Friday, November 22, 2024
HomeColumnsروسی ادب کے اردو ادب پر اثرات

روسی ادب کے اردو ادب پر اثرات

روسی ادب کے اردو ادب پر اثرات (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا

چند ہفتوں پہلے ’’فرینڈ شپ ہاؤس‘‘ جسے ایوان دوستی بھی کہا جاتا ہے، وہاں سے ایک دعوت نامہ ملا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کی صدر شعبہ اردو ڈاکٹر یاسمین فاروقی اور یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز ڈپارٹمنٹ کے سربراہ اصغر دشتی اس پروگرام کے کرتا دھرتا تھے۔

ایوان دوستی کے کمرے میں بیٹھے ہوئے نوجوان طلباء و طالبات کو دیکھ کر مجھے تاریخ کے بھولے بسرے ورق یاد آگئے۔ گفت گو مجھے روسی ادب کے اردو ادب پر اثرات کے بارے میں کرنی تھی لیکن مجھے سیکڑوں برس پرانی تاریخ یاد آنے لگی جس میں امیر خسرو اور اس سے بھی پہلے کچھ شاعر اور داستان گو اپنے کمالات دکھاتے تھے اور کہانیاں دور دور تک پھیل جاتی تھیں۔

سنہ 1917 کا بالشوک انقلاب اور ہندوستان پر اس کے فکری اثرات

اس کے ساتھ ہی ہم بیسویں صدی تک آئیں تو 1917 کے بالشوک انقلاب نے جہاں دنیا میں تہلکہ مچایا ،وہیں ہندوستان کے روشن خیال اور ترقی پسند افراد میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ہندوستان اس وقت تاج برطانیہ کے زیرنگیں تھا، اس کے باسیوں کے لیے اس سے بڑی نوید مسرت نہیں ہوسکتی تھی کہ ان کی سرحدوں سے کچھ فاصلے پر زار شاہی جیسی سفاک اور قدیم سلطنت خشک گھاس کی طرح اُڑ گئی اور وہاں کے لوگوں پر ایک نیا سورج طلوع ہوا۔

بیسویں صدی انقلاب اور خواب کی صدی

بیسویں صدی انقلاب اور خواب کی صدی تھی۔ قومی آزادی اور استحصال سے نجات کی تحریکیں پوری دنیا میں چل رہی تھیں۔ نوجوان سیاسی کارکن وطن کی آزادی اور انقلاب کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ ادب میں نئے رجحانات جنم لے رہے تھے۔ ہر سیاسی کارکن عالمی بالخصوص روسی ادب کا مطالعہ ضرور کرتا تھا۔ اس دور کے انقلابی سیاسی کارکن میکسم گورکی کا مشہور عالم ناول ’’ماں‘‘ کا مطالعہ کرنا اپنا فرض تصور کرتے تھے۔ اب زمانہ تبدیل ہورہا ہے۔

کتابیں لکھنے والے عظیم رہنما اور آج کے سیاست دان

سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں میں پڑھنے کا رجحان تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ بیسویں صدی کے زیادہ تر عظیم رہنماؤں نے کتابیں لکھیں جو کتب یا اپنی خودنوشت نہ لکھ سکے انھوں نے اخبار اور رسائل میں مضامین لکھے۔ آج کے بڑے سیاستدان اور فعال کارکن نہ کتابیں پڑھتے ہیں اور نہ ہی کچھ لکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست صرف جذباتی نعروں تک محدود ہورکر رہ گئی ہے۔ ہم بحرانوں میں گھرے ہوتے ہیں جس سے باہر نکلنے کے لیے جس سیاسی دانش کی ضرورت ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

اردو میں روسی ادب پر 80 برس پہلے چشم کشا کام

ان دنوں ہندوستان کی تقریباً ہر زبان سمجھنے والوں میں روسی ادب اور ادیبوں کے بارے میں جستجو تھی۔ ایسے میں ہمارے ایک معتبر اور معروف محقق پروفیسر مجیب نے آٹھ برس کی محنت کے بعد اردو میں ’’روسی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک وقیع کتاب لکھی۔ آج اس کتاب کی اشاعت کو اَسّی برس گزرچکے ہیں۔ اس دوران انجمن نے اس کے تین ایڈیشن شایع کیے جو ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔

پروفیسر مجیب کی یہ کتاب میں نے نوعمری میں پڑھی تھی۔ اس وقت اس سے بہت متاثر ہوئی لیکن اس کے پہلے باب کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ مطالعہ کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ مولوی عبدالحق کی سرپرستی میں پروفیسر مجیب نے جس کاوش سے روسی زبان اور ادب کا محاکمہ کیا ہے، وہ ہمارے لیے چشم کشا ہے۔

روسی ادب کسی طلسمی محل کی طرح یکایک وجود میں آیا

پروفیسر مجیب دوسری یورپی زبانوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’دوسری قوموں نے رفتہ رفتہ ادب کا ذخیرہ اکھٹا کیا۔ روسی ادب ایک طلسمی محل کی طرح حیرت انگیز تیزی سے وجود میں آگیا۔‘‘ پروفیسر مجیب نے اپنی بات عوامی گیتوں سے شروع کی ہے اور پھر قدیم روسی رزمیہ شاعری کا بیان ہے۔ قصے کہانیاں ہیں، روحانی قصے ہیں جنھیں پروفیسر نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔

پشکن روسی ادبی تاریخ کا سب سے بڑا شاعر اور ادیب

پیٹراعظم اور ملکہ کیتھرین کے دور میں روسی ادب کو عروج ہوا۔ کہانیاں اور ناول لکھے گئے۔ شاعری تو ابتدائی زمانوں سے ہورہی تھی لیکن یہ 1799 تھا جب پشکن جیسے عظیم شاعر کی پیدائش ہوئی۔ پشکن نے آزادی کی مدح میں چند نظمیں لکھیں لیکن اسے ایک فحش قصیدہ لکھنے کے جرم میں جلاوطن کردیا گیا۔ اس جلاوطنی نے اس کی شہرت کو چار چاند لگادیے۔ روسی ادب کی تاریخ میں پشکن سب سے بڑا شاعر اور مدبر بن کر ابھرا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسی سے روسی ادب کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔

روسی ڈرامہ ملکہ کیتھرین کے دور میں پروان چڑھا

پشکن کے بعد چیوچف، ریلے یف، خوم یاکوف، کولٹ سوف، نکرا سوف، مائی کوف، یولون سکی اور دوسروں کا ذکرکرنے کے بعد وہ ہمیں روسی حکایتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ روسی ڈرامہ ملکہ کیتھرین دوم کے زمانے میں پروان چڑھا۔ اس فن میں اوس تروف سکی جیسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے۔ وہ چیخوف کی فنی عظمت کو ہم پر آشکار کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ چیخوف کے بعد استعاریت کی ادبی تحریک کمزور پڑگئی۔

گوگول کے ناول اور ان کا ادبی مقام

روسی ناول کا ذکر وہ گوگول کے تذکرے سے آغاز کرتے ہیں وہ ایک بڑا ڈرامہ نگار اور ناول نویس تھا۔ اس کا مقصد جی بہلانے والی کہانیاں لکھنا نہیں، وہ اپنی تحریر کے آئینے میں اپنے ہم وطنوں کو زندگی کے حقائق کی جھلکیاں دکھاتا تھا۔ گوگول روسی ہی نہیں دنیا کے بڑے ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

انیسویں صدی میں روس کے کئی بڑے ناول نگار اورڈرامہ نویس پیدا ہوئے۔ پروفیسر مجیب کو ترگنیف کی تحریروں میں روسی کسانوں اور غریبوں کے دکھ نظر آتے ہیں اور اس کا شمار دنیا کے عظیم ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ دستوفسکی کے بارے میں رائے دیتے ہیں کہ ’’اس کی تحریروں کا شمار ان الہامی کتابوں میں ہونا چاہیے جنھوں نے ایک قوم کے جاں بہ لب عقیدوں اور حوصلوں میں جان ڈال کر ویرانوں کو آباد کیا ہے اور ایک نئی دنیا تعمیر کی ہے۔‘‘

عظیم ادیب ٹالسٹائی اور ان کے لا زوال ناول

سالتی کوف، یسکوف کے بعد وہ ٹالسٹائی کی ادبی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ انھوں نے ٹالسٹائی کی ابتدائی زندگی، اس کی تحریروں اور قفقاز کے سفر کا نقشہ کھینچا ہے، پھر وہ اس کے حب وطن کا ذکر کرتے ہیں، جب انگلستان، فرانس اور ترکوں کے کریمیا پر حملے کا سن کر وہ بے قرار ہوجاتا ہے اور کسی جاں باز کی طرح داد و شجاعت دیتا ہے۔ وہ ٹالسٹائی کے ناول ’’جنگ اور صلح‘‘ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔

یہ وہ ناول ہے جس نے ٹالسٹائی کو دنیا کے عظیم ادیبوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ’’جنگ اور صلح‘‘ اگر ایک وسیع و عریض کینوس پر پھیلا ہوا ناول ہے تو اس کے بعد ’’اینا کرنینا‘‘ ہے جو چند انسانوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے اور پڑھنے والوں کو رلا دیتا ہے۔ اس ناول نے روس اور یورپ میں ایک اخلاقی بحث چھیڑ دی جو سالہا سال جاری رہی۔

ٹالسٹائی نے ’’عوام کی کہانیاں‘‘ لکھیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جو اس نے کسانوں اور داستان گو حضرات سے سنی تھیں۔ ان سب میں ایسی سادگی اور ہمواری ہے، خالص ادبی خوبیوں سے ایسا تغافل برتا گیا ہے کہ وہ ادب سے ایک برتر چیز بن گئی ہیں اور ان میں نصیحت بھی کی گئی ہے تو ایسے پیرائے میں اور ایسی ظاہری بے پروائی سے کہ وہی بات، جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ادب لطیف میں کھپتی نہیں، یہاں زیور کا نگینہ، حسن کی خاص ادا بن گئی ہے۔

’آدمی کو کتنی زمین چاہیے‘، ’اور تین بوڑھے‘ ایسے قصے ہیں کہ جنھیں ایک بار پڑھ لیجیے تو ساری عمر یاد رہیں اور اس وجہ سے یاد رہیں کہ ان میں جو نصیحت کی گئی ہیں وہ خودبخود دل پر نقش ہوجاتی ہیں۔ ’’آقا اور غلام‘‘ اسی رنگ میں ڈوبا ہوا افسانہ ہے، اگرچہ اس میں ادبی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اس خیال سے ٹالسٹائی نے اپنے ابتدائی زمانے کے ایک افسانے ’’برف کے طوفان‘‘ کا ایک حصہ پس منظر کے طور پر رکھا ہے۔

بیسویں صدی کے نصف تک آتے آتے جاری ملاقات چیخوف، ٹالسٹائی، شولو خوف تک آتے آتے سوویت یونین کے عظیم ادیبوں سے ملاقات ہوتی ہے اور ان کے براہ راست اثرات اردو ادب پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس روز ’’ایوان دوستی‘‘ میں طلباء سے باتیں کرتے ہوئے چیخوف، گوگول اور پشکن زیربحث آئے اور پھر انجمن ترقی پسند تحریک کا ذکر چل نکلا۔ (جاری ہے)
(بہ شکریہ روزنامہ ایکپریس)

 

معمر قذافی کا لیبیا اور اس کا قدیم شہر صحرا کا موتی غدامس

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی