کراچی (ویب ڈیسک) أج سابق صدر جنرل ضیاء الحق کی برسی ہے،آج سے 34 سال قبل ایک طیارہ حادثے میں جنرل ضیاء الحق جاں بحق ہوگئےتھے ۔طیارہ حادثے میں 30 اعلی شخصیات لقمہ اجل بنیں ۔آج تک حادثے کی اصل وجہ سامنے نہیں آئی ۔
17 اگست 1988 کو 30 اعلی شخصیات حادثے میں لقمہ اجل بنیں
سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیاء الحق کا طیارہ 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہوگیا تھا طیارے میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق سمیت 30 اعلی شخصیات سوار تھیں، طیارہ حادثے کے نتیجے میں صدر ضیاء الحق شہید ہوگئے تھے،ان کے ساتھ طیارے میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل، پاکستان میں امریکی فوجی مشن کے نگران بریگیڈیئر جنرل ہربرٹ ،اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبد الرحمن ، ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر صدیق سالک سمیت اعلیٰ فوجی افسران شامل تھے ۔ حادثے کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام افراد لقمہ اجل بنے ۔
آزاد ذرائع طیارے کی تباہی کو حادثہ ماننے سے انکاری
صدر ضیاء الحق کے طیارے کو کیا ہوا آج تک یہ معمہ حل نہ ہو سکا ، سرکاری تحقیقات میں اسے حادثہ قرار دیا گیا جو فنی خرابی کے باعث باعث پیش آیا لیکن غیر جانب دار ذرائع اسے محض حادثہ قرار دینے سے انکاری ہیں ، طیارے کو ایک منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا ، کہا جاتا ہے کہ طیارے میں آم کی پیٹیوں میں بارود اور گیس رکھی گئی تھی ، بارود دھماکے کے لئے اور گیس پائلیٹ اور جہاز کے عملے کو بے حس کرنے کے لئے رکھی گئی تھی ، بتایا جاتا ہے یہ منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں تیسرے آپشن کے طور پر طیارے کو میزائل سے نشانہ بنانا تھا جو کچھ فاصلے پر نصب کیا گیا تھا ۔
طیارہ واقعے کے بعد ملک میں جمہوری عمل بحال ہوا
جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد اس وقت کے چیرمین سینٹ غلام اسحاق خان قائم مقام صدر بنے جبکہ فوجی کمان جنرل مرزا اسلم بیگ نے سنبھالی ، بعد ازاں ملک میں عام انتخابات کرائے گئے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں ۔
ضیاء الحق 1977 کو بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگیا تھا
واضح رہے جنرل ضیاء الحق نے 1977 کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اس وقت کے منتخب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد 1988 کے طیارہ حادثے تک وہ پاکستان پر ایک آمر کے طور پر حکومت کرتے رہے ، جنرل ضیاء الحق شروع میں آرمی چیف کی حیثیت سے ہی زمام اقتدار پر قابض رہے 1984 کو اپنی ہی نگرانی میں کرائے گئے ریفرنڈم کے ذریعے صدر بن گئے اور طیارہ حادثے تک پاکستان کے صدر رہے۔
جنرل ضیاء الحق ایک طبقے کےلئےہیرو ،دوسرے طبقے کے لیے زیرو ہے
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ جنرل ضیاءالحق کو ان کے بعض اسلامی اقدامات کی وجہ سے ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے تو دوسری طرف ایک طبقہ ان کو ڈکٹیٹر کے روپ میں دیکھتا ہے جس نے گیارہ سال تک ملکی آئین کو معطل رکھا ، جمہوریت کا گلہ دبائے رکھا اور اظہار رائے کی آزادی کو سلب کئے رکھا