محرم کی دس تاریخ کو یومِ عاشوراء کہا جاتا ہے ،جس کے معنیٰ ہیں دسواں دن ۔ویسے تو ماہِ محرم پورا ہی حرمت اور عظمت کا مہینہ ہے ،قران کریم میں جن چار مہینوں کو حرمت والا قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک محرم الحرام کا مہینہ بھی ہے۔ اس مہینے کو محرم بھی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ محترم مہینہ ہے اور اس کی حرمت کا تصور قبل از اسلام بھی موجود تھا مگر اس مہینے کی دسویں تاریخ بہ طور خاص اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت و برکت کی حامل ہے۔ محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراء کہا جاتا ہے ۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشوراء کے دن کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ اس دن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پیارے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا، اس شہادت کے واقعہ کی وجہ سے عاشوراء کا دن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے ،یہ بات صحیح نہیں، خود حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں عاشوراء کا دن مقدس سمجھا جاتا تھا اور آپ نے اس کے بارے میں احکام بیان فرمائے تھے، قرآنِ کریم نے اس مہینہ کی حرمت کااعلان فرمایا تھا۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال بعد پیش آیا تھا، لہٰذا یہ بات درست نہیں کہ عاشوراء یا محرم کی فضیلت اس واقعے کی وجہ سے ہے، بلکہ یہ تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس شہادت کا مرتبہ اس دن عطا فرمایا جو پہلے سے ہی مقدس اور محترم چلا آرہا ہے ۔(حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، (البلاغ ،ذو الحجہ ۱۴۲۹ھ )
عاشوراء کے روزہ کی حقیقت
یوم عاشوراء زمانہ ٔ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ اہل جاہلیت (اسلام کی آمد سے قبل کے لوگ) عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے،اور اسی دن کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا تھا (بخاری ) قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے ان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے، اسی بناء پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، پس اپنے اس اصول کی بناء پر آ پ قریش کے ساتھ یومِ عاشوراء کا روزہ بھی رکھتے تھے (فتح الباری )
جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی، اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا( اور مسند احمد وغیرہ کی روایت کے مطابق اسی عاشوراء کے دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن کے روزہ کا زیادہ اہتمام فرمایا، اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمہاری بہ نسبت موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں، اور اس دن کے روزہ کا حکم فرمایا ۔ صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یومِ عاشوراء کی صبح مدینہ کی آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ داروں کی طرح رہیں ۔
رمضان کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ
حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے اور اس کی ترغیب دیتے تھے، اور اس کی تاکید فرماتے تھے ۔ پھر جب رمضان کا روزہ فرض ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ حکم فرماتے تھے نہ منع فرماتے تھے اور نہ اس کا عہد و پیمان لیتے تھے۔(مسلم ص:۳۵۸) ان حدیثوں کی بناء پر بہت سے ائمہ نے یہ سمجھا ہے کہ شروع میں عاشوراء کا روزہ ضروری تھا، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزہ کی رہ گئی۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں بھی عاشوراء کا روزہ ضروری نہیں تھا، چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آج عاشوراء کا دن ہے ، اس دن کا روزہ اللہ پاک نے فرض نہیں کیا ہے۔ میں روزے سے ہوں، جو پسند کرے آج کے دن روزہ رکھے اور جو نہ رکھنا چاہے نہ رکھے۔(مسلم ص:۳۸۵)
عاشوراء کے روزہ کی فضیلت
بہرحال اس بات سے قطع نظر کہ عاشوراء کا روزہ پہلے فرض تھا یا نہیں، اس دن کے روزہ کی فضیلت آج بھی برقرار ہے ،اسی لیے بعد میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ اس دن کے روزہ کا اہتمام کرتے تھے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : ’’میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی دن کے روزہ کا بہت زیادہ اہتمام اور فکر کرتے ہوں، سوائے یوم ِعاشوراء کے اور سوائے مبارک رمضان کے ‘‘ مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طرز عمل سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہی سمجھا کہ نفلی روزوں میں آپ جس قدر اہتمام یوم عاشوراء کے روزہ کاکرتے تھے ،اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عاشوراء کا ایک روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔(مسلم) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عاشوراء کے روزہ سے ایک سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(مجمع الزوائد ۳؍۱۹۲)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عاشوراء کا روزہ حضرات انبیاء کرام نے رکھا ہے پس تم روزہ رکھو۔( کنز العمال: ۵۷۲)
ان روایات سے معلوم ہواکہ عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب اور بڑے اجر و ثواب کا عمل ہے۔
عاشوراء کا روزہ رکھنے کا طریقہ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ : اس دن کو تو یہود و نصاری بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں کا بھی روزہ رکھیں گے ان شاء اللہ‘‘
پس سال آئندہ آیا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوگئی۔(مسلم) اس حدیث کی وجہ سے علماء فرماتے ہیں کہ یوم عاشوراء کے ساتھ اس سے پہلے نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے، اور اگر نویں تاریخ کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعدگیارہویں تاریخ کو روزہ رکھ لیا جائے،چنانچہ بیہقی شریف کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عاشوراء کے روزے کے بارے میں فرمایا: ’’عاشوراء کے دن روزہ رکھو اور اس سے ایک دن پہلے اور (یا) ایک دن بعد بھی روزہ رکھو، اور یہود کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔
عاشوراء کے دن اہل و عیال پر وسعت کرنا
حضرت ابن ِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر خر چ میں فراخی کرے گا ، اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لئے فراخی فرمائیں گے (مشکوٰۃ)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن اپنے گھر والوں اور ان لوگوں کو جو اس کے عیال میں داخل ہیں مثلاً اس کے بیوی بچے، گھر کے ملازم وغیرہ، ان کو عام دنوں کے مقابلہ میں اچھا کھانا کھلائے، یعنی اس دن عام دنوں کے مقابلہ میں اچھا کھانا بنائے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں بر کت عطافرمائیں گے۔
یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے مضبوط نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص اس پر عمل کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اس عمل پر جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ ان شاء اللّٰہ حاصل ہوگی ۔لہٰذا اس دن گھر والوں پر کھانے میں وسعت کرنی چاہیئے ۔
ایک افراط و تفریط والا رویہ
یہاں یہ بات بھی ذکر کردینا مناسب ہے کہ آجکل لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کے بارے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں، بعض لوگ اس حدیث کو ثابت ہی نہیں مانتے، حالانکہ یہ حدیث مختلف درجے کی سندوں سے منقول ہے اور اس کا یکطرفہ اور بالکلیہ انکار بھی درست نہیں، اور فقہاء کرام سے بھی اس دن اہل و عیا ل پر وسعت کر نے کا ثبوت ملتا ہے ۔
دوسری طرف بعض لوگ اس حدیث کو اتنی اہمیت دیدیتے ہیں کہ فرائض و واجبات ادا کرنے اور حرام کاموں سے بچنے کا اہتمام تو کرتے نہیں لیکن اس روایت پر عمل کرنے کو بہت ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لئے قسم قسم کے کھانے پینے کی چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کو رزق میں وسعت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، یاد رکھیئے کہ ان روایت پر عمل کرنے کا مکمل فائدہ تب ہوگا جب فرائض و واجبات کی ادائیگی ہو اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی ہو ، بہت سے گناہ ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے الٹا رزق میں تنگی ہوجاتی ہے۔
لہٰذا، اس روایت پر اعتدال کے ساتھ عمل کرنا چاہیئے اور وہ یہ کہ اس حدیث کا انکار نہ کیا جائے، لیکن اس میں بیان کردہ عمل کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے، بلکہ دنیاوی برکت کے حصول کاایک ذریعہ سمجھا جائے، نہ کرنے والے کو قابلِ ملامت نہ سمجھا جائے ،یہ وہم نہ رکھا جائے کہ اگر اس پر عمل نہیں کیا تو سارے سال بے برکتی ہوگی، اس موقعہ پر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے، اس کے لئے خاص قسم کے کھانوں مثلاً حلیم ، کھیر یا کھچڑی کو مخصوص نہ کیاجائے، اس میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے کہ جس میں اہلِ بدعت کے ساتھ مشابہت ہو ، اس کو اتنا نہ بڑھایا جائے کہ پورے علاقہ والوں یا محلے والوں کو شامل کرنے کا التزام کیاجائے، واضح رہے کہ حدیث میں اہل و عیال کا ذکر ہے ۔(ماخوذ از ماہ محرم کے فضائل و احکام ،البلاغ )