*تحریر؛ مولانا عبدالکریم شاکر*
ڈھونڈوگےاگرملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اس عالَمِ رنگ وبو کی ہر چیز فانی ہے، کسی کوبقا نہیں، ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ اس میں دنیا کاکوئی فرد کوئی مذھب اس سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ لیکن بعض انسانوں کو الله تعالیٰ ایسی زندگی عطا فرماتے ہیں،ایسی صلاحیتیوں سے نوازتے ہیں جن کے باعث وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ اور لائقِ تقلید قرار پاتے ہیں۔
ہمارے بہت ہی پیارے اور والد جیسی شفقت کرنے والے پروفیسرحاجی عبدالعزیز نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کاشمار بھی ان مبارک ہستیوں میں ہوتاہےجوایک باعمل، عاقل وفہیم، عابد وزاھد، متقی، پرہیزگار، فیاض وسخی نڈر اور حق گو انسان تھے جنہیں الله تعالیٰ نے اس دنیا میں دین کاکام بھی لیا لوگوں کے دنیوی معاملات میں وہ کبھی پیچھے نہیں رہے اور ہر فرد کے درد کواپنادرد سمجھنا ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی ہر ایک کے کام آنا بڑے بڑے فیصلے کرنالوگوں کے مابین صلح کرانا اپنی برادری ہو یاغیر سب کے لئے ان کے جذبات یکساں تھے ہرایک کی بات سننا سب کو مطمئن کرنا یہ حاجی صاحب کا زندگی بھر معمول رہا ۔
شخصیت کی جامعیت
الله تعالیٰ نے پروفیسر عبد العزیز مرحوم کے تنہاوجود میں اس قدراوصاف وکمالات جمع فرمائے تھے اگر کئی لوگوں میں تقسیم کردیے جائیں تووہ ان اوصاف وکمالات سے مالا مال ہوجائیں۔
جامع معقول ومنقول اس کی ذات تھی
،دین ودنیاسے منور اس کی ہربات تھی۔
حاجی صاحب کواللہ تعالیٰ نے باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ظاھری وجسمانی اعتبار سے خوب نوازاتھا،میانہ قد، کشادہ جبیں، ھنستامسکراتا تبسم نما چہرہ، گفتار میں اعتماد، آواز میں حلاوت وشیرینی ان کی پروقار شخصیت کے خاص حوالے تھے جنہوں نے ان کی شخصیت کو اک عجب انفرادیت سے ممیز کردیا تھا۔
لباس وپوشاک میں انتہائی نفاست پسند تھے ہمیشہ سفید لباس زیب تن کرتے جب کوئی انجان شخص بھی ان سے ملتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اس کا پرانا جاننے والا ہے ہرایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا حاجی صاحب کی طبیعت میں شامل تھی ۔
خدمت خلق کاجذبہ
پروفیسر عبد العزیز بلوچ مرحوم سات آٹھ سال ملیر کے مشہور” الابراھیم آنکھوں کا اسپتال” میں شعبہ زکوٰۃ میں رہے، جہاں غرباء ومساکین کے لئے رعایتی پیکج کے ساتھ علاج کا انتظام ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے اس کام کو احسن طریقے سے نبھایا، کوئی ضرورت مند آتا اس کا کام بھی کرتے اگر وہ انجان ہوتا خود اپنی سیٹ چھوڑ کرڈاکٹرکے پاس جاکر اس کاسارا کام کرکے واپس آجاتے، اس کا بندہ نے خود بارہا مشاہدہ کیا، غریبوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ ان کے دل میں ہمہ وقت موجزن رہتا تھا۔
حاجی صاحب کی ستّر سالہ زندگی کو دیکھا جائے تووہ ایک شخص نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، میں نے اپنی زندگی کے بیس سال حاجی صاحب کے قریب گزارے ہمیشہ ان کو ایک شفیق، محبت کرنے والا، لوگوں کاہمدرد، دین دار، دیانتدار،متحمل مزاج، صابر وشاکر اور خدمت خلق کے جذبے سےسرشار انسان پایا۔
حجاج کرام کی خدمت کاجذبہ
ان کی خدمت خلق کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہر سال حجاج کاقافلہ حجاز مقدس میں لے جاتے، خود امیرِ کارواں ہوتے، ہر علاقے زبان والے لوگ ان کے قافلے میں شامل ہو تے، ہر ایک کی ضروریات کا خیال رکھتے، فردا فردا سب کا حال احوال پوچھتے، خیریت معلوم کرتے۔ لوگوں کی سخت روی اور تندمزاجی کو برداشت کرتے۔ سب کو اپنے ساتھ طواف کراتے، قربانی کے دن سب کے ساتھ خود قربان گاہ میں جاتے ،سب کی دل وجان سے خدمت کرتے اور قافلے والوں کی ضرورتوں کے لیے خود بازار جاتے۔
بندہ حرمین شریفین کے تین اسفار میں حاجی صاحب کےقریب رہا، ہمیشہ ان کو ایک بردبار، متحمل مزاج اور صابر انسان پایا، حرمین شریفین سے ان کی محبت کا عالَم یہ تھا کہ اپنا اکثر وقت حرم شریف میں گزارتے تھے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ایک دفعہ مدینہ منورہ میں مجھے ساتھ لیاروضہِ رسول صلی الله عليه وسلم پرحاضری کے لیے الوداعی حاضری تھی، اگلےدن مکہ مکرمہ جاناتھا،اندرکافی رش تھا، کہا کہ لوگوں کو کیوں تکلیف دیں، بابِ جبرئیل کے باہر کھڑے ہو کر انہوں نے جو الوداعی دعا کی، مجھے آج بھی وہ منظر یادہے، اتنی عاجزی خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگی، ایسا محسوس ہوا جیسے درِ رسول صلی الله عليه وسلم کوچھوڑ نے کے لیے تیارنہیں ہیں، الله تعالیٰ ان کے اس عشقِ نبوی صلی الله عليه وسلم کوان کی مغفرت اور شفاعت کاذریعہ بنادے۔
تعلیمی خدمات
پروفیسر عبد العزیز بلوچ مرحوم اسکول و کالج میں ایک ایسا نام تھا جس سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو،خصوصا کراچی کی بلوچ برادری میں ان کی تعلیمی خدمات مسلم ہیں۔ اگر آج ملیر کاکوئی سپوت ڈاکٹر ہے، پروفیسر ہے، انجینئر ہے یا اعلی تعلیمی کوالفکیش کا حامل ہے تو اس میں پروفیسر صاحب کا کسی نہ کسی درجے میں کردار ضرور ہوگا۔ پروفیسر صاحب نے مراد میمن گوٹھ کالج میں ایک طویل عرصہ گزارا، لیکچرار سے پروفیسر اور پرنسپل تک کا سفر طے کیا،ان کا پورا کیرئیر شان دار اور قابل رشک ہے ۔
کالج میں جو اصلاحات حاجی صاحب کے دور میں ہوئیں آج وہاں کا عملہ ان کی کارکردگی کا معترف ہے۔ اس معاشرے میں کوایجوکیشن اور سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار ہمارے سامنے ہے پروفیسر صاحب نے اس دور میں بھی اپنی محنت سے مراد میمن گوٹھ کالج کو ایک میعاری تعلیمی ادارہ بنانے کے لیے شب وروز کام کیا، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کالج کی تعلیمی مشاورت میں آخری دم تک شامل رہے۔
عبادت میں خشوع و خضوع کی صفت
جس نے حاجی صاحب کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ حاجی صاحب کس طرح خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے تھے گویا کہ وہ اس حدیث کے مصداق بن کر کھڑے ہوتے جس میں آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا کہ نماز اسطرح پڑھو جیسے تم اپنے سامنے رب العالمین کودیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ ضرور تصور کرو کہ تجھے تیرا رب دیکھ رہاہے ۔
پروفیسر عبد العزیز بلوچ صاحب کی زندگی کے کس کس پہلو کو بیان کیا جائے اور کتنا بیان کیا جائے یہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے وہ اس شعر کے گویا مصداق تھے
سب کمالات ومحاسن میں جواب اس کانہیں ہے
اس قبیلے میں کوئی ہمرکاب اس کانہیں ہے
مدت ہوئی بچھڑے ہوئے ایک شخص کو لیکن
اب تک دردیوار پہ خوشبو کا اثر ہے
رفتم واز رفتن من عالم تاریک شد
من مگر شمعم چورفتم بزم برھم ساختم
اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین۔