دنیائے اسلام کا مقدس شہر نجف اشرف ، عراق

دنیائے اسلام کا مقدس شہر نجف اشرف ، عراق

نوید نقوی

دنیا میں چند ایسے شہر ہیں جو زمانہ قدیم سے آباد چلے آ رہے ہیں اور ان کے تقدس میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا اور آج دور جدید میں بھی کروڑوں لوگ ان شہروں میں جا کر وہاں کی مقدس خاک کو چومنا سعادت سمجھتے ہیں۔
عراق ایک ایسی سرزمین ہے جہاں قدم قدم پر ایسے مقامات ہیں جن کی اپنی ایک منفرد اور خاص پہچان ہے۔ عراق مشرق وسطیٰ کا ابھرتا ہوا ایک بڑا اور طاقتور ملک ہے جس کے بارے میں تفصیل سے انہی صفحات پر ضرور لکھوں گا۔ فی الحال اس ملک کے ایک مقدس ترین شہر کا رخ کرتے ہیں جہاں کی خاک کو چومنا ہر محب اہلبیت کی خواہش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

حضرتِ امام جعفر صادق کا قول

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ہم اہل بیت علیہم السلام تمہیں کوفہ کے پیچھے واقع شہر نجف کی سفارش کرتے ہیں، وہاں ایک قبر ہے جس بیماری کے ساتھ بھی وہاں جاؤ، خدا اس بیماری سے شفا عطا فرمائے گا۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ کوفہ کا مشرقی حصہ یعنی نجف جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔

نجف شہر کی تاریخی اور مذہبی حیثیت

نجف اشرف عراق کا ایک ایسا شہر ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے روضہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ اس میں حضرت علی علیہ السلام کی بنائی ہوئی ایک قدیم مسجد ہے۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، روئے زمین پر پہلی جگہ جہاں خدا کی عبادت کی گئی وہ نجف ہے۔ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے خدا کے حکم سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نجف شہر

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی شہر میں قیام فرمایا اور ان کی برکت سے اس سرزمین پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوئیں۔ فرات کے کنارے وادی ذی الکفل کے قریب ایک پہاڑی ہے جس کے اوپر اینٹوں کا ایک قلعہ تعمیر کیا گیا ہے جو تہ خانے پر بھی مشتمل ہے، کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی جگہ آگ میں پھینکا گیا تھا یہ برج اور پہاڑ شہر بابل کے آثار قدیمہ میں شمار کیا جاتا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے باوجود اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی قبور

اسی شہر اشرف میں انبیاء علیہم السلام کی قبور بھی موجود ہیں جن میں حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام شامل ہیں۔

نجف اپنے مذہبی مدرسوں، قدیم کتب خانوں اور علمائے کرام کی وجہ سے بھی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی میں ایران کا شہر قم شیعہ مدرسوں کا زیادہ بڑا مرکز بن گیا ہے، مگر اب نجف امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اپنی کھوئی ہوئی حیثیت دوبارہ حاصل کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنه

نجف شہر کا محل وقوع

نجف عراقی دارالحکومت بغداد سے 160 کلومیٹر دور ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کے شہر کربلا سے جنوب مشرق میں قریباً 80 کلومیٹر اور موجودہ کوفہ کے جنوب میں 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ قدیم کوفہ کے بالکل قریب اونچی جگہ پر واقع ہے۔ حیرہ جیسے قدیمی شہر جس کی روشن تہذیب کا عراق کی تاریخ میں بہت اعلی مقام ہے، کا نجف کی مجاورت میں ہونا اس شہر کی تاریخی قدامت کا آئینہ دار ہے۔

حوزہ علمیہ قدیم ترین مدرسہ

یہاں کا قدیم ترین مدرسہ حوزہ علمیہ نجف پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ حوزہ علمیہ قدیمی ترین حوزات علمیہ اسلامیہ میں سے ایک ہے۔ تاریخی مصادر کے مطابق شیخ طوسی نے پانچویں صدی ہجری میں اس علمی مرکز کی بنیاد رکھی۔ بہت سے علما و فقہا نے اس حوزہ میں تعلیم حاصل کی ہے جن میں علامہ حلی، شیخ مرتضی انصاری، ایران کے بانی اسلامی انقلاب امام خمینی، آخوند خراسانی، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، سید محسن حکیم، سید ابو القاسم خوئی، آیت اللہ باقر الصدر، آیت اللہ حافظ محمد بشیر حسین نجفی و آیت اللہ سید علی حسین سیستانی جیسے جید علماء کرام شامل ہیں۔

قدیم مساجد اور کتب خانے

مسجد شیخ انصاری، مسجد حنانہ و مسجد خضراء نجف کی معروف اور قدیم مساجد میں سے ہیں۔ شہر نجف میں مختلف کتب خانے و چاپ خانے جیسے کتب خانہ و چاپ خانہ حیدریہ، کتب خانہ بحر العلوم و چاپ خانہ مرتضویہ بھی موجود ہیں۔

موجودہ اہم علمی شخصیات

یہاں کے مشہور عالم دین آیت اللہ سید علی حسین سیستانی سب سے طاقتور اور بڑے مجتہد ہیں۔ ان کے علاوہ اس شہر میں ایک پاکستانی شخصیت بھی کافی اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ یہاں کئی دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں ان کا نام حافظ محمد بشیر حسین نجفی ہے۔ عراقی حکومت میں ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی اہمیت سے اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے کوئی بھی سرکاری سطح پر وفد عراق جائے حافظ صاحب سے لازمی ملتے ہیں۔

وادی السلام اور صحابہ کی قبور

نجف کے شمال میں وادی السلام جو انبیاء اور اولیاء کا مشہور قبرستان ہے۔ یہ قبرستان نجف شہر کے شمال مشرق میں واقع ہے جو 20 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نجف اشرف میں بعض صحابہ، تابعین اور امام علی علیہ السلام کے یار و مددگار اور بعض امام زادگان بھی سپرد خاک ہیں۔ ان میں سے اکثر ثویہ نامی مقام پر مسجد حنانہ اور مسجد کوفہ کے درمیان 3 کلو میٹر کے فاصلے پر مدفون ہیں۔ جبکہ اس کے جنوب میں دریائے نجف، سعودی عرب، اردن اور شام تک پھیلا ہوا صحرا بادیۃ الشام واقع ہے۔ یہ شہر کوفہ اور ریگستان کے درمیان واقع ہے اس لیے گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے۔

نجف کی موجودہ آبادی اور مختلف ادوار میں آباد کاری

نجف کا لفظی مطلب ہی اونچی جگہ ہے۔ اس کی آبادی قریباً دس لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں 100 فیصد آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ شہر کسی زمانے میں ایران کی ساسانی سلطنت میں شامل تھا اور حوادث زمانہ کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکا تھا لیکن عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اس کی نئے سرے سے تعمیر کی اور اس کی شناخت پھر لوٹ آئی۔ بعض بادشاہ جیسے عضد الدولہ دیلمی، شاه اسماعیل صفوی و شاه طہماسب صفوی اور قاجاری بادشاہوں نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

عثمانی دور میں شہر کی آبادی میں کمی

سلطنت عثمانیہ کے عظیم سلطان سلیمان قانونی جو ایک سنی عثمانی بادشاہ تھے، نے بھی نجف کو آباد کرنے میں بہت سعی کی اور نجف کو زیادہ رونق بخشی۔ عثمانی خلافت کے زمانے میں مختلف عرب قبائل کے حملوں اور پانی کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے گھروں کی تعداد 30,000 سے کم ہو کر صرف سولہویں صدی میں 300 رہ گئی تھی۔ 1803 میں نہر ھندیہ کی تعمیر سے پانی کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوا تو شہر کی آبادی یکدم 60,000 سے تجاوز کر گئی۔

نجف پر برطانوی قبضہ اور بغاوت

سن 1915ء میں شہر کو عثمانی خلافت سے آزاد کروایا گیا مگر یہ برطانوی قبضہ میں چلا گیا۔ 1918ء میں شہر کے مذہبی رہنما سید مہدی الاعوادی نے بغاوت کر دی تو برطانوی فوج نے شہر کو گھیرے میں لے کر پانی کی رسد بند کر دی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ 1999 میں یہاں کے ایک اہم مذہبی رہنما سید صادق الصدر کو صدام حسین نے دارالحکومت بغداد میں شہید کر دیا تو ردعمل کے طور پر نجف کے حالات کافی خراب ہوگئے اور بہت خون ریزی ہوئی۔

صدام حکومت کا خاتمہ اور شہر پر امریکی قبضہ

سنہ 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہاں امریکی فوج کا قبضہ ہو گیا تو انہی رہنما سید صادق الصدر کے بیٹے جو مہدی آرمی کے سربراہ بھی تھے، مقتدی الصدر نے امریکی فوج کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس کے بعد 2007 میں بھی اس شہر نے کافی خون ریزی دیکھی۔ آج کل شہر کے حالات کنٹرول میں ہیں اور مرکزی حکومت کی رٹ مکمل بحال ہے۔

اربعین کا تہوار اور اربعین واک

عراق کے اسی مقدس شہر سے ہر سال صفر کے مہینے میں اربعین واک بھی ہوتی ہے جو یہاں سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر کربلا شہر تک ہوتی ہے جہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کا روضہ مبارک ہے۔ اور اس موقع پر غریب اور امیر کی تفریق سے بالاتر ہو کر مقامی عراقی لوگ زائرین کی خدمت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ اربعین عربی گنتی میں 40 کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً کسی شخص کی موت کے 39 دن بعد اس کی یاد میں منائے جانے والے دن کو کہا جاتا ہے۔
عراق میں اربعین کا تہوار سنہ 61 ہجری میں دس محرم کو پیش آنے والے کربلا کے سانحے کے 40 دن کی تکمیل پر 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔ اربعین واک کا آغاز کب ہوا اس بارے میں مصدقہ طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم نجف کے حوزة علمیة سے تعلق رکھنے والے علماء کے مطابق تاریخی روایات کے مطابق حضرت جابر بن عبد اللہ الانصاری وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی۔ آج، کربلا کے واقعے کے 1400 سال بعد بھی نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی کی یاد میں دنیا کے کونے کونے سے کروڑوں افراد نجف اور کربلا پہنچتے ہیں۔ میری دعا ہے علی علیہ السلام کے ہر چاہنے والے کو ان کی قبر کی زیارت نصیب ہو اور ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا ہو۔ آمین ثم آمین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top