سیدنا موسی علیہ السلام کے معجزے کی سائنسی تصدیق
ضیاء چترالی
سیدنا حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم کا تعاقب کرتے ہوئے فرعون اور اس کے لشکر کا سمندر میں غرق ہونے کا واقعہ قرآن کریم سمیت آسمانی اور تاریخی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ موسی علیہ السلام کے عصا مارنے سے سمندر میں ان کیلئے راستہ بن گیا تھا، جس سے آپؑ بہ آسانی اپنی قوم بنی اسرائیل کو لیکر پار ہوگئے، جبکہ تعاقب کرنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوگیا۔
سائنس دانوں کی سمندر کے دو حصے ہونے کی تصدیق
سائنسدان اس واقعہ کو محض افسانہ قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم ان کی جانب سے اس پر تحقیق بھی ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ روسی سائنسدان سمندر کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کو طویل تحقیق کے بعد سائنسی طور پر ثابت کر چکے ہیں۔
بحیرہ احمر سے فرعونی لشکر کی باقیات برآمد
اب سویڈش سائنسدانوں کی ٹیم کو بحیرئہ احمر (Red Sea) کی تہہ سے فرعونی لشکر کی باقیات اور تلواروں سمیت متعدد ایسے شواہد ملے ہیں، جس سے موسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے کو سائنس بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
سونے کے پہیوں والے رتھ، ہتھیار ،گھوڑوں اور انسانوں کی ہڈیاں دریافت
برطانوی اخبار ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق سویڈن کے سائنسدان ڈاکٹر رینارٹ مولر تحقیق کاروں کی ایک ٹیم کو لے کر بحیرئہ احمر کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ڈاکٹر مولر کی ٹیم نے مصر کے ساحل پر ایک مخصوص مقام سے سمندر کی تہہ میں قدیم آثار کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا اور وہ تمام حیرت ناک شواہد اپنی آنکھوں سے دیکھے جو موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کی گواہی آج بھی دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس سمندر کی تہہ میں آج بھی ٹوٹے پھوٹے رتھ بکھرے پڑے ہیں، جن کے پہیے سونے کے ہیں اور ان کے آس پاس ہزاروں سال پرانی تلواریں اور دیگر قدیم ہتھیار بھی بکھرے پڑے ہیں۔ جہاں قدیم دور کے رتھ اور ہتھیار ملے ہیں، وہیں انسانوں اور گھوڑوں کی ہڈیاں بھی بڑی تعداد میں اکٹھی ملی ہیں۔
ونڈ سیٹ ڈاون تھیوری
ڈاکٹر مولر کا کہنا ہے کہ ان اشیاء کی زیر سمندر موجودگی کا اس کے سوا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ یہ فرعون کی فوج کے رتھ ہیں اور ہڈیاں فرعون کے فوجیوں اور ان کے گھوڑوں کی ہیں۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی، جس کا نام (The Exodus Case) ہے۔ ڈاکٹر مولر کی تحقیق اس سے پہلے کی گئی مشہور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ران وائٹ کی تحقیق پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ ڈاکٹر ران وائٹ کا کہنا تھا کہ انہوں نے فرعونی فوج کے رتھوں اور اسلحہ کی سمندر کی تہہ میں پڑی باقیات کو خود دیکھا تھا اور اس کے تصویری شواہد بھی اکٹھے کئے تھے۔ ایک اور تحقیق انجینئر کارل ڈریوز نے کی، جو کہ پبلک لائبریری آف سائنس کے جریدے میں شائع کی گئی۔ اس تحقیق میں انجینئر کال ڈریوز کا کہنا تھا کہ سمندر میں راستہ بن جانے کا واقعہ بالکل حقیقت ہو سکتا ہے، کیونکہ ”ونڈ سیٹ ڈاوٴن“ نامی ماحولیاتی کیفیت اس طرح کے حیرت انگیز واقعات کو جنم دے سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ مخصوص موسمی حالات میں 60 میل فی گھنٹہ سے زائد رفتار سے چلنے والی ہوائیں ایک جگہ رکے ہوئے پانی پر دباؤ ڈالتی ہیں تو یہ لہروں کی صورت میں اطراف کی جانب چلا جاتا ہے، جس کے باعث عین ممکن ہے کہ پانی بڑی لہروں کی صورت میں اپنی جگہ سے ہٹ جائے اور درمیان میں بہت کم پانی یا خشکی کا راستہ پیدا ہو جائے، البتہ ان کا خیال ہے کہ سمندر میں خشکی کا راستہ بننے کا تاریخی واقعہ بحیرہ احمر کی بجائے اس کے قریب واقع تاریخی شہر تانیز کی ایک جھیل میں پیش آیا، جس میں تقریباً چار کلومیٹر پر مشتمل خشک راستہ پیدا ہوگیا تھا۔
حضرت موسیٰ کس فرعون کی طرف مبعوث ہوئے تھے ؟
انجینئر کارل ڈریوز نے بھی اپنے نظریے کے متعلق متعدد شواہد پیش کئے ہیں۔ ان حیرت انگیز شواہد کا جائزہ دنیا بھر میں درجنوں سائنسدان لے رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ بات عین ممکن دکھائی دیتی ہے کہ سمندر میں خشک راستہ بن جانے کا واقعہ، جو کہ مذہبی کتب میں بیان ہوا ہے، حقیقت میں پیش آیا تھا۔ واضح رہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو منفتاخ نامی فرعون کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اس فرعون کا نام رمسیس دوم تھا۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔ جسے نجات دلانے کیلئے موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھ لے کر مصر سے نکلے تو فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا۔ جب بحیرہ احمر کے ساحل پر پہنچے تو آپؑ نے (خدا کے حکم کے تحت) اپنے عصا کو پانی پر مارا، جس سے سمندر میں ایک خشک گزر گاہ بن گئی اور آ پ مع ساتھیوں کے گزر گئے۔ ادھر جب فرعون تعاقب کرتا ہوا اسی راستہ سے گزرا تو خدا نے پانی کے شگاف کو دوبارہ ملا دیا، اس طرح فرعون اپنے تمام کروفر کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق ہو گیا۔
خدا کی اس مدد کا ذکر قرآن میں کچھ یوں ہے: ”اور ہم نے موسیٰ کو حکم دیا سمندر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتر جاوٴ، اسے دو حصوں میں پاٹ دیا، ہر حصہ جیسے اونچی اور ہم باقیوں کو اس تک لے آئے۔“ بعض شارحین نے اس کو غالباً فلکیاتی اسباب کی بنا پر ایک مدوجزر کا واقعہ خیال کیا، بعض نے اس کو کسی دور افتادہ مقام پر ہونے والے آتش فشانی عمل سے متعلق ایک زلزلہ سمجھا، لیکن یہ سب کچھ ایک خالص مفروضہ ہے۔
روسی سائنس دانوں کی عجیب تحقیق
جدید سائنسی تحقیق سمندر کی دو پاٹوں میں تقسیم ہونے کو ثابت کر چکی ہے۔ حالیہ تحقیق سے قبل دو روسی سائنسدانوں نے بحیرہ احمر کے مذکورہ مقام پر باریک بینی سے تحقیق کی اور اس معجزہ کی تصدیق تک پہنچ گئے۔ ان کی یہ تحقیق روسی جریدے (Bulletin of Russia Academy of Science) میں شائع ہوچکی ہے۔ مذکورہ سائنسدانوں کے مطابق اس وقت بحیرہ احمر میں سطح کے عین قریب ایک سمندری چٹان تھی، وہاں سے سائنسدانوں نے ہوا کی رفتار اور طوفان کی طاقت کا اندازہ کیا، جو اس خشک چٹان کو اونچا کرنے کو درکار تھا، یوں واضح ہو گیا کہ ہوا کی رفتار 30 میٹر پر سیکنڈ نے سمندر کو پچھاڑ دیا ہو گا اور چٹان سامنے آ گئی ہوگی۔
اگر ہوا 30 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ساری رات چلتی رہی ہوگی تو چٹان خشک اور سامنے آ گئی ہوگی۔“ مزید یہ کہ فرعون کے لشکر کی تعداد چھ لاکھ تھی اور انہیں اس 7 کلومیٹر کی چٹان کو پار کرنے میں چار گھنٹے درکار تھے، جبکہ پانی نے آدھے گھنٹے میں واپس آ جانا تھا۔
نیوٹن کے قوانین اور حضرت موسیٰ کا معجزہ
اس معجزے کو نیوٹن کے قوانین کی روشنی میں بھی جانچا گیا تو سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ ”ہم معترف ہیں کہ خدا طبیعات کے قوانین کے ذریعے زمین پر حکومت کرتا ہے۔“ لہٰذا اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ خدا جب چاہے کیسے بھی حالات پیدا کر سکتا ہے۔ قرآن پاک کی سورئہ 25 کی آیت نمبر53 میں ارشاد ہے کہ ”اور وہی ہے جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ ہے میٹھے اور مزیدار اور یہ ہے کھاری اور دونوں کے درمیان ایک حجاب اور مضبوط اوٹ کر دی، جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے“۔
قاہرہ میوزیم میں موجود ممی کے سمندر میں غرق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے
واضح رہے کہ قاہرہ کے میوزیم میں رکھی فرعون کی لاش (ممی) پر ہونے والی درجنوں تحقیقات میں بھی اس کے سمندر میں غرق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ قرآن کریم نے اس کی لاش کو محفوظ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ مگر یہ ممی شدہ لاش 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کی تھی۔ جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے 8 جولائی 1907ء کو اس کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔ جبکہ لاش کے کانوں میں سمندر ریت کے ذرے بھی کافی مقدار میں ملے تھے۔ یہ بھی اس کے سمندر میں غرق ہونے کی واضح دلیل ہے۔
لاش کی ناک کے سامنے کا حصہ غائب ہے
ایلیٹ اسمتھ نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اور جسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ”شاہی ممیاں“ (1912ء) میں درج کیا ہے۔ اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی، حالانکہ اس کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے۔ اِس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحوں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اور گردن کھلے ہوئے ہیں اور باقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپا کر ر کھا ہوا ہے۔ محمد احمد عدوی ”دعوة الرسل“ میں لکھتے ہیں کہ اس لاش کی ناک کے سامنے کا حصہ غائب ہے، جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو، غالباً سمندری مچھلی نے اس پر منہ مارا تھا، پھر اس کی لاش خدائی فیصلے کے مطابق کنارے پر پھینک دی گئی تاکہ دنیا کے لیے عبرت ہو۔
یہ بھی پڑھیئے:
ترک کمپنی نے الیکٹرک کار تیار کرلی ، عالم اسلام کے لئے بڑی خوش خبری