الرحمن کے پاس حفظ قرآن مکمل کیا ، اس موقع پر مولانا امداداللہ نے بیٹے کے ختم قرآن کی خوشی میں ایک تقریب منعقد کی، یہ تقریب جامعہ کے دفتر ،مولانا امداد اللہ کے گھر یا جامعہ کی مسجد میں رکھنے کے بجائےقاری حبیب الرحمن صاحب کی کلاس میں ہی رکھی گئی جس میں جامعہ کے بڑے اساتذہ کے علاوہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی شرکت کی ، اس موقع پر مولانا فضل الرحمان کا علماء و طلباء سے خطاب بھی اسی کلاس میں ہوا ۔
امامت و خطابت
حضرت قاری صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ امامت وخطابت کے شعبے سے بھی گزشتہ چالیس سالوں سے وابستہ ہیں ،وہ ربانی مسجد نزد پی ٹی سی ایل آفس پرانی سبزی منڈی میں امامت و خطابت کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں اور چار دہائیوں سے منبر و محراب سے رشد و اصلاح کا فریضہ نبھا رہے ہیں، کچھ عرصے سے بڑھاپے کی وجہ سے یہ کام اپنے صاحبزادے مفتی انس الرحمن کے ذمے لگایا ہوا ہے ۔
سماجی خدمات
حضرت قاری صاحب میں جس طرح قرآن کی خدمت کا مثالی جذبہ ہے اس طرح دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ قاری صاحب ابتداء میں انفرادی حیثیت سے مختلف بے سہارا لوگوں کی خدمت کرتے رہے ۔سن 2005 میں “شندور ویلفیئر ٹرسٹ” کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ “شندور” دنیا کا سب سے اونچا پولو گراؤنڈ ہے جو چترال اور گلگت کے سنگم پر واقع ہے اور ریاست چترال کے دور سے اب تک چترال کا حصہ ہے جہاں ہر سال چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان پولو ٹورنامنٹ کھیلا جاتا ہے۔ قاری حبیب الرحمن اور ان کے چترالی رفقاء نے اسی پولو گراؤنڈ کی مناسبت سے اپنی فلاحی تنظیم کا نام” شندور ویلفیئر ٹرسٹ” رکھا ہے۔
شندور ویلفیئر ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے قاری حبیب الرحمن گزشتہ پندرہ،بیس سالوں سے سرگرم سماجی خدمات انجام دے رہے ہیں ، یہ ٹرسٹ چترال سے تعلق رکھنے والے غریب طلباء، مالی طور پر کم زور علماء ،بیواؤں،یتیموں اور دیگر مستحق افراد کی مالی معاونت کر رہا ہے ۔ سالانہ سیکڑوں افراد شندور ٹرسٹ کی امداد سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔حالیہ سیلاب کے دوران شندور ٹرسٹ نے خشک راشن اور کپڑوں سے بھرے چار ٹرک بلوچستان اور اندرون سندھ بھیجے جبکہ چترال کے سیلاب زدگان کے ساتھ نقد کی صورت میں تعاون کیا۔قاری صاحب یہ سارے رفاہی کام کسی پبلسٹی اور نمود و نمائش کے بغیر ہی کرتے ہیں، یقیناً وہ اخلاص میں اسلاف کا نمونہ ہیں، قاری صاحب یہی نصیحت کرتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت نمود کے لیے نہ ہو وہ اس طرز عمل پر سخت کڑھتے ہیں کہ کسی کی مدد کرکے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کی جائے اور کسی غریب کی عزت نفس مجروح کی جائے ۔
شاعر نےشاید قاری صاحب کے بارے کہا ہو؛
آتی ہے نظر اس میں اخلاص کی ہر صورت
آئینہ ہے آئینہ انسان محبت کا
Sajjad SAB behtaren tehreer
ماشإاللہ۔سجاد بھاٸی قاری صاحب کے بارے یں خوب لکھا۔اللہ ہمارے قارٕی صاحب کو عمرنوح نصیب فرماٸے
Mshaalah.بہت خوب