اے راہِ حق کے شہیدو!
قرۃ العین کامران
یوم دفاع
ہر سال 6 ستمبر کو پاکستان کے عوام یوم دفاع مناتے ہیں۔اس دن 1965 کی جنگ کے تاریخی واقعات بیدار جسموں اورزندہ روحوں کے ساتھ لڑنے والےسیپاہیوں کی یاد تازہ کر دیتے ہیں جنہوں نےہمتِ مرداں اور مددِ خدا کی شاندار مثال قائم کی اور اپنے ملک کی سرحدوں کو بھارت کے ناپاک عزائم سےمحفوظ کیا۔پاکستانی عوام اس دن ان قومی ہیروز اور شہیدوں کے دلیرانہ کارناموں اور جاں نثاری کے جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے ماہِ ستمبر میں دشمنانِ وطن کے پاکستان پر قبضے کے ارادے کو منوں مٹّی میں ملا دیا۔
بھارت کا منصوبہ
بھارتی افواج اور حکمرانوں کا یہ منصوبہ تھا کہ لاہور پر قبضہ کر کے لاہور جم خانہ کلب میں رات کو فتح کا جشن منائیں گے۔میجر عزیز بھٹّی کی قیادت میں بہادر افواج نے اپنی جانوں کو قربان کرکے دشمن کے حملوں کو پسپا کر دیا۔
ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ
1965 کی جنگ میں تقریباً 600 ٹینکوں نے حصّہ لیا تھاجس میں بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ بھارت میں چونڈا کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے۔
اس جنگ میں بھارت کو عددی برتری بھی حاصل تھی اور اس کے پاسں اسلحہ بھی بہت تھا، مگر اس کی فوج کے پاس وہ جذبہ ایمانی نہیں تھا جس سے پاکستانی فوج کے جوان سرشار تھے بھارتی ٹینکوں کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان کے عظیم سپوتوں نے اپنے سینوں کی فصیل بنائی اور ٹینکوں کو اپنے بدن سے بندھے بموں سے اڑا کر خاکستر کر دیا۔ ٹینکوں کی اس سب سے بڑی جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے سرفروشی کی وہ داستان رقم کی جس کی مثال جنگوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔
ستمبر 1965 لمحہ بہ لمحہ
5 ستمبر 1965 کی رات اچانک بھارتی فوج نے حملہ کر دیا اور لاہور شہر میں افراتفری پھیل گئی۔ شہریوں نے ریڈیو کے ذریعے خبر سنی اورصبح تک نوجوانوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہو چکی تھی۔بھارتی فوج جہازوں، توپوں اور ٹینکوں کے ذریعے گولے برسا رہی تھی۔
6 ستمبر کو واہگہ بارڈر پر صبح ٹھیک 3 بجکر 45 منٹ پر ہندوستان کی طرف سے گولہ آکر گرا۔اس موقع پر ایس جے سی پی پوسٹ پر موجد جوانوں نے چوکس ہو کر جوابی فائرنگ کی ۔ لڑائی اتنی شدید تھی کہ بھارتی فوجیوں نے قریب آ کر دستی بم بھی پھینکنے شروع کر دیے۔ جب پاکستانی فوجیوں کو دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔
میجر عزیز بھٹّی کی شجاعت
جب بھارتی فوج پیش قدمی کرنے لگی تو واہگہ بارڈر سے بی آر بی نہر کے پل تک پہنچ گئی۔
میجر عزیز بھٹی اپنے جاں نثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے پاس ڈٹے تھے۔ جس پر بھارتی افواج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ 7 ستمبر کو بھارت نے پوری طاقت کے ساتھ اس پر حملہ کیا۔اور میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ نے صرف 110 سپاہیوں کی مدد سے بھارت کی پوری بریگیڈ کو 10 گھنٹوں تک روک کر رکھا اور دن رات مورچے پر ڈٹے رہے۔
دشمن 10 ستمبر سے سیالکوٹ سیکٹر میں فوجیں جمع کر رہا تھا اس میں ان کا 6 آرمڈ ڈویژن مین حملے کی تیاری میں تھا۔ کچھ اور بھی جگہوں پر حملے ہو رہے تھے۔ ان میں کئی ایک ڈمی حملے تھے۔
میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں پاکستان کے بہادر فوجی اس اعصابِ شکن معرکہ میں سرخرو ہوۓ اور 12 ستمبر کو یہ لڑاٸی پانچویں روز میں داخل ہوئی تو اس وقت تک اس محاذ پر مادرِ وطن کے جیالے6 حملے روک چکے تھے۔
17 ستمبر کو لڑائی کا رخ اس جانب ہو گیا جہاں انفنٹری ڈویژن اور توپ خانہ پر مشتمل سیکٹر پر پاک فوج دشمن کا حملہ پسپا کرنے کے لیے تیار تھی۔
جوانوں نے اینٹی ٹینک ہتھیاروں سے حملے کو روکنے کی کوشش کی۔ چونڈہ کے مقام پر اس وقت صورتحال نازک ہو گٸی۔ جب دشمن اپنے متحرک یونٹوں کے ذریعے ہمارےمورچوں کو روندنے کی کوشش کی، اس موقع پر پاک فوج کے افسروں اور سپاہیوں نے اپنی پشتوں پر بم باندھ لیے اور دشمن کے ٹینکوں کی طرف تیر کی طرح بڑھے۔ دشمن قریب نہیں آنے دے رہا تھا۔
بہت سے جوان شہید ہو گۓ لیکن کٸی جوان قریب پہنچ کر خود کو دشمن کے نیچے پہچانے میں کامیاب ہو گئے۔ مائنبم کو جوانوں نے اپنی پیٹھوں پر باندھا ہوا تھا۔ جس بھارتی ٹینک کو بھی مائن بم لگا وہ پورا ٹینک آگ کی لپیٹ میں آگیا۔جیسے وہ گتّے کا بنا ہوا ہو۔ یہ خدا تعالٰی کی مدد تھی کہ دشمن کے ٹینک کا کریو عملہ بھی جل کر ختم ہو رہا تھا۔اس دن صحیح معنوں میں آگ اور لوہے کے طوفان سے سپاہیوں کا ٹکراٶ ہوا۔
ہر طرف بارود اور دھویں کے بادل تھے اور پاک فوج کے سپاہی اپنی پوزیشنز سنبھالے ہوۓ تھے اور اپنی ذات سے بے نیاز ہو کر دوڑ دوڑ کر شجاعت کا ایک نیا ورق لکھ رہے تھے۔ دھماکوں کی آواز سے علاقہ گونج رہا تھا اور کان بہرے ہوۓ جاتے تھے ۔ اس عالم میں پاک فوج کے جوان نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوۓ پیش قدمی کیےجا رہے تھے ۔
یوم دفاع کا پیغام
6 ستمبر ہمیں اس عزم سے سرشار کرتا ہے کہ جذبہ حب الوطنی ہی ملکی بقا اور سلامتی کا آخری ہتھیار ہے،یہ دن ہمیں سبق دیتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کا تقاضا جب بھی ہم سے جانوں کا خراج مانگے تو ہم میں سے ہر شخص خود کو تیار پاۓ۔ ہمیں پاکستان کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ اسکے نظریہ کی بھی حفاظت کرنا ہو گی کہ کہیں ہماری مٹّھی سے وطن کی محبّت ریت کی طرح سِرکنا نہ شروع ہو جاۓ۔